/* */

PDA

View Full Version : Iqbalkuwait's Threads



iqbalkuwait
03-21-2010, 06:11 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Sunday, 21 March 2010
Quran. 6 Aya.111,112
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلآئِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلاً مَّا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ إِلاَّ أَن يَشَاء اللّهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاء رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مُردے باتیں کرنے لگتے اور ہم ان پر ہر چیز (آنکھوں کے سامنے) گروہ در گروہ جمع کر دیتے وہ تب بھی ایمان نہ لاتے سوائے اس کے جو اﷲ چاہتا اور ان میں سے اکثر لوگ جہالت سے کام لیتے ہیں،
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا ربّ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)،
If We had sent down to them the angels, and the dead had spoken to them, and (even if) We had gathered everything before them face to face, still, they were not to believe, unless Allah would have so willed. But, most of them adopt the way of ignorance.
So it is that, for every prophet, We have set up enemies,__the devils of mankind and jinn__who seduce one another with alluring rhetoric in order to deceive__Had Allah willed, they would have not done it. So, leave them alone with what they forge
TAFSEER
ف١ یعنی اگر ان کی فرمائش کے موافق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فرض کیجئے آسمان سے فرشتے اتر کر آپ کی تصدیق کریں اور مردے قبروں سے اٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگیں اور تمام امتیں جو گزر چکی ہیں دوبارہ زندہ کر کے ان کے سامنے لا کھڑی کی جائیں تب بھی سوء استعداد اور تعنت و عناد کی وجہ سے یہ لوگ حق کو ماننے والے نہیں۔ بیشک اگر خدا چاہے تو زبردستی منوا سکتا ہے لیکن ایسا چاہنا اس کی حکمت اور تکوینی نظام کے خلاف ہے۔ جس کو ان میں کے اکثر لوگ اپنے جہل کی وجہ سے نہیں سمجھتے۔ اس کی تشریح پچھلے فوائد میں گزر چکی۔
ف٢ یعنی پیدا کر دیا ہم نے۔
ف٣ چونکہ خدا کی حکمت بالغہ تکویناً اسی کو مقتضی ہے کہ نظام عالم کو جب تک قائم رکھنا منظور ہے خیر و شر کی قوتوں میں سے کوئی قوت بھی بالکل مجبور اور نیست و نابود نہ ہو۔ اس لئے نیکی و بدی اور ہدایت و ضلالت کی حریفانہ جنگ ہمیشہ سے قائم رہی ہے۔ جس طرح آج یہ مشرکین و معاندین آپ کو بیہودہ فرمائشوں سے دق کرتے اور بانواع حیل لوگوں کو جادہ حق سے ڈگمگانا چاہتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے مقابل شیطانی قوتیں کام کرتی رہی ہیں کہ پیغمبروں کو ان کے پاک مقصد (ہدایت خلق اللہ) میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اسی غرض فاسد کے لئے شیاطین الجن اور شیاطین الانس باہم تعاون کرتے، اور ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے ہیں اور ان کی یہ عارضی آزادی اسی عام حکمت اور نظام تکوینی کے ماتحت ہے جو تخلیق عالم میں حق تعالٰی نے مرعی رکھی ہے۔ اس لئے آپ اعداء اللہ کی فتنہ پردازی اور مغویانہ فریب دہی سے زیادہ فکر و غم میں نہ پڑیں۔ ان سے اور ان کے کذب و افتراء سے قطع نظر کر کے معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔

HADEES MUBARAK
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2920 حدیث مرفوع مکررات 3متفق علیہ
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، علاء، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول نے ارشاد فرمایا دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔
Volume 1, Book 3, Number 68:
Narrated Ibn Mas'ud:
The Prophet used to take care of us in preaching by selecting a suitable time, so that we might
not get bored. (He abstained from pestering us with sermons and knowledge all the time).
Muhammad Iqbal Kuwait
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

Login/Register to hide ads. Scroll down for more posts
iqbalkuwait
03-22-2010, 05:15 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Monday, 22 March 2010
Quran. 6 Aya.113,114
وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ
أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
اور (یہ) اس لئے کہ ان لوگوں کے دل اس (فریب) کی طرف مائل ہو جائیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور (یہ) کہ وہ اسے پسند کرنے لگیں اور (یہ بھی) کہ وہ (انہی اعمالِ بد کا) ارتکاب کرنے لگیں جن کے وہ خود (مرتکب) ہو رہے ہیں،
(فرما دیجئے:) کیا میں اﷲ کے سوا کسی اور کو حاکم (و فیصل) تلاش کروں حالانکہ وہ (اﷲ) ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصّل (یعنی واضح لائحہ عمل پر مشتمل) کتاب نازل فرمائی ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی (دل سے) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے (مبنی) برحق اتارا ہوا ہے پس آپ (ان اہلِ کتاب کی نسبت) شک کرنے والوں میں نہ ہوں (کہ یہ لوگ قرآن کا وحی ہونا جانتے ہیں یا نہیں)
__and (they seduce one another) in order that the hearts of those who do not believe in the Hereafter may incline to it, and that they may be well pleased with it, and so that they commit what those (seducers) are used to commit.
So, should I seek someone other than Allah as judge, while it is He who has sent down to you the Book in details? Those We have given the Book know that it is revealed from your Lord with the truth. So, never be one of those who are in suspicion.
TAFSEER
ف٤ یعنی شیاطین ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی فریب کی باتیں اس لئے سکھلاتے ہیں کہ انھیں سن کر جو لوگ دنیا کی زندگی میں غرق ہیں اور دوسری زندگی کا یقین نہیں رکھتے ان ابلہ فریب باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اور ان کو دل سے پسند کرنے لگیں۔ اور پھر کبھی برے کاموں اور کفر و فسق کی دلدل سے نکلنے نہ پائیں۔
اللہ کے فیصلے اٹل ہیں
حکم ہوتا ہے کہ مشرک جو کہ اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کر رہے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ کیا میں آپس میں فیصلہ کرنے والا بجز اللہ تعالٰی کے کسی اور کو تلاش کروں؟ اسی نے صاف کھلے فیصلے کرنے والی کتاب نازل فرما دی ہے یہود و نصاری جو صاحب کتاب ہیں اور جن کے پاس اگلے نبیوں کی بشارتیں ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل شدہ ہے تجھے شکی لوگوں میں نہ ملنا چاہیے ، جیسے فرمان ہے (فان کنت فی شک مماانزلنا الیک) الخ، یعنی ہم نے جو کچھ وحی تیری طرف اتاری ہے اگر تجھے اس میں شک ہو تو جو لگو اگلی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان سے پوچھ لے یقین مان کہ تیرے رب کی جانب سے تیری طرف حق اتر چکا ہے پس تو شک کرنے والوں میں نہ ہو ، یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا کچھ ضروری نہیں اسی لۓ مروی ہے کہ حضور نے فرمایا نہ میں شک کروں نہ کسی سے سوال کروں ، تیرے رب کی باتیں صداقت میں پوری ہیں، اس کا ہر حکم عدل ہے ، وہ اپنے حکم میں بھی عادل ہے اور خبروں میں صادق ہے اور یہ خبر صداقت پر مبنی ہے ، جو خبریں اس نے دی ہیں وہ بلا شبہ درست ہیں اور جو حکم فرمایا ہے وہ سراسر عدل ہے اور جس چیز سے روکا وہ یکسر باطل ہے کیونکہ وہ جس چیز سے روکتا ہے وہ برائی والی ہی ہوتی ہے جیسے فرمان ہے آیت(یامرھم بالمعروف وینھاہم عن المنکر) وہ انہیں بھلی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے کوئی نہیں جو اس کے فرمان کو بدل سکے، اس کے حکم اٹل ہیں ، دنیا میں کیا اور آخرت میں کیا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ۔ اس کا تعاقب کوئی نہیں کر سکتا ۔ وہ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور ان کی حرکات سکنات کو بخوبی جانتا ہے ۔ ہر عامل کو اس کے برے بھلے عمل کا بدلہ وہ ضرور دے گا ۔
HADEES MUBARAK
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3001 حدیث مرفوع مکررات 9متفق علیہ
قتیبہ بن سعید، ، لیث، ، عقیل، زہری، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مومن ایک سوارخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔
Volume 1, Book 3, Number 69:
Narrated Anas bin Malik:
The Prophet said, "Facilitate things to people (concerning religious matters), and do not make
it hard for them and give them good tidings and do not make them run away (from Islam)."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
03-23-2010, 04:15 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Tuesday, 23 March 2010
Quran. 6 Aya.115,116
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور آپ کے رب کی بات سچائی اور عدل کی رُو سے پوری ہو چکی، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے،
اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ (حق و یقین کی بجائے) صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض غلط قیاس آرائی (اور دروغ گوئی) کرتے رہتے ہیں،
And the Word of your Lord has been fulfilled in truth and in justice. None can change His Words. And He is theAllahearer, the AllKnower.
And if you obey most of those on earth, they will mislead you far away fromAllah's Path. They follow nothing but conjectures, and they do nothing but lie.
TAFSEER
ف ٥ یعنی "شیاطین الانس و الجن" کی تلبیس و تلمیع پر بدعقیدہ اور جاہل ہی کان دھر سکتے ہیں۔ ایک پیغمبر یا اس کے متبعین جو ہر مسئلہ اور ہر معاملہ میں خدائے واحد ہی کو اپنا منصف اور حکم مان چکے ہیں کیا ان سے یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی چکنی چپڑی باتوں کی طرف کان لگائیں۔ یا معاذاللہ غیر اللہ کے فیصلہ کے آگے گردن جھکا دیں، حالانکہ ان کے پاس خدا کی طرف سے ایسی معجز اور کامل کتاب آچکی جس میں تمام اصولی چیزوں کی ضروری توضیح و تفصیل موجود ہے۔ جس کی نسبت علمائے اہل کتاب بھی کتب سابقہ کی بشارات کی بناء پر خوب جانتے ہیں کہ یقیناً یہ آسمانی کتاب ہے جس کی تمام خبریں سچی اور تمام احکام معتدل اور منصفانہ ہیں جن میں کسی کی طاقت نہیں کہ موجودگی میں کیسے کوئی مسلمان وساوس و اوہام یا محض عقلی قیاسات اور مغویانہ مغالطات کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ خدا تعالٰی جس کو ہم نے اپنا حکم اور جس کی کتاب مبین کو دستور العمل تسلیم کیا ہے وہ ہماری ہر بات کو سننے والا اور ہر قسم کے مواقع و احوال اور ان کے مناسب احکام و نتائج کی موزونیت کو پوری طرح جاننے والا ہے۔
ف١ مشاہدہ اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ فہیم، محقق اور با اصول آدمی تھوڑے رہے ہیں۔ اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محض خیالی، بےاصول اور اٹکل پچو باتوں کی پیروی کرنے والے ہوں۔ اگر تم اسی اکثریت کا کہنا ماننے لگو اور بےاصول باتوں پر چلنا شروع کر دو تو خدا کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ سے یقینا بہک جاؤ گے۔ یہ آپ پر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔ جاہل عوام کی ان ہی بےاصول اور اٹکل پچو باتوں میں سے ایک وہ تھی جو انہوں نے ذبیحہ کے مسئلہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو جانور طبعی موت سے مر جائے (یعنی میتہ) اسے مسلمان حرام کہتے ہیں حالانکہ وہ خدا کا مارا ہوا ہے اور جو خود ان کے ہاتھ کا مارا ہوا ہو اسے حلال سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے، اس کا جواب اگلی آیتوں میں "فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ" سے دیا گیا۔ حضرت شاہ صاحب موضح القرآن میں فرماتے ہیں کہ "یہ کئی آیتیں اس پر اتریں کہ کافر کہنے لگے مسلمان اپنا مارا کھاتے ہیں اور اللہ کا مارا نہیں کھاتے، فرمایا کہ ایسی ملمع فریب کی باتیں انسانوں کو شبہ میں ڈالنے کے لئے شیطان سکھاتے ہیں۔ خوب سمجھ لو حلال و حرام وغیرہ میں حکم اللہ کا چلتا ہے۔ محض عقلی ڈھکوسلوں کا اعتبار نہیں۔ آگے کھول کر سمجھا دیا کہ مارنے والا سب کا اللہ ہے لیکن اس کے نام کو برکت ہے جو اس کے نام پر ذبح ہوا سو حلال ہے جو بغیر اس کے مر گیا سو مردار"۔ بتغیر یسیر۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1804 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 5متفق علیہ
آدم بن ابی ایاس، شعبہ، عبدالعزیز بن صہیب، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سحری کھاؤ اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے۔
Volume 1, Book 3, Number 70:
Narrated Abu Wail:
'Abdullah used to give a religious talk to the people on every Thursday. Once a man said, "O
Aba 'Abdur-Rahman! (By Allah) I wish if you could preach us daily." He replied, "The only
thing which prevents me from doing so, is that I hate to bore you, and no doubt I take care of
you in preaching by selecting a suitable time just as the Prophet used to do with us, for fear of
making us bored."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
03-24-2010, 05:33 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Wednesday, 24 March 2010
Quran. 6 Aya.117,118
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
فَكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
بیشک آپ کا رب ہی اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا ہے اور وہی ہدایت یافتہ لوگوں سے (بھی) خوب واقف ہے،
سو تم اس (ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہو،
Surely, your Lord is best aware of those who go astray from His way, and He is best aware of those who are on the right path.
So, eat (the flesh) of that (animal) upon which the name of Allah has been invoked (when slaughtering), if you do believe in His verses.
TAFSEER
١١٨۔١ یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہو جن کا کھانا حلال ہے۔ اس کا مظلب یہ ہوا کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستشنٰی ہے جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں؟ آپ نے فرمایا تم اللہ کا نام لے کر اسے کھا لو ' البتہ شبہ کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 466 حدیث مرفوع مکررات 3
عبد اللہ بن یوسف ابن وہب یونس ابن شہاب عروہ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا یوم احد سے بھی سخت دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا ہے آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری قوم کی جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ اٹھائی ہیں اور سب سے زیادہ تکلیف جو میں نے اٹھائی وہ عقبہ کے دن تھی جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبدکلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میری خواہش کو پورا نہیں کیا پھر میں رنجیدہ ہو کر سیدھا چلا ابھی میں ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرآن الثعالب میں پہنچا میں نے اپنا سر اٹھایا تو بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا میں نے جو دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کافروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان کافروں پر لا کر رکھ دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے۔
Volume 1, Book 3, Number 71:
Narrated Muawiya:
I heard Allah's Apostle saying, "If Allah wants to do good to a person, He makes him
comprehend the religion. I am just a distributor, but the grant is from Allah. (And remember)
that this nation (true Muslims) will keep on following Allah's teachings strictly and they will
not be harmed by any one going on a different path till Allah's order (Day of Judgment) is
established."
Muhammad Iqbal Kuwait
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد

Reply

Welcome, Guest!
Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, you can participate in the discussions and share your thoughts. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and make new friends.
Sign Up
MMohammed
03-24-2010, 06:07 PM
JazakAllah Khair for this.
Thanks alot for this.Keep sharing so that we can keep reading.Waiting for tomorrow :)
Reply

iqbalkuwait
03-25-2010, 04:25 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Quran. 6 Aya.119
وَمَا لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ
اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس (ذبیحہ) سے نہیں کھاتے جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیا گیا ہے (تم ان حلال جانوروں کو بلاوجہ حرام ٹھہراتے ہو)؟ حالانکہ اس نے تمہارے لئے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سوائے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لئے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)۔ بیشک بہت سے لوگ بغیر (پختہ) علم کے اپنی خواہشات (اور من گھڑت تصورات) کے ذریعے (لوگوں کو) بہکاتے رہتے ہیں، اور یقینا آپ کا ربّ حد سے تجاوز کرنے والوں کو خوب جانتا ہے،
What should cause you to avoid eating of that upon which the name of Allah has been invoked, while He has spelled out to you all that He has made unlawful for you, except that to which you are compelled by extreme necessity? Surely, there are many who misguide people on the basis of their desires without having knowledge. Surely, your Lord is the best knower of those who cross the limits.
TAFSEER
ف٣ یعنی اضطرار اور مجبوری کی حالت کو مستثنیٰ کر کے جو چیزیں حرام ہیں ان کی تفصیل کی جا چکی۔ ان میں وہ حلال جانور داخل نہیں جو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے پھر اس کے نہ کھانے کی کیا وجہ؟
ف٤ مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ ہرچیز کو بالواسطہ یا بلا واسطہ خدا ہی پیدا کرتا اور خدا ہی مارتا ہے۔ پھر جس طرح اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں بعض کا کھانا ہم کو مرغوب اور مفید ہے جیسے سیب انگور وغیرہ اور بعض چیزوں سے ہم نفرت کرتے ہیں یا مضر سمجھتے ہیں جیسے ناپاک گندی چیزیں اور سنکھیا وغیرہ۔ اسی طرح اس کی ماری ہوئی چیزیں بھی دو قسم کی ہیں ایک وہ جن سے فطرت سلیمہ نفرت کرے یا ان کا کھانا ہماری بدنی یا روحی صحت کیلئے خدا کے نزدیک مضر ہو۔ مثلاً وہ حیوان دموی جو اپنی طبعی موت سے مرے اور اس کا خون وغیرہ گوشت میں جذب ہو کر رہ جائے۔ دوسرے وہ حلال و طیب جانور جو باقاعدہ خدا کے نام پر ذبح ہو یہ بھی خدا ہی کا مارا ہوا ہے، جس پر مسلمان کی چھری کے توسط سے اس نے موت طاری کی۔ مگر عمل ذبح اور خدا کے نام کی برکت سے اس کا گوشت پاک و صاف ہوگیا۔ پس جو شخص دونوں قسموں کو ایک کرنا چاہے وہ معتدی (حد سے بڑھنے والا) ہوگا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 697 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 65
عبداللہ بن مسلمہ، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ دونوں کہتے لیکن سجدے میں یہ عمل نہ کرتے تھے۔
Volume 1, Book 3, Number 72:
Narrated Ibn 'Umar:
We were with the Prophet and a spadix of date-palm tree was brought to him. On that he said,
"Amongst the trees, there is a tree which resembles a Muslim." I wanted to say that it was the
date-palm tree but as I was the youngest of all (of them) I kept quiet. And then the Prophet
said, "It is the date-palm tree."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد


Reply

iqbalkuwait
03-26-2010, 07:12 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Friday, 26 March 2010
Quran. 6 Aya.120,121
وَذَرُواْ ظَاهِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُواْ يَقْتَرِفُونَ
وَلاَ تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَآئِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو۔ بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں انہیں عنقریب سزا دی جائے گی ان (اَعمالِ بد) کے باعث جن کا وہ ارتکاب کرتے تھے،
اور تم اس (جانور کے گوشت) سے نہ کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بیشک وہ (گوشت کھانا) گناہ ہے، اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں (وسوسے) ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کے کہنے پر چل پڑے (تو) تم بھی مشرک ہو جاؤ گے،
Leave outward sin and inward sin. Surely, those who commit sin shall be punished for what they used to commit.
Do not eat that (meat) over which the name of Allah has not been pronounced. This is surely a sin. The satans inspire their friends to dispute with you. If you were to obey them, you would be Mushriks.
TAFSEER
٣ ف سو جس طرح ایک درخت کا بیج اور اس کی جڑیں ہوتی ہیں جو زمین کے اندر ہوتی ہیں اور ظاہر میں نظر نہیں آتیں۔ اور ایک اسکی شاخیں اور اسکے پھل پھول وغیرہ بھی ہوتے ہیں جو ظاہر میں نظر آتے ہیں اسی طرح برائی کی ظاہری شکلیں اور مظاہر بھی ہوتے ہیں جو ظاہر میں اور کھلی آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور اسکی وہ جڑ بنیاد بھی ہوتی ہے، جو انسان کے قلب و باطن میں جاگزین ہوتی ہے سو برائی سے پوری طرح بچاؤ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب اس کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کا صفایا اور خاتمہ کر دیا جائے ورنہ اگر ظاہری برائی چھوڑ دی لیکن قلب و باطن میں اسکی جڑ بنیاد باقی و برقرار رہی تو وہ کل پھر کسی اور شکل میں اپنے پل پرزے نکال لے گی اور معاملہ پھر وہیں پہنچ جائے گا اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ گناہ کے ظاہر کو بھی چھوڑو اور اس کے باطن کو بھی تاکہ اسطرح برائی کا پوری طرح خاتمہ ہو جائے اللّہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ الذنوب والفتن کلہا، ماظہر منہا ومابطن،
ف ٦ یعنی نہ حقیقۃً نہ حکماً۔ حنفیہ متروک التسمیہ عمداً کے مسئلہ میں ذکر حکمی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ف٧ یعنی شرک فقط یہ ہی نہیں کہ کسی کو سوائے خدا کے پوجے بلکہ شرک کے حکم میں یہ بھی ہے کہ کسی چیز کی تحلیل و تحریم میں مستند شرعی کو چھوڑ کر محض آراء و اہوا کا تابع ہو جائے۔ جیسا کہ "اِتَّخَذُوا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباًمِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ کی تفسیر میں مرفوعا منقول ہے کہ اہل کتاب نے وحی الہٰی کو چھوڑ کر صرف احبار و رہبان ہی پر تحلیل و تحریم کا مدار رکھ چھوڑا تھا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1624 حدیث مرفوع مکررات 39 متفق علیہ
محمد بن ابی بکر، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، کریب، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ اور صفا مروہ کا طواف کریں، پھر احرام سے باہر ہو جائیں اور سر منڈائیں یا بال کتروائیں۔
Volume 1, Book 3, Number 73:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
The Prophet said, "Do not wish to be like anyone except in two cases. (The first is) A person,
whom Allah has given wealth and he spends it righteously; (the second is) the one whom
Allah has given wisdom (the Holy Qur'an) and he acts according to it and teaches it to
others." (Fateh-al-Bari page 177 Vol. 1)
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں



Reply

iqbalkuwait
03-27-2010, 04:22 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Saturday, 27 March 2010
Quran.6 Aya.122
أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لئے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوش نما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں،
Is it (conceivable) that the one who was dead and to whom We gave life, and set for him a light with which he walks among men, (is held to) be like the one whose condition is such that he is in total darkness, never coming out of it? This is how their deeds appear beautified to the disbelievers.
TAFSEER
٢ ف سو اس سے اہل ایمان اور اہل کفر و باطل دونوں کی تمثیل بیان فرمائی گئی ہے موت سے یہاں پر مراد کفر و باطل کی زندگی ہے جو کہ اصل میں موت ہے اور حیات سے مراد ایمان و یقین کی زندگی ہے جو کہ اصل اور حقیقی زندگی ہے اور نور سے مراد کتاب ہدایت یعنی قرآن حکیم ہے سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو اللہ تعالٰی نے کفر و باطل کی موت سے نکال کر ایمان و یقین کی زندگی سے سرفراز فرما دیا اور ان کو کتاب حکیم قرآن مجید کے اس نور مبین سے سرفراز فرما دیا جسکے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چلتے ہیں اور اس طرح اس نور مبین سے وہ خود بھی مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں اور دوسری کو بھی مستفید و فیضیاب کرتے ہیں تو کیا یہ اور وہ لوگ باہم ایک برابر ہو سکتے ہیں؟ جو کفر و باطل کی طرح طرح کی تاریکیوں میں ڈوبے پڑے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں اور یقینا و ہرگز نہیں تو پھر مومن و کافر کے باہم برابر ہونے کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے؟ یَمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ یعنی وہ اسکے ساتھ لوگوں میں چلتا ہے کے جملے کے اندر دو خاص پہلو پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ بندہ مومن اس عظیم الشان روشنی کے ساتھ چلتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اس روشنی سے محروم اور اندہیروں کے اندر ہیں اور دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ وہ اس روشنی کے ساتھ لوگوں کے اندر چلتا ہے سو اس طرح وہ اس سے خود بھی مستفید و فیضیاب ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی مستفید و فیضیاب کرتا ہے کہ روشنی کا حق یہی ہے کہ انسان اس سے خود بھی مستفید و فیضیاب ہو اور دوسروں کو بھی اس سے استفادے کا موقع دے اسی حکمت کو حضرت عیسیٰ نے یوں بیان فرمایا کہ جس کے پاس چراغ ہوتا ہے وہ اس کو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر نہیں رکھتا بلکہ وہ اس کو اونچی جگہ رکھتا ہے تاکہ اس سے اس کا گھر بھی روشن ہو۔ اور دوسروں کو بھی راستہ ملے۔ سو اس سے مومن صادق اور اسکی زندگی کی عظمت شان بھی واضح ہو جاتی ہے، کہ اسکی زندگی روشنی پر روشنی میں، اور روشنی کے ساتھ ہے۔ جبکہ باقی تمام دنیا اندھیروں کے اندر ہے، کیونکہ حق و ہدایت کی روشنی اب صرف قرآن پاک ہی کی صورت میں موجود ہے۔ سابقہ آسمانی کتابوں کو اس حد تک بدل اور بگاڑ دیا گیا کہ اب ان کا اصل نسخہ بھی نہیں مل سکتابلکہ انکی وہ اصل زبان ہی ناپید ہوگئی ہے جس میں ان کو اتارا گیا تھا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1689 حدیث مرفوع مکررات 5متفق علیہ
عبداللہ بن مسلمہ، سمی، مالک، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے جو تم میں سے کسی کے کھانے پینے اور سونے سے روک دیتا ہے اس لئے جب ضرورت پوری ہوجائے تو اپنے گھروں کو جلدی لوٹ جانا چاہیے۔
Volume 1, Book 3, Number 74:
Narrated Ibn 'Abbas:
That he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of (the
Prophet) Moses. Ibn 'Abbas said that he was Khadir. Meanwhile, Ubai bin Ka'b passed by
them and Ibn 'Abbas called him, saying "My friend (Hur) and I have differed regarding
Moses' companion whom Moses, asked the way to meet. Have you heard the Prophet
mentioning something about him? He said, "Yes. I heard Allah's Apostle saying, "While
Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him. "Do you
know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine
Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave Khadir (is more learned than you.)' Moses asked
(Allah) how to meet him (Khadir). So Allah made the fish as a sign for him and he was told
that when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he
would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea.
The servant-boy of Moses said to him: Do you remember when we betook ourselves to the
rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses
said: 'That is what we have been seeking? (18.64) So they went back retracing their footsteps,
and found Khadir. (And) what happened further to them is narrated in the Holy Qur'an
by Allah. (18.54 up to 18.82)
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
03-28-2010, 05:39 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Sunday, 28 March 2010
Quran. 6 Aya.123,124
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجَرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
وَإِذَا جَاءتْهُمْ آيَةٌ قَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللّهِ اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ صَغَارٌ عِندَ اللّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُواْ يَمْكُرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وڈیروں (اور رئیسوں) کو وہاں کے جرائم کا سرغنہ بنایا تاکہ وہ اس (بستی) میں مکاریاں کریں، اور وہ (حقیقت میں) اپنی جانوں کے سوا کسی (اور) سے فریب نہیں کر رہے اور وہ (اس کے انجامِ بد کا) شعور نہیں رکھتے،
اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے (تو) کہتے ہیں: ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں بھی ویسی ہی (نشانی) دی جائے جیسی اﷲ کے رسولوں کو دی گئی ہے۔ اﷲ خوب جانتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کا محل کسے بنانا ہے۔ عنقریب مجرموں کو اﷲ کے حضور ذلت رسید ہوگی اور سخت عذاب بھی (ملے گا) اس وجہ سے کہ وہ مکر (اور دھوکہ دہی) کرتے تھے،
In a similar way, in every town We caused its chief sinners to commit mischief in it. And they do not commit mischief but against themselves, while they do not realize it.
When a sign comes to them, they say, :We shall never come to believe unless we are given the like of what was given to the messengers of Allah. Allah knows best where to place His message. Those who committed sin shall soon suffer from disgrace before Allah and face severe punishment for the mischief they have been making.
TAFSEER
ف٢ یعنی کچھ آج رؤسائے مکہ ہی نہیں ہمیشہ کافروں کے سردار حیلے نکالتے رہے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبروں کے مطیع نہ ہوجائیں جیسے فرعون نے معجزہ دیکھا تو حیلہ نکالا کہ سحر کے زور سے سلطنت لیا چاہتا ہے لیکن ان کے یہ حیلے اور داؤ پیچ بحمدﷲ پکے ایمانداروں پر نہیں چلتے۔ حیلہ کرنے والے اپنی عاقبت خراب کر کے خود اپنا ہی نقصان کرتے ہیں جس کا احساس انھیں اس وقت نہیں ہوتا۔
ف٣ ان کی مکاری اور متکبرانہ حیلہ جوئی کی ایک مثال یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے صدق کا جب کوئی نشان دیکھتے تو کہتے کہ ہم ان دلائل و نشانات کو نہیں جانتے۔ ہم تو اس وقت یقین کر سکتے ہیں جب ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں اور پیغمبروں کی طرح ہم کو بھی خدا کا پیغام سنائیں یا خود حق تعالٰی ہی ہمارے سامنے آجائیں۔ "وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُونَ لَقَاءَنَا لَوْلاَ اُنْزَلَ عَلَیْنَا الْمَلٰئِکَۃُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِی اَنْفُسِھِمْ وَعَتَوْعُتُوًّا کَبِیْرًا" (فرقان، رکوع٣'آیت نمبر ٢١) خیر یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کون شخص اس کا اہل ہے کہ منصب پیغامبری پر سرفراز کیا جائے اور اس عظیم الشان امانت الہٰیہ کا حامل بن سکے۔ یہ نہ کوئی کسبی چیز ہے کہ دعاء یا ریاضت یا دنیاوی جاہ و دولت وغیرہ سے حاصل ہو سکے اور نہ ہر کس و ناکس کو ایسی جلیل القدر اور نازک ذمہ داری پر فائز کیا جاسکتا ہے۔ ہاں ایسے گستاخ، متکبر، حیلہ جو مکاروں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ عنقریب اس معزز منصب کی طلب کا جواب ان کو سخت ذلت اور عذاب شدید کی صورت میں دیا جائے گا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2111 حدیث مرفوع مکررات 128متفق علیہ
حفص بن عمر، شعبہ، حکم، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھائی، تو لوگوں نے عرض کیا کہ نماز میں زیادتی ہوگئی ہے، آپ نے فرمایا کیا بات ہے، لوگوں نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھی، پھر آپ نے سلام پھیر نے کے بعد دو سجدے اور کر لئے۔
Volume 1, Book 3, Number 75:
Narrated Ibn 'Abbas:
Once the Prophet embraced me and said, "O Allah! Bestow on him the knowledge of the
Book (Qur'an)."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
Reply

iqbalkuwait
03-29-2010, 03:57 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Monday, 29 March 2010
Quran.6 Aya.125
فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاء كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ
پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو (عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ) گمراہی پر ہی رکھنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ (ایسی) شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے گویا وہ بمشکل آسمان (یعنی بلندی) پر چڑھ رہا ہو، اسی طرح اﷲ ان لوگوں پر عذابِ (ذّلت) واقع فرماتا ہے جو ایمان نہیں لاتے،
So, whomsoever Allah wills to guide, He makes his heart wide open for Islam, and whomsoever He wills to let go astray, He makes his heart strait and constricted, (and he feels embracing Islam as difficult) as if he were climbing to the sky. In this way, Allah lays abomination on those who do not believe.
TAFSEER
٣ ف سو اس ارشاد سے منکرین کے ایمان نہ لانے کی اصل علت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنی بدباطنی اور سُوء اختیار کی وجہ سے توفیق ہدایت اور عنایت خداوندی سے محروم ہوگئے ہیں کفر و شرک کی نجاست ان لوگوں کے دلوں پر جم گئی ہیں جس کے نتیجے میں ان کو اسلام کا راستہ ایک سخت اور کٹھن چڑھائی نظر آتا ہے جس کے تصور سے ہی ان کا سینہ بھیجنے اور دم اکھڑنے لگتا ہے۔ اور ان کو یوں لگنے لگتا ہے کہ گویا کہ ان کو بڑی کٹھن چڑھائی چڑھنا پڑ رہی ہے سو جن کے دلوں پر کفر و شرک کی میل اس طرح جم جاتی ہے اللہ تعالٰی کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ ان کے سینوں کو اسلام کیلئے تنگ کر دیا جاتا ہے، جس سے راہ حق میں آگے بڑھنا ان کو ایسے لگنے لگتا ہے جیسا کہ ان کو زور لگا کر آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہو۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ اور اس کی صحت و فساد کا اصل اور بنیادی تعلق اس کے اپنے قلب و باطن اور ارادہ و نیت سے ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید،
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 945 حدیث مرفوع مکررات 28متفق علیہ
موسی بن اسماعیل، جویریہ بن اسماء، نافع، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں سواری پر نماز پڑھتے تھے، سواری کا رخ جدھر بھی ہوتا، اور رات کی نماز سوائے فرائض کے اشارے سے پڑھتے اور وتر سواری پر پڑھتے تھے۔
Volume 1, Book 3, Number 76:
Narrated Ibn 'Abbas:
Once I came riding a she-ass and had (just) attained the age of puberty. Allah's Apostle was
offering the prayer at Mina. There was no wall in front of him and I passed in front of some
of the row while they were offering their prayers. There I let the she-ass loose to graze and
entered the row, and nobody objected to it.
Muhammad Iqbal Kuwait
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں



Reply

iqbalkuwait
03-30-2010, 06:16 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Tuesday, 30 March 2010
Quran. 6 Aya.126,127
وَهَـذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا قَدْ فَصَّلْنَا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ
لَهُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اور یہ (اسلام ہی) آپ کے رب کا سیدھا راستہ ہے، بیشک ہم نے نصیحت قبول کرنے والے لوگوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کر دی ہیں،
انہی کے لئے ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہی ان کا مولٰی ہے ان اعمالِ (صالحہ) کے باعث جو وہ انجام دیا کرتے تھے،
This is the path of your Lord, a straight path. We have made the verses elaborate for people who accept the advice.
For them will be the home of peace (Paradise) with their Lord. And He will be their Wal (Helper and Protector) because of what they used to do.
TAFSEER
ف ٥ جو لوگ ایمان لانے کا ارادہ نہیں رکھتے ان پر اسی طرح عذاب اور تباہی ڈالی جاتی ہے کہ رفتہ رفتہ ان کا سینہ اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اس میں حق کے گھسنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی۔ پھر یہ ہی ضیق صدر عذاب ہے جو قیامت میں بشکل محسوس سامنے آجائے گا۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے "رجس" کا ترجمہ جو عذاب سے کیا ہے اس کے موافق یہ تقریر ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے "رجس" کے معنی عذاب ہی کے لئے ہیں۔ مگر ابن عباس نے یہاں "رجس" سے مراد شیطان لیا ہے۔ شاید اس لئے کہ "رجس" ناپاک کو کہتے ہیں اور شیطان سے بڑھ کر کون ناپاک ہوگا۔ بہرحال اس تفسیر پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح ان پر بےایمانیوں کی وجہ سے شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے کہ کبھی رجوع الی الحق کی توفیق نہیں ہوتی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "اول فرماتا تھا کہ کافر قسمیں کھاتے ہیں کہ آیت دیکھیں تو البتہ یقین لاویں اور اب فرمایا کہ ہم نہ دیں گے ایمان تو کیونکر لاویں گے۔ بیچ میں مردہ حلال کرنے کے حیلے نقل کئے، اب اس بات کا جواب فرمایا کہ جس کی عقل اس طرف چلے کہ اپنی بات نہ چھوڑے، جو دلیل دیکھے کچھ حیلہ بنا لے، وہ نشان ہے گمراہی کا اور جس کی عقل چلے انصاف پر اور حکم برداری پر، وہ نشان ہدایت ہے۔ ان لوگوں میں نشان ہیں گمراہی کے ان پر کوئی آیت اثر نہ کرے گی۔ "باقی اللہ تعالٰی کی طرف ارادہ ہدایت و اضلال کی نسبت کرنا، اس کے متعلق متعدد مواضع میں ہم کلام کر چکے ہیں اور آئندہ بھی حسب موقع لکھا جائے گا۔ مگر یہ مسئلہ طویل الذیل اور معرکۃ الآراء ہے اس لئے ہمارا ارادہ ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھ کر فوائد کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔ و باللہ التوفیق۔
ف١ یعنی جو اسلام و فرمانبرداری کے سیدھے راستہ پر چلے گا وہ ہی سلامتی کے گھر پہنچے گا اور خدا اس کا ولی و مددگار ہوگا۔ یہ حال تو ان کا ہوا جن کا ولی خدا ہے (یعنی اولیاء الرحمن)۔ آگے اولیاء الشیطان کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
HADEES MUBARAK
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 891 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 23متفق علیہ
یحیی بن یحیی تمیمی، ابوخثیمہ، اشعث بن ابی شعشاء، احمد بن عبداللہ بن یونس، زہیر، اشعث، معاویہ بن سوید بن مقرن، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سوید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مقرن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب کے پاس گیا تو میں نے ان سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم فرمایا اور سات چیزوں سے منع فرمایا جن سات چیزوں کے کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا بیمار کی عیادت کرنا، جنازہ کی ساتھ جانا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا، قسم پوری کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنا، سلام کو پھیلانا اور جن چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، سونے کی انگوٹھی پہننا، چاندی کے برتن میں پینا، ریشمی گدوں پر بیٹھنا، قسی کے کپڑے پہننا، ریشمی کپڑا پہننا، استبرق پہننا، دیباج پہننا۔
Volume 1, Book 3, Number 77:
Narrated Mahmud bin Rabi'a:
When I was a boy of five, I remember, the Prophet took water from a bucket (used far getting
water out of a well) with his mouth and threw it on my face.
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد


Reply

iqbalkuwait
03-31-2010, 06:17 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Wednesday, 31 March 2010
Quran.6 Aya.128
وَيَوْمَ يِحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الإِنسِ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ الإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِيَ أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَليمٌ
اور جس دن وہ ان سب کو جمع فرمائے گا (تو ارشاد ہوگا:) اے گروہِ جنّات (یعنی شیاطین!) بیشک تم نے بہت سے انسانوں کو (گمراہ) کر لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے (خوب) فائدے حاصل کئے اور (اسی غفلت اور مفاد پرستی کے عالم میں) ہم اپنی اس میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر فرمائی تھی (مگر ہم اس کے لئے کچھ تیاری نہ کر سکے)۔ اﷲ فرمائے گا کہ (اب) دوزخ ہی تمہارا ٹھکانا ہے ہمیشہ اسی میں رہو گے مگر جو اﷲ چاہے۔ بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے،
The day He will assemble all of them together, (Allah will say to Jinn) :O species of Jinns, you have done too much against mankind. Their friends from among the human beings will say, :Our Lord, some of us have benefited from others, and we have reached our term that You had appointed for us. He will say, :The Fire is your Abode wherein you will remain for ever, unless Allah wills (otherwise). Surely, your Lord is All-Wise, All-Knowing.
TAFSEER
٢ ف سو اس موقع پر وہ لوگ جوانسانوں میں سے شیاطین جن کے ساتھی اور ان کے آلہ کار بنے رہے ہونگے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک دوسرے کی معیت و رفاقت سے دنیا میں خوب خوب فائدے اٹھائے۔ یہاں تک کہ ہم اس یوم حساب کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر فرما رکھا تھا سو اسطرح وہ اس بات کا صاف اور صریح طور پر اقرار و اعتراف کریں گے کہ دنیا میں وہ ایک دوسرے کے آلہ کار بنے رہے تھے یعنی ہم نے شیاطین کی پوچا پاٹ کی ان کے تھانوں پر نذریں مانیں نیازیں دیں چڑھاوے چڑھائے ان کے پاس قربانیاں کہیں، بھینٹیں چڑھائیں ان کے کہنے سکھانے پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا۔ اور اسی طرح ان کے کاہنوں، نجومیوں اور ساحروں وغیر نے ان کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا اور ان سے کئی طرح کے فائدے اٹھائے اور نفع حاصل کئے اور ہم ایسے کاموں میں اسطرح الجھے اور پھنسے رہے کہ ہمیں اپنے عمل کے انجام پر غور کرنے کی توفیق نہ ملی۔ اور ہم اسی طرح کی خرمستیوں اور لذت کوشیوں میں سست اور محو ومگن رہے یہاں تک کہ یہ دن آپہنچا۔ اور ہم تیرے حضور حاضر ہوگئے۔
٣ ف سو شیاطین انس یہ بات تو اس روز بطور اعتراف و اقرار جرم کہیں گے۔ اور اس سے مقصود ان کا اظہار ندامت ہوگا۔ تاکہ اس طرح یہ تمہید باندھ کر وہ اللہ تعالٰی سے معافی کی درخواست کر سکیں۔ لیکن اسلوب کلام سے یہ ظاہر ہو رہا ہے۔ اور اسکی صاف شہادت مل رہی ہے کہ اللہ تعالٰی ان کی بات ان کی تمہید پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دے گا اور ان کو معذرت اور درخواست معافی کا موقع دیے بغیر ہی اپنا فیصلہ سنا دے گا کہ اب تمہارا ٹھکانا بہرحال دوزخ ہے جس میں تم نے ہمیشہ کیلئے رہنا ہے۔ اس لئے اب تم لوگ ایسی باتیں بنانے کی کوشش نہ کرو۔ کہ اب عذر ومعذرت، معافی تلافی اور اصلاح کے سب دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اب مشیئت و مرضی صرف اللہ تعالٰی ہی کی ہوگی جو وہ چاہے گاوہی ہوگا۔ کسی کی سعی و سفارش، کسی کا اثر و رسوخ اور کسی کی آہ و پکار، اور دعا و فریاد کچھ کام نہیں آئیگی۔ صرف اللہ تعالٰی ہی کی مشیت کار فرما ہوگی، سبحانہ و تعالیٰ، سو یہی مطلب ہے الا ماشاء اللہ کا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1419 حدیث مرفوع مکررات 5متفق علیہ
ابو الیمان، شعیب، زہری، سالم بن عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ ایسے ہوں گے جیسے اونٹ کہ سینکڑوں کی تعداد ہو لیکن سواری کے قابل کوئی نہ ہو۔
Volume 1, Book 3, Number 78:
Narrated Ibn 'Abbas:
that he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of the Prophet
Moses. Meanwhile, Ubai bin Ka'b passed by them and Ibn 'Abbas called him saying, "My
friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion whom Moses asked the way to
meet. Have you heard Allah's Apostle mentioning something about him? Ubai bin Ka'b said:
"Yes, I heard the Prophet mentioning something about him (saying) while Moses was sitting
in the company of some Israelites, a man came and asked him: "Do you know anyone who is
more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses:
'--Yes, Our slave Khadir is more learned than you. Moses asked Allah how to meet him (Al-
Khadir). So Allah made the fish a sign for him and he was told when the fish was lost, he
should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So
Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said: 'Do
you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan
made me forget to remember it. On that Moses said, 'That is what we have been seeking.' So
they went back retracing their footsteps, and found Kha,dir. (and) what happened further
about them is narrated in the Holy Qur'an by Allah." (18.54 up to 18.82)
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد


Reply

'Abd Al-Maajid
04-01-2010, 06:56 AM
Can we have tafseer in english aswell....? :)
Reply

iqbalkuwait
04-01-2010, 06:15 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Thursday, 01 April 2010
Quran. 6 Aya.129,130
وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَـذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ
اسی طرح ہم ظالموں میں سے بعض کو بعض پر مسلط کرتے رہتے ہیں ان اعمالِ(بد) کے باعث جو وہ کمایا کرتے ہیں،
اے گروہِ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر میری آیتیں بیان کرتے تھے اور تمہاری اس دن کی پیشی سے تمہیں ڈراتے تھے؟ (تو) وہ کہیں گے: ہم اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیتے ہیں، اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا اور وہ اپنی جانوں کے خلاف اس (بات) کی گواہی دیں گے کہ وہ (دنیا میں) کافر (یعنی حق کے انکاری) تھے،
Thus We will make some wrongdoers companions of others (in the Hereafter) because of what they used to commit.
:O species of Jinn and mankind, had the messengers not come to you, from among yourselves, who used to relate My verses to you, and used to warn you of the encounter of this your day? They will say, :We testify against ourselves. The worldly life had deceived them, and they will testify against themselves that they were disbelievers.
TAFSEER
ف ٦ جیسے تم نے "شیاطین الجن" اور ان کے اولیاء انسی کا حال سنا۔ اسی طرح تمام ظالموں اور گنہگاروں کو ان کے ظلم اور سیہ کاریوں کے تناسب سے دوزخ میں ہم ایک دوسرے کے قریب کر دیں گے اور جو جس درجہ کا ظالم و گنہگار ہوگا اس کو اسی کے طبقہ عصاۃ میں ملا دیں گے۔
ف٧ اوپر جن و انس کی شرارت اور سزا کا بیان تھا اور "اولیاء الجن" کی زبانی فی الجملہ معذرت بھی نقل کی گئی تھی، اب بتلایا جاتا ہے کہ ان کا کوئی عذر معقول اور قابل سماعت نہیں، دنیا میں خدا کی حجت تمام ہو چکی تھی جس کا خود انہیں بھی اقرار کرنا پڑے گا۔ یہ خطاب "یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ"کا قیامت کے دن ہوگا اور مخاطب جن وانس کا یعنی کل مکلفین کا مجموعہ ہے، ہر جماعت الگ الگ مخاطب نہیں جو یہ اعتراض ہو کہ رسول تو ہمیشہ انسانوں میں سے آئے قوم جن میں سے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا گیا۔ پھر "رُسُلٌ مِّنْکُمْ" (رسول تم ہی میں کے) کہنا کیسے صحیح ہوگا۔ اصل یہ ہے کہ مجموعہ مخاطبین میں سے اگر کسی نوع میں بھی اتیان رسل متحقق ہو جائے جس کی غرض تمام مخاطبین کو بلا تخصیص فائدہ پہنچانا ہو تو مجموعہ کو خطاب کرنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا۔ مثلاً کوئی یہ کہے"اے عرب و عجم کے باشندو! اور پورب پچھم کے رہنے والو! کیا تم ہی میں سے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل انسان کو پیدا نہیں کیا "اس عبارت کا مطلب کسی کے نزدیک یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو عرب میں پیدا کئے گئے اور دوسرے عجم میں ہونے چاہئیں، اسی طرح پورب کے علیحدہ اور پچھم کے علیحدہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، تب یہ عبارت صحیح ہوگی، علیٰ ہذا القیاس یہاں سمجھ لیجئے کہ یَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ کا مدلول صرف اس قدر ہے کہ جن وانس کے مجموعہ سے پیغمبر بھیجے گئے۔ باقی یہ تحقیق کہ ہر نوع میں سے الگ الگ پیغمبر آئے یا ہر ایک پیغمبر کل افراد جن و انس کی طرف مبعوث ہوا، یہ آیت اس کے بیان سے ساکت ہے۔ دوسری نصوص سے جمہور علماء نے یہ ہی قرار دیا ہے کہ نہ ہر ایک پیغمبر کی بعثت عام ہے اور نہ کسی جن کو اللہ نے مستقل رسول بنا کر بھیجا۔ اکثر معاشی و معادی معاملات میں ان کو حق تعالٰی نے انسانوں کے تابع بنا کر رکھا ہے جیسا کہ سورہ جن کی آیات اور نصوص حدیثیہ وغیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ کوئی ضابطہ نہیں کہ مخلوق کی ہر نوع کے لئے اسی نوع کا کوئی شخص رسول ہوا کرے۔ باقی انسانوں کی طرف فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجنے سے جو قرآن کے متعدد مواضع میں انکار کیا گیا ہے، اس کا اصلی منشاء یہ ہے کہ عام انسان بہیئۃ الاصلیہ اس کی رویت کا تحمل نہیں کر سکتے اور بےاندازہ خوف و ہیبت کی وجہ سے مستفید نہیں ہو سکتے اور بصورت انسان آئیں تو بےضرورت التباس رہتا ہے۔ اسی پر قیاس کر لو کہ اگر قوم جن میں منصب نبوت کی اہلیت ہوتی تو وہ بھی انسانوں کے لئے مبعوث نہیں کئے جاسکتے تھے کیونکہ وہاں بھی یہ ہی اشکال تھا۔ ہاں رسول انسی کا جن کی طرف مبعوث ہونا اس لئے نہیں کہ جنوں کے حق میں انسان کی رؤیت نہ تو ناقابل تحمل ہے اور نہ انسان کا صوری خوف و رعب استفادہ سے مانع ہو سکتا ہے۔ ادھر پیغمبر کو حق تعالٰی وہ قوت قلبی عطا فرما دیتا ہے کہ اس پر جن جیسی ہیبت ناک مخلوق کا کوئی رعب نہیں پڑتا۔
ف ٨ یعنی دنیا کی لذات و شہوات نے انہیں آخرت سے غافل بنا دیا۔ کبھی خیال بھی نہ آیا کہ اس احکم الحاکمین کے سامنے جانا ہے جو ذرہ ذرہ کا حساب لے گا۔
ف٩ اس سورت میں اوپر مزکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے۔ پھر حق تعالٰی تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 48 حدیث مرفوع مکررات 3
قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں کو شب قدر بتانے کے لئے نکلے، مگر (اتفاق سے اس وقت) دو مسلمان باہم لڑ رہے تھے، آپ نے فرمایا (کہ اس وقت) میں اس واسطے نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں، مگر (چونکہ) فلاں فلاں باہم لڑے، اس لئے (اسکی خبر دنیا سے) اٹھالی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو (اب تم شب قدر کو) رمضان کی ستائیسویں اور انتیسویں اور پچیسویں (تاریخوں) میں تلاش کرو۔
Volume 1, Book 3, Number 79:
Narrated Abu Musa:
The Prophet said, "The example of guidance and knowledge with which Allah has sent me is
like abundant rain falling on the earth, some of which was fertile soil that absorbed rain water
and brought forth vegetation and grass in abundance. (And) another portion of it was hard
and held the rain water and Allah benefited the people with it and they utilized it for drinking,
making their animals drink from it and for irrigation of the land for cultivation. (And) a
portion of it was barren which could neither hold the water nor bring forth vegetation (then
that land gave no benefits). The first is the example of the person who comprehends Allah's
religion and gets benefit (from the knowledge) which Allah has revealed through me (the
Prophets and learns and then teaches others. The last example is that of a person who does
not care for it and does not take Allah's guidance revealed through me (He is like that barren
land.)"
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد



Reply

iqbalkuwait
04-02-2010, 08:47 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Friday, 02 April 2010
Quran. 6 Aya.131,132
ذَلِكَ أَن لَّمْ يَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ
وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُواْ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
یہ (رسولوں کا بھیجنا) اس لئے تھا کہ آپ کا رب بستیوں کو ظلم کے باعث ایسی حالت میں تباہ کرنے والا نہیں ہے کہ وہاں کے رہنے والے (حق کی تعلیمات سے بالکل) بے خبر ہوں (یعنی انہیں کسی نے حق سے آگاہ ہی نہ کیا ہو)،
اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے لحاظ سے درجات (مقرر) ہیں، اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دیتے ہیں،
That (Allah sends messengers) is because your Lord is not to destroy any towns on account of any wrongdoing, while their people are unaware.
For all people, there are ranks according to what they did, and your Lord is not unaware of what they do.
TAFSEER
١ ف سو اس سے بعثت رسول کی وجہ اور اسکی غرض و غایت کو واضح فرما دیا گیا کہ ہر قوم کے اندر انہی میں سے ایک رسول اس لئے مبعوث فرمایا گیا کہ آپ کے رب کی رحمت سے یہ بات بعید تھی کہ وہ کسی قوم کو اسکے کفر وشرک پر اس کے عواقب و نتائج سے خبردار کئے بغیر کوئی عذاب بھیج دے۔ کہ یہ بات اسکے عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں اس لئے وہ اگر کسی قوم کو سزا دیتا ہے۔ تو پہلے ان کو اچھی طرح آگاہ کر دیتا ہے۔ تاکہ وہ اگر توبہ و اصلاح کرنا چاہیں تو کرلیں۔ اور اگر ایسا نہ کرنا چاہیں تو اپنے کئے کرائے کے نتیجے کے طور پر اس کا انجام بھگتیں، جس کا حقدار و مستحق انہوں نے اپنے آپ کو بنا لیا۔ والعیاذُ باللہ، جل وعلا
٢ ف سو اس ارشاد ربانی سے ایک طرف تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالٰی کے یہاں کسی کے درجہ و مرتبہ کا اصل دارومدار اس کے اپنے عمل و کردار پر ہے نہ کہ کسی قوم قبیلے، یا حسب و نسب، وغیرہ کی بناء پر، اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ ان لوگوں کا کوئی عمل و کردار اللہ تعالٰی سے مخفی و مستور نہیں ہو سکتا۔ وہ ان کے تمام کاموں سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ اس لئے اس کو انکی درجہ بندی کے سلسلہ میں کوئی زحمت اور مشکل نہیں پیش آسکتی۔ پس وہ ہر کسی کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے گا جس کا وہ اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے مستحق ہوگا۔ فَبِاللّٰہ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ۔ وعَلٰی مَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ، وَہُوَ الْہَادِی اِلٰی سَوَاءِ السَّبِیْل۔ سبحانہ و تعالٰی
HADEES MUBARAK
جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 771 حدیث مرفوع مکررات 8
واصل بن عبدالاعلی، ابوبکر بن عیاش، عاصم، حضرت زر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابومنزر کو کس طرح کہا کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔ فرمایا بے شک ہمیں رسواللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ وہ ایسی رات ہے کہ اس کے بعد جب صبح سورج نکلتا ہے تو اس میں شعاعیں نہیں ہو تیں ہم نے گنا اور حفظ کرلیا قسم ہے اللہ کی کہ ابن مسعود بھى جانتے تھے کہ یہ رات رمضان کی ستائیسویں رات ہی ہے لیکن تم لوگوں کو بتانا بہتر نہیں سمجھا تاکہ تم صرف اس رات پر بھروسہ نہ کرنے لگو اور دوسری راتوں میں عبادت کرنا کم نہ کر دو، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Volume 1, Book 3, Number 80:
Narrated Anas:
Allah's Apostle said, "From among the portents of the Hour are (the following):
1. Religious knowledge will be taken away (by the death of Religious learned men).
2. (Religious) ignorance will prevail.
3. Drinking of Alcoholic drinks (will be very common).
4. There will be prevalence of open illegal sexual intercourse.
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
04-03-2010, 04:22 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Saturday, 03 April 2010
Quran.6 Aya.133,134
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاء كَمَآ أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ
إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لآتٍ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
اور آپ کا رب بے نیاز ہے، (بڑی) رحمت والا ہے، اگر چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور تمہارے بعد جسے چاہے (تمہارا) جانشین بنا دے جیسا کہ اس نے دوسرے لوگوں کی اولاد سے تم کو پیدا فرمایا ہے،
بیشک جس (عذاب) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آنے والا ہے اور تم (اﷲ کو) عاجز نہیں کر سکتے،
Your Lord is the All-Independent, the Lord of Mercy. If He so wills, He can take you away and cause whomsoever He wills to succeed you, just as He has raised you from the progeny of other people.
Surely what you are promised is bound to come, and you cannot frustrate (it).
TAFSEER
٣ ف سو وہ چونکہ غنی و بےنیاز ہے اس لئے اس کو نہ کسی کی ضرورت ہوسکتی ہے اور نہ کوئی حاجت وہ سب سے غنی اور ہر اعتبار سے مستغنی و بےپرواہ ہے۔ اگر خدانخواستہ سب اس کا انکار کر دیں تو اس کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں۔ اور اگر سب مل کر اس کی حمد و ثنا کے ترانے گانے لگیں تو اس سے اسکی خدائی میں ذرہ برابر کسی اضافے کا کوئی سوال و امکان نہیں وہ ایسے تمام تصورات اور جملہ شوائب سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے سبحانہ وتعالیٰ، لیکن وہ چونکہ غنی اور بےنیاز ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی رحمت والا بھی ہے اس لئے وہ اپنے بندوں کو ایمان و اسلام کی دعوت دیتا ہے اور ان کی ہدایت کیلئے اپنے رسول بھیجتا ہے اور ان کیلئے اپنی کتابیں اتارتا ہے۔ تاکہ خود ان کا بھلا ہو۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی جو اسکے بعد آنے والا ہے۔ اور تاکہ اس طرح وہ ان کو دوزخ کے ہولناک عذاب سے بچا کر اپنی جنت اور اسکی نعمتوں، اور اپنی عظیم الشان عنائیوں اور گونا گوں رحمتوں سے نوازے اور اتمام حجت کے بغیر کسی کو عذاب نہ دے۔ اور اسی لئے وہ لوگوں کو مہلت دیتا ہے۔ تاکہ جنہوں نے اپنی اصلاح کرنی ہو وہ کرلیں۔ نہیں تو وہ اپنا پیمانہ بھر لیں اور اسکے نتیجے میں وہ اپنے آخری انجام اور منطقی نتیجے کو پہنچ کر رہیں، سو وہ اگر منکروں اور سرکشوں کو فوراً نہیں پکڑتا تو اسلئے نہیں کہ وہ ایسا کر نہیں سکتا یا ایسا کرنے سے اسکی دنیا اجڑ جائیگی۔ اور پھر اسکو اس کے آباد کرنے والے نہیں مل سکیں گے نہیں اور ہرگز نہیں وہ اگر چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمہاری جگہ کسی اور مخلوق کو لابسائے جیسا کہ اس نے خود تم لوگوں کو دوسروں کی نسل سے پیدا فرمایا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس تم لوگوں کو اس سے سبق سیکھنا، اور درس عبرت لینا چاہئے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل
ف٢ خدا نے رسول بھیج کر اپنی حجت تمام کر دی۔ اب اگر تم نہ مانو اور سیدھے راستہ پر نہ چلو تو وہ غنی ہے اسے تمہاری کچھ پرواہ نہیں۔ وہ چاہے تو تم کو ایک دم میں لے جائے اور اپنی رحمت سے دوسری قوم کو تمہاری جگہ کھڑا کر دے جو خدا کی مطیع و وفادار ہو اور تم کو لے جا کر دوسری قوم کا لے آنا خدا کے لئے کیا مشکل ہے۔ آج تم اپنے جن آباء و اجداد کے جانشین بنے بیٹھے ہو، آخر ان کو اٹھا کر تم کو دنیا میں اسی خدا نے جگہ دی ہے۔ بہرحال خدا کا کام رک نہیں سکتا۔ تم نہ کرو گے دوسرے کھڑے کئے جائیں گے۔ ہاں یہ سوچ رکھو کہ یہ ہی بغاوت و شرارت رہی تو خدا کا عذاب اٹل ہے۔ تم اگر سمجھو کہ بھاگ کر یا کسی کی پناہ لے کر سزا سے بچ جاؤ گے تو یہ محض حماقت ہے۔ ساری مخلوق مل کر بھی خدا کو اس کی مشیت کے نفاذ سے عاجز نہیں کر سکتی۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 34 حدیث مرفوع مکررات 57متفق علیہ
ابوالیمان، شعیب، ابوالزناد، اعرج، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی ایماندار ہو کر، ثواب جان کر شب قدر میں قیام کرے تو اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
Volume 1, Book 3, Number 81:
Narrated Anas:
I will narrate to you a Hadith and none other than I will tell you about after it. I heard Allah's
Apostle saying: From among the portents of the Hour are (the following):
1. Religious knowledge will decrease (by the death of religious learned men).
2. Religious ignorance will prevail.
3. There will be prevalence of open illegal sexual intercourse.
4. Women will increase in number and men will decrease in number so much so that fifty
women will be looked after by one man.
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
Reply

iqbalkuwait
04-04-2010, 04:13 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Sunday, 04 April 2010
Quran. 6 Aya.135,136
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدِّارِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
وَجَعَلُواْ لِلّهِ مِمِّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُواْ هَـذَا لِلّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَآئِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلاَ يَصِلُ إِلَى اللّهِ وَمَا كَانَ لِلّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَآئِهِمْ سَاء مَا يَحْكُمُونَ
فرما دیجئے: اے (میری) قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو بیشک میں (اپنی جگہ) عمل کئے جا رہا ہوں۔ پھر تم عنقریب جان لو گے کہ آخرت کا انجام کس کے لئے (بہتر ہے)۔ بیشک ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے،
انہوں نے اﷲ کے لئے انہی (چیزوں) میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جنہیں اس نے کھیتی اور مویشیوں میں سے پیدا فرمایا ہے پھر اپنے گمانِ (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) اﷲ کے لئے ہے اور یہ ہمارے (خود ساختہ) شریکوں کے لئے ہے، پھر جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لئے ہے سو وہ تو اﷲ تک نہیں پہنچتا اور جو (حصہ) اﷲ کے لئے ہے تو وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے، (وہ) کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں،
Say, :O my people, do at your place (whatever you do.) I have to do (in my way). So, you will know for whom is the ultimate abode. Surely, the wrongdoers will not be successful.
They have assigned a portion for Allah from the tillage and the cattle created by Him, and then said, :This is for Allah , so they claim, :And this is for our associate-gods. Then, that which is allocated for their associate-gods never reaches Allah, while that which is allocated for Allah does reach their associate-gods. Evil is what they judge.
TAFSEER
ف٣ یعنی ہم سب نیک و بد اور نفع و ضرر سے آگاہ کر چکے۔ اس پر بھی اگر تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آئے تو تم جانو۔ تم اپنا کام کئے جاؤ میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں۔ عنقریب کھل جائے گا کہ اس دنیا کا آخری انجام کس کے ہاتھ رہتا ہے۔ بلاشبہ ظالموں کا انجام بھلا نہیں ہو سکتا۔ آگے ان کے چند اعتقادی اور عملی ظلم بیان کئے جاتے ہیں جو ان میں رائج تھے اور سب سے بڑا ظلم وہ ہی ہے جسے فرمایا اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔
ف٤ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "کافر اپنی کھیتی میں سے اور مواشی کے بچوں میں سے اللہ کی نیاز نکالتے اور بتوں کی بھی نیاز نکالتے۔ پھر بعضا جانور اللہ کے نام کا بہتر دیکھا تو بتوں کی طرف بدل دیا۔ مگر بتوں کی طرف کا اللہ کی طرف نہ کرتے، ان سے زیادہ ڈرتے"۔ اسی طرح غلہ وغیرہ میں سے اگر بتوں کے نام کا اتفاقاً اللہ کے حصّہ میں مل گیا تو پھر جدا کر کے بتوں کی طرف لوٹا دیتے اور اللہ نام کا بتوں کے حصہ میں جا پڑا تو اسے نہ لوٹاتے۔ بہانہ یہ کرتے تھے کہ اللہ تو غنی ہے اس کا کم ہو جائے تو کیا پروا ہے بخلاف بتوں کے کہ وہ ایسے نہیں۔ تماشہ یہ ہے کہ یہ کہہ کر بھی شرماتے نہ تھے کہ جو ایسے محتاج ہوں ان کو معبود و مستعان ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال ان آیات میں سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ سے مشرکین کی اس تقسیم کا رد کیا گیا ہے۔ یعنی خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مواشی وغیرہ میں سے اول تو اس کے مقابل غیر اللہ کا حصہ لگانا، پھر بری اور ناقص چیز خدا کی طرف رکھنا کس قدر ظلم اور بےانصافی ہے۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 840 حدیث مرفوع مکررات 43متفق علیہ
عبد اللہ بن یوسف، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ریشمی حلہ یعنی کپڑوں کا جوڑا مسجد نبوی کے پاس (فروخت ہوتے ہوئے) دیکھا تو کہا کہ یا رسول اللہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو خرید لیتے، تاکہ جمعہ کے دن اور وفد کے آنے کے وقت پہن لیتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، پھر اسی قسم کے چند حلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیا، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ پہننے کو دیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلہ عطارد کے بارے میں فرما چکے ہیں، کہ اس کے پہننے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے نہیں دیا تھا کہ تم اسے پہنو، تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں تھا، پہننے کو دے دیا۔
Volume 1, Book 3, Number 82:
Narrated Ibn 'Umar:
Allah's Apostle said, "While I was sleeping, I saw that a cup full of milk was brought to me
and I drank my fill till I noticed (the milk) its wetness coming out of my nails. Then I gave
the remaining milk to 'Umar Ibn Al-Khattab" The companions of the Prophet asked, "What
have you interpreted (about this dream)? "O Allah's Apostle ,!" he replied, "(It is religious)
knowledge."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد


Reply

iqbalkuwait
04-11-2010, 08:47 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Sunday, 11 April 2010
Quran. 6 Aya.150,151
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللّهَ حَرَّمَ هَـذَا فَإِن شَهِدُواْ فَلاَ تَشْهَدْ مَعَهُمْ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
(ان مشرکوں سے) فرما دیجئے کہ تم اپنے ان گواہوں کو پیش کرو جو (آکر) اس بات کی گواہی دیں کہ اﷲ نے اسے حرام کیا ہے، پھر اگر وہ (جھوٹی) گواہی دے ہی دیں تو ان کی گواہی کو تسلیم نہ کرنا (بلکہ ان کا جھوٹا ہونا ان پر آشکار کر دینا)، اور نہ ایسے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ (معبودانِ باطلہ کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں،
فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو،
Say, :Bring your witnesses who testify that Allah has prohibited this. Then, if they testify, (O prophet), do not be a witness to them, and do not follow the desires of those who have given the lie to Our signs and those who do not believe in the Hereafter, and who equate others with their Lord.
Say (O Prophet to the infidels), :Come, and I shall recite what your Lord has prohibited for you: Do not associate anything with Him (as His partner); and be good to parents, and do not kill your children because of poverty – We will give provision to you, and to them as well – and do not go near shameful acts, whether they are open or secret; and do not kill a person whom Allah has given sanctity, except rightfully. This He has enjoined upon you, so that you may understand.
TAFSEER
٣ ف سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جب ان لوگوں کے پاس عقل و نقل کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ تو یہ اگر اس کے باوجود اپنی ان خرافات کے حق میں کوئی گواہی دیتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دینا۔ کیونکہ جس چیز کو یہ لوگ دین کہتے اور بتاتے ہیں وہ دین نہیں بلکہ ان کی خواہشات اور من گھڑت خرافات کا پلندہ ہے، اور خواہشات کی پیروی کا نتیجہ و انجام ہلاکت و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ پھر ان لوگوں کے اس ارشاد میں تین جرائم ذکر فرمائے گئے ہیں جو دراصل ان کے اتباع ہویٰ کے اس جرم ہی سے پھوٹنے والے ہیں ایک یہ کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی جس سے ان کی تاریکی اور گہری ہو گئی۔ اور دوسرا جرم یہ کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے جو کہ آیات الٰہی کی تکذیب کا لازمی نتیجہ ہے، اور تیسرا یہ کہ یہ لوگ اپنے رب کے ہمسر ٹھہراتے ہیں، جو کہ تکذیب آیات اور ایمان بالآخرۃ سے محرومی کا طبعی نتیجہ اور منطقی تقاضا ہے۔ ورنہ اس وحدہ لاشریک کا کوئی ہمسر نہ ہے نہ ہوسکتا ہے کہ اسکی صفت و شان وَلَمْ یَکُنْ لَہ، کُفُوًا اَحَدْ کی شان ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو ایمان و یقین کی دولت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
١ ف یعنی تم لوگ سوچو کہ تمہارا بھلا کس میں ہے اور برا کس میں؟ اور یہ کہ اصل ملت ابراہیمی کیا تھی اور تم نے اس کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ اور اس کو تم نے کیا سے کیا بنا دیا؟ اصل چیز کو چھوڑ کر تم لوگوں نے چند اچھے بھلے جانوروں کو از خود اور اپنے طور پر حرام قرار دے دیا۔ اور اس پر تم ملت ابراہیمی کے دعویدار بن بیٹھے ہو تم لوگ کہاں سے نکل کر کہاں پہنچ گئے ہو اور کیا سے کیا بن گئے ہو؟ دعوی تو تم لوگ ملت ابراہیمی کا کرتے ہو مگر کام اس کے بالکل برعکس کرتے ہو۔ سو تم لوگ عقل سے کام لو۔ اور ان باتوں کو صدق دل سے اپناؤ جو میں تم کو پڑھ کر سنا رہا ہوں کہ یہی احکام اصل ملت ابراہیمی اور اس کا خلاصہ ہے۔ اور یہی تقاضا ہے کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا۔ اور اسی میں سب کا بھلا اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان ہے جبکہ اس سے اعراض و روگردانی سراسر خسارہ اور محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 130 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 3
مسدد، معتمر، معتمرکے والد انس کہتے ہیں، مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو کوئی اللہ تعالی سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا، معاذ نے کہا کہ کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں، میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر بھروسہ کرلیں اور اعمال چھوڑ دیں گے۔
Volume 1, Book 3, Number 89:
Narrated 'Umar:
My Ansari neighbor from Bani Umaiya bin Zaid who used to live at 'Awali Al-Medina and
used to visit the Prophet by turns. He used to go one day and I another day. When I went I
used to bring the news of that day regarding the Divine Inspiration and other things, and
when he went, he used to do the same for me. Once my Ansari friend, in his turn (on
returning from the Prophet), knocked violently at my door and asked if I was there." I became
horrified and came out to him. He said, "Today a great thing has happened." I then went to
Hafsa and saw her weeping. I asked her, "Did Allah's Apostle divorce you all?" She replied,
"I do not know." Then, I entered upon the Prophet and said while standing, "Have you
divorced your wives?" The Prophet replied in the negative. On what I said, "Allahu-Akbar
(Allah is Greater)." (See Hadith No. 119, Vol. 3 for details)
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
04-12-2010, 07:18 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Monday, 12 April 2010
Quran. 6 Aya.152,153
وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللّهِ أَوْفُواْ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
وَأَنَّ هَـذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو، اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو،
اور یہ کہ یہی (شریعت) میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو، اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو پھر وہ (راستے) تمہیں اﷲ کی راہ سے جدا کر دیں گے، یہی وہ بات ہے جس کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
Do not approach the property of the orphan, except with the best possible conduct, until he reaches maturity. Give full measure and full weight in all fairness – We do not obligate anyone beyond his capacity – and be just when you speak, even though the one (against whom you are speaking) is a relative; and fulfill the covenant of Allah. This is what He has enjoined upon you, so that you may observe the advice.
And: This is My path that is straightforward. So, follow it, and do not follow the (other) ways, lest they should make you deviate from His way. This is what He has enjoined upon you, so that you may be God-fearing.
TAFSEER
١٥٢۔١ جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے وارثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جایئداد کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔
١٥٢۔٢ ناپ تول میں کمی کرنا لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کر لینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں تھی۔
١٥٢۔٣ یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔
٢ ف سو توحید خداوندی کے عقیدے پر مبنی یہی راستہ صراطِ مستقیم اور صحت و سلامتی کا راستہ اور فوز و فلاح کا واحد ذریعہ ہے جو اب میں تم لوگوں کو بتا رہا ہوں۔ اسی کی دعوت و تبلیغ کا پیغام حضرت ابراہیم نے دنیا کو دیا اور اسی کو اپنانے کی تعلیم و تلقین انہوں نے اپنی اولاد کو فرمائی، پس اس سیدھی راہ سے ہٹ کر جو دوسری مختلف ٹیڑھی ترچھی راہیں لوگوں نے نکالی ہیں وہ سب کی سب غلط، اور صراط مستقیم سے انحراف پر مبنی ہیں۔ پس تم لوگ ان سے بچو کہ وہ سب ملت ابراہیمی سے محروم کرنے والی، اور ہلاکت و تباہی کی راہیں ہیں۔ ملت ابراہیمی کی اسی صراط مستقیم سے اللہ تعالٰی نے تم لوگوں کو اب میرے ذریعے آگہی بخشی ہے، اور اس کو از سرنو باز کیا ہے۔ تاکہ اس کو اپنا کر تم لوگ ہلاکت و تباہی کی وادیوں میں بھٹکنے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالٰی کی گرفت و پکڑ سے بچ سکو، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وہو الہادی الی سبیل الرشاد
Pl.Forward to Others
HADEES MUBARAK
www.quran-hadees.com
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 586 حدیث مرفوع مکررات 12
ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں شامل ہونے کا کتنا ثواب ہے پھر قرعہ ڈالنے کے بغیر نہ حاصل ہو تو ضرور قرعہ ڈالیں اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اول وقت نماز پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو بڑی کوشش سے آئیں اور اگر جان لیں کہ عشاء اور صبح کی نماز باجماعت ادا کرنے میں کیا ثواب ہے تو ضرور ان دونوں کی جماعت آئیں خواہ گھنٹوں کے بل چل کر ہی آنا پڑے۔
Volume 1, Book 3, Number 90:
Narrated Abu Mas'ud Al-Ansari:
Once a man said to Allah's Apostle "O Allah's Apostle! I may not attend the (compulsory
congregational) prayer because so and so (the Imam) prolongs the prayer when he leads us
for it. The narrator added: "I never saw the Prophet more furious in giving advice than he was
on that day. The Prophet said, "O people! Some of you make others dislike good deeds (the
prayers). So whoever leads the people in prayer should shorten it because among them there
are the sick the weak and the needy (having some jobs to do)."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد

Reply

iqbalkuwait
04-13-2010, 04:38 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Tuesday, 13 April 2010
Quran. 6 Aya.154,155,156
ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِيَ أَحْسَنَ وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ
پھر ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی اس شخص پر (نعمت) پوری کرنے کے لئے جو نیکو کار بنے اور (اسے) ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت بنا کر (اتارا) تاکہ وہ (لوگ قیامت کے دن) اپنے رب سے ملاقات پر ایمان لائیں،
اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے،
(قرآن اس لئے نازل کیا ہے) کہ تم کہیں یہ (نہ) کہو کہ بس (آسمانی) کتاب تو ہم سے پہلے صرف دو گروہوں (یہود و نصارٰی) پر اتاری گئی تھی اور بیشک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے،
Then We gave Musa the Book, perfect for the one who does good, and explaining everything in detail, and a guidance and mercy, so that they may believe in meeting their Lord.
And this (Qur‘an) is a blessed Book We have sent down. So follow it and fear Allah, so that you may be favored with mercy.
(Had We not sent this book,) you would (have an excuse to) say, :The Book was sent down only upon two groups before us, (i.e. the Jews and the Christians) and we were unaware of what they read.
TAFSEER
ف٢ معلوم ہوتا ہے کہ جو احکام اوپر قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ سے پڑھ کر سنائے گئے، یہ ہمیشہ سے جاری تھے۔ تمام انبیاء اور شرائع کا ان پر اتفاق رہا کیا۔ بعدہ، حق تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری جس میں احکام شرع کی مذید تفصیل درج تھی۔ تورات عطا فرما کر اس زمانہ کے نیک کام کرنے والوں پر خدا نے اپنی نعمت پوری کر دی۔ ہر ضروری چیز کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا اور ہدایت و رحمت کے ابواب مفتوح کر دیے تاکہ اسے سمجھ کر لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کا کامل یقین حاصل کریں۔
ف٣ یعنی تورات تو تھی ہی جیسی کچھ تھی، لیکن ایک یہ کتاب ہے (قرآن کریم) جو اپنے درخشاں اور ظاہر و باہر حسن و جمال کے ساتھ تمہارے سامنے ہے اس کی خوبصورتی اور کمال کا کیا کہنا۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ اس کی ظاہری و باطنی برکات اور صوری و معنی کمالات کو دیکھ کر بےاختیار کہنا پڑتا ہے۔ بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ میدارد برنگ اصحاب صورت رابہ بوار باب معنی را اب دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر خدا کی رحمت سے حظ وافر لینا چاہتے ہو تو اس آخری اور مکمل کتاب پر چل پڑو اور خدا سے ڈرتے رہو کہ اس کتاب کے کسی حصہ کی خلاف ورزی ہونے نہ پائے۔
ف٤ یعنی اس مبارک کتاب (قرآن کریم) کے نزول کے بعد عرب کے امین کے لئے یہ کہنے کا بھی موقع نہیں چھوڑا گیا کہ پیشتر جو آسمانی کتابیں شرائع الہٰیہ کو لے کر اتریں وہ تو ہمارے علم کے موافق انہی دو فرقوں (یہود و نصاریٰ) پر اتریں بیشک وہ لوگ آپس میں اسے پڑھتے پڑھاتے تھے اور بعضے اس کا ترجمہ بھی عربی میں کرتے تھے مثلاً ورقہ بن نوفل وغیرہ اور بہت سے مدت تک اس دھن میں لگے رہے کہ عرب کو یہودی یا نصرانی بنا لیں لیکن ہمیں ان کی تعلیم و تدریس سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اس سے بحث نہیں کہ یہود نصاریٰ جو کچھ پڑھتے پڑھاتے تھے وہ چیز کہاں تک اپنی اصلی سماوی صورت میں محفوظ تھی۔ مطلب صرف اس قدر ہے کہ ان شرائع و کتب کی اصلی مخاطب فقط قوم بنی اسرائیل تھی۔ خواہ اس تعلیم کے بعض اجزاء مثلاً توحید اور اصول دینیہ کی دعوت کو وسعت دے کر بنی اسرائیل کے سوا دوسری اقوام کے حق میں بھی عام کر دیا گیا ہوتا ہم جو شریعت اور کتاب سماوی بہیئات مجموعی کسی خاص قوم پر اسی کے مخصوص فائدہ کے لئے اتری ہو اس کے درس و تدریس سے اگر دوسری اقوام خصوصاً عرب جیسی غیور و خوددار قوم کو دلچسپی اور لگاؤ نہ ہو تو کچھ مستبعد نہیں، بنا بریں وہ کہہ سکتے تھے کہ کوئی آسمانی کتاب و شریعت ہماری طرف نہیں آئی اور جو کسی مخصوص قوم کے لئے آئی اس سے ہم نے چنداں واسطہ نہیں رکھا پھر ہم ترک شرائع پر کیوں ماخوذ ہوں گے۔ مگر آج ان کے لئے اس طرح کے حیلے حوالوں کا موقع نہیں رہا۔ خدا کی حجت اس کی روشن کتاب اور ہدایت و رحمت عامہ کی بارش خاص ان کے گھر میں اتاری گئی۔ تاکہ وہ اولاً اس سے مستفید ہوں، پھر اس امانت الہٰیہ کو تمام احمرو اسود اور مشرق و مغرب کے باشندوں تک حفاظت و احتیاط کے ساتھ پہنچا دیں۔ کیونکہ یہ کتاب کسی خاص قوم و ملک کے لئے نہیں اتاری گئی۔ اس کا مخاطب تو سارا جہان ہے۔ چنانچہ خدا کے فضل و توفیق سے عرب کے ذریعہ سے خدا کا یہ عام اور آخری پیغام آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ گیا۔ والحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 605 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ
قبیصہ، سفیان، اعمش، ح، بشر بن محمد، عبداللہ ، شعبہ، اعمش، ابووائل، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا۔
Volume 1, Book 3, Number 91:
Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani:
A man asked the Prophet about the picking up of a "Luqata" (fallen lost thing). The Prophet
replied, "Recognize and remember its tying material and its container, and make public
announcement (about it) for one year, then utilize it but give it to its owner if he comes."
Then the person asked about the lost camel. On that, the Prophet got angry and his cheeks or
his Face became red and he said, "You have no concern with it as it has its water container,
and its feet and it will reach water, and eat (the leaves) of trees till its owner finds it." The
man then asked about the lost sheep. The Prophet replied, "It is either for you, for your
brother (another person) or for the wolf."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
Reply

iqbalkuwait
04-14-2010, 03:11 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Wednesday, 14 April 2010
Quran. 6 Aya.157,158
أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ
هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِيهُمُ الْمَلآئِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ

یا یہ (نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم یقیناً ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے، سو اب تمہارے رب کی طرف تمہارے پاس واضح دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی ہے، پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے کترائے۔ ہم عنقریب ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے گریز کرتے ہیں برے عذاب کی سزا دیں گے اس وجہ سے کہ وہ (آیاتِ ربّانی سے) اِعراض کرتے تھے،
وہ فقط اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس (عذاب کے) فرشتے آپہنچیں یا آپ کا رب (خود) آجائے یا آپ کے رب کی کچھ (مخصوص) نشانیاں (عیاناً) آجائیں۔ (انہیں بتا دیجئے کہ) جس دن آپ کے رب کی بعض نشانیاں (یوں ظاہراً) آپہنچیں گی (تو اس وقت) کسی (ایسے) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے اپنے ایمان (کی حالت) میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی، فرما دیجئے: تم انتظار کرو ہم (بھی) منتظر ہیں،
Or you would say, :If the Book had been sent down to us, we would have been more adhering to the right path than they are. Now there has come to you a clear sign from your Lord, and a guidance and mercy. So, who is more unjust than the one who gives the lie to the verses of Allah and turns away from them? We will recompense those who turn away from Our verses with an evil punishment, because of their turning away.
They are waiting for nothing less than that the angels should come to them, or your Lord or some signs of your Lord should come. The day some signs of your Lord will come, the believing of a person shall be of no use to him who had never believed before, or had not earned some good through his faith. Say, :Wait. Of course, we are waiting.
TAFSEER
٢ ف سو تم لوگوں پر کتاب اتاری گئی۔ اور وہ بھی ایسی خاص صفات والی کتاب، جو کہ بحیثیت مجموعی اس کے سوا اور کسی بھی کتاب میں نہ ہوئی ہیں نہ ہوسکتی ہیں۔ بلکہ وہ اسی کتاب حکیم کی خصوصیات اور اس کی اہم صفات ہیں۔ جن میں سے اسکی ایک اہم صفت اور اسکی امتیازی شان یہ ہے کہ اس کو تمہارے رب کی طرف سے "بَیّنۃ" یعنی ایک ایسی واضح دلیل، اور قطعی حجت، کے طور پر اتارا گیا ہے۔ جو اپنی صداقت و حقانیت کی دلیل خود ہے۔ اس کا کتاب الٰہی ہونا کسی خارجی دلیل کا محتاج نہیں، اور دوسرا پہلو اسکے بَیِّنۃ یعنی روشن دلیل ہونے کا یہ ہے کہ اس میں تورات کی طرح صرف احکام ہی نہیں ذکر فرمائے گئے، اور یہ محض خالی خولی احکام و ہدایات کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں ہر دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی موجود ہے، اور اسکی ہر ہدایت و تعلیم کے ساتھ ایسے دلائل وبراہین بھی موجود ومزکور ہیں۔ جس سے وہ حکم و ارشاد دلوں میں اترتا اور عقول سلیمہ کو اپیل کرتا ہے۔ اور یہ دلائل و براہین ایسے ہیں جو عقول سلیمہ اور طبائع مستقیمہ کے عین مطابق ہیں، جن کے مقابلے میں کٹ حجتی تو کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی تردید ممکن نہیں، والحمدللہ جل وعلا، اور دوسری بڑی اور ہم صفت اس کتاب ہدایت کی یہ ہے کہ یہ سراسر ہدایت ہے، یہ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق اور ہر اعتبار سے ہدایت و راہنمائی فرماتی ہے، اور اسکی تیسری، اہم صفت اسکی یہ ہے کہ یہ عین رحمت ہے۔ یہ انسان کو اس دنیا میں بھی طرح طرح کی رحمتوں سے نوازتی ہے جس سے اس کو حیات طیبہ یعنی ایک عظیم الشان پاکیزہ زندگی کی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں۔ اور پھر اس کو آخرت میں یہ جنت اور اسکی ان بےمثال نعمتوں سے سرفراز کریگی جو سدا بہار اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہونگی اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین
٣ ف استفہام ظاہر ہے کہ یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی اس سے بڑھ کر ظالم بدبخت اور محروم القسمت اور کوئی نہیں ہوسکتا، جس کے پاس یہ رحمتوں اور برکتوں بھری کتاب ہدایت آجائے جو تمام عذرات خاتمہ کرنے والی، اور قطعی حجت و برہان ہے۔ اور جو ابر رحمت بن کر برسے، جو راہنمائی کیلئے روشنی کا مینار، دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ، اور آخرت میں رحمت خداوندی سے سرفرازی کی ضامن ہو۔ مگر اس سب کے باوجود وہ اس سے منہ موڑے، اور اس سے اعراض و روگردانی برتے، اور دوسروں کو بھی اس سے روکے۔ تو پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، سو ایسے ظالموں کو اپنے ظلم و عدوان کا بھگتان آخرکار، اور بہرحال بھگتنا ہوگا، اور بڑے ہی ہولناک انداز میں بھگتنا ہوگا، کہ یہ حضرت خالق حکیم کے عدل و انصاف اور اسکی حکمت بےپایاں، اور اسکی رحمت و عنایت کا تقاضا ہے، سبحانہ و تعالیٰ
ف٢ یعنی اللہ کی طرف سے ہدایت کی جو حد تھی وہ پوری ہو چکی، انبیاء تشریف لائے، شریعتیں اتریں کتابیں آئیں حتیٰ کہ اللہ کی آخری کتاب بھی آچکی، تب بھی نہیں مانتے تو شاید اب اس کے منتظر ہیں کہ اللہ آپ آئے یا فرشتے آئیں یا قدرت کا کوئی بڑا نشان (مثلاً قیامت کی کوئی بڑی علامت) ظاہر ہو تو یاد رہے کہ قیامت کے نشانوں میں سے ایک نشان وہ بھی ہے جس کے ظاہر ہونے کے بعد نہ کافر کا ایمان لانا معتبر ہوگا نہ عاصی کی توبہ۔ صحیحین کی احادیث بتلاتی ہیں کہ یہ نشان آفتاب کا مغرب سے طلوع کرنا ہے۔ یعنی جب خدا کا ارادہ ہوگا کہ دنیا کو ختم کرے اور عالم کا موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے تو موجودہ قوانین طبیعیہ کے خلاف بہت سے عظیم الشان خوارق وقوع میں آئیں گے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آفتاب مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ غالباً اس حرکت مقلوبی اور رجت قہقری سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کہ جو قوانین قدرت اور نوامیس طبیعیہ دنیا کے موجودہ نظم و نسق میں کار فرما تھے، ان کی میعاد ختم ہونے اور نظام شمسی کے الٹ پلٹ ہو جانے کا وقت آپہنچا ہے۔ گویا اس وقت سے عالم کبیر کے نزع اور جانکنی کے وقت کا ایمان اور توبہ مقبول نہیں کیونکہ وہ حقیقت میں اختیاری نہیں ہوتا، اسی طرح طلوع الشمس من المغرب کے بعد مجموعہ عالم کے حق میں یہ ہی حکم ہوگا کہ کسی کا ایمان و توبہ معتبر نہ ہو۔ بعض روایات میں طلوع الشمس من مغربھا کے ساتھ چند دوسرے نشانات بھی بیان ہوئے ہیں مثلاً خروج دجال، خروج دابہ وغیرہ۔ ان روایات کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب ان سب نشانات کا مجموعہ متحقق ہوگا اور وہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ طلوع الشمس من المغرب بھی متحقق ہو تو دروازہ توبہ کا بند کر دیا جائے گا الگ الگ ہر نشان پر یہ حکم متفرع نہیں۔ ہمارے زمانہ کے بعض ملحدین جو ہر غیر معمولی واقعہ کو استعارہ کا رنگ دینے کے خوگر ہیں وہ طلوع الشمس من المغرب کو بھی استعارہ بنانے کی فکر میں ہیں۔ غالباً ان کے نزدیک قیامت کا آنا بھی ایک طرح کا استعارہ ہی ہوگا۔ (تنبیہ) یہ جو کہا کہ "آئیں فرشتے یا آئے تیرا رب " اس کی تفسیر "سیقول" کے نصف پر آیت ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ کے تحت میں گزر چکی وہاں دیکھ لیا جائے اور جملہ اور کَسَبَتْ فِی اِیْمَانِھَا خَیْراً کا عطف اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ پر ہے اور تقدیر عبارت کی ابن المنیر وغیرہ محققین کے نزدیک یوں ہے لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا اوکسبھا خیرا لم تکن امنت من قبل او لم تکن کسبت فی ایمانھا خیرا یعنی جو پہلے سے ایمان نہیں لایا اس وقت اس کا ایمان نافع نہ ہوگا اور جس نے پہلے سے کسب خیر نہ کیا اس کا کسب خیر نافع نہ ہوگا۔ (یعنی توبہ قبول نہ ہوگی)۔
HADEES MUBARAK
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1026 مکررات 0
" اور حضرت حارث ابن وہب کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کیامیں تمہیں جنتیوں کو بتلادوں؟ یعنی کیامیں یہ کہوں کہ کون لوگ جنتی ہیں توسنو ہر وہ ضعیف شخص جنتی ہے جس کولوگ ضعیف وحقیر سمجھیں اور اس کی کمزوری وشکستہ حالی کی وجہ سے اس کے ساتھ جبر وتکبر کا معاملہ کریں حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ ضعیف وکمزور اللہ کے نزدیک اس قدر اونچا مرتبہ رکھتاہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسہ پرکسی بات پر قسم کھابیٹھے تواللہ اس کی قسم کوسچا کردے اور کیامیں تمہیں وہ لوگ بتلادوں جودوزخی ہیں؟توسنو ہر وہ شخص دوزخی ہے جو جھوٹی باتوں اور لغو باتوں پرسخت گوئی کرنے والاجھگڑالو ہومال جمع کرنے والا بخیل ہو، اور تکبر کرنے والا ہو۔ (بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر وہ شخص دوزخی ہے جو مال کو جمع کرنے والا اور حرام زادہ اور تکبر کرنے والاہو۔
Volume 1, Book 3, Number 92:
Narrated Abu Musa:
The Prophet was asked about things which he did not like, but when the questioners insisted,
the Prophet got angry. He then said to the people, "Ask me anything you like." A man asked,
"Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." Then another man got up
and said, "Who is my father, O Allah's Apostle ?" He replied, "Your father is Salim, Maula
(the freed slave) of Shaiba." So when 'Umar saw that (the anger) on the face of the Prophet he
said, "O Allah's Apostle! We repent to Allah (Our offending you)."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
Reply

iqbalkuwait
04-15-2010, 06:08 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Thursday, 15 April 2010
Quran. 6 Aya.159,160
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ
مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ
بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے،
جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں، اور جو کوئی ایک گناہ لائے گا تو اس کو اس جیسے ایک (گناہ) کے سوا سزا نہیں دی جائے گی اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے،
Surely, those who have made divisions in their religion and turned into factions, you have nothing to do with them. Their case rests with Allah alone; then He will tell them what they have been doing.
Whoever comes with a good deed will receive ten times as much, and whoever comes with an evil deed will be requited with no more than the like of it, and they shall not be wronged.
TAFSEER
١٥٩۔١ اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کہ کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں۔ جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کر کے تفرق وتخرب کا راستہ اپناتے ہیں۔ شیعا کے معنی فرقے اور گروہ اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
١ ف سو یہ اسی رب رحمان کی رحمتوں بھری تعلیمات کا ایک نمونہ و مظہر ہے جس سے اس نے اس کتاب حکیم کے ذریعے اپنے بندوں کو نوازا ہے، یعنی نیکی کا صلہ و بدلہ تو کم سے کم دس گنا، اور برائی کی سزا اسی کے برابر اور یہ کہ ان لوگوں پر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائے گی اور نہ کسی کے نامہ اعمال میں کسی ناکردہ گناہ کا کوئی اضافہ کیا جائے گا، بلکہ معاملہ اس سے بھی کہیں آگے ہے جیسا کہ دوسری مختلف نصوص میں اسکی تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکی کے سلسلے میں تو محض ارادہ کرنے پر بھی نیکی لکھ دی جائے گی، مگر برائی کے سلسلہ میں محض ارادہ کرنے پر برائی نہیں لکھی جائیگی جب تک کہ برائی کا بالفعل ارتکاب کر نہ لیا جائے، والعیاذُ باللہ العظیم، وغیرہ وغیرہ
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 678 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ
ابوالولید، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابوسلمہ، ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں تو (آپ سے) کہا گیا کہ آپ نے دو رکعتیں پڑھی ہیں؟ پس آپ نے دو رکعتیں (اور پڑھ لیں) پھر سلام پھیر کردو سجدے (ہو کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے۔
Volume 1, Book 3, Number 93:
Narrated Anas bin Malik:
One day Allah's Apostle came out (before the people) and 'Abdullah bin Hudhafa stood up
and asked (him) "Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The
Prophet told them repeatedly (in anger) to ask him anything they liked. 'Umar knelt down
before the Prophet and said thrice, "We accept Allah as (our) Lord and Islam as (our) religion
and Muhammad as (our) Prophet." After that the Prophet became silent.
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
Reply

iqbalkuwait
04-17-2010, 06:04 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Saturday, 17 April 2010

Quran.6 Aya.164,165
قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
فرما دیجئے: کیا میں اﷲ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر شے کا پروردگار ہے، اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے،
اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔ بیشک آپ کا رب (عذاب کے حق داروں کو) جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ (مغفرت کے امیدواروں کو) بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے،
Say, :Should I seek a lord other than Allah while He is the Lord of everything? And nobody does anything but to his own account, and no bearer of burden shall bear the burden of another. Then to your Lord is your return. Then He will let you know what you were disputing about.
TAFSEER
٢ ف سو اس ارشاد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ملت ابراہیم یعنی ملت اسلام کی اصل روح کی تعبیر کرائی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کی نماز اسکی قربانی اور اس کی ہر عبادت، اور اس کا مرنا اور جینا سب اللہ تعالٰی ہی کیلئے ہے۔ وہ جیتا ہے تو خداوند قدوس کی رضا و خوشنودی کیلئے اور مرتا ہے تو بھی اسی وحدہ لاشریک کی رضا و خوشنودی کیلئے۔ اس کی زندگی میں کوئی تقسیم نہیں بلکہ وہ از ابتداء تا انتہاء ہم رنگ اور ہم آہنگ ہے جب خداوند قدوس کا کوئی شریک نہیں، بلکہ وہ وحدہ لاشریک ہے تو اس لئے بندے کی زندگی میں بھی کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ بلکہ وہ پوری کی پوری بغیر کسی تجزیہ و تقسیم کے اور بدوں کسی تحفظ و استثناء کے اللہ وحدہ لاشریک ہی کیلئے ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہی میری فطرت ہے اور اسی کا مجھے میرے خالق و مالک کی طرف سے حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور اسی کیلئے میں نے اپنی گردن اسی کے آگے ڈال دی ہے، سبحانہ وتعالیٰ
٣ ف یعنی جہاں پر وہ عملی طور پر اس کا فیصلہ فرما دیگا۔ ورنہ علمی طور پر تو اس نے ان سب کا فیصلہ اپنی کتاب حکیم کے ذریعے اسی دنیا میں فرما دیا ہے، بہر کیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہر کوئی اپنے کئے کرائے کا ذمہ دار خود ہے۔ ہر کسی کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان خود ہی بھگتنا ہوگا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور سب کو آخرکار لوٹ کر اپنے رب ہی کے پاس جانا اور اس کے حضور حاضر ہونا ہے اور اسی کے یہاں تمام اختلافات کا آخری اور عملی فیصلہ ہوگا۔ تو پھر ایسے میں اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو اپنا حَکمَ و منصف ماننا اور اپنا معبود بنانا کس طرح اور کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ سو خالق و مالک اور حَکمَ و معبود وہی وحدہ لاشریک ہے، اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیّاہ۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ وبہٰذا قدتَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ الانعام بتوفیق اللہ و عنایتہ سبحانہ و تعالٰی فلہ الحمد ولہ الشکر قبل کل شیئ وبعد کل شیئ،٩ رجب ١٤٢٥؁ھ مطابق ٢٥ اگست ٢٠٠٤ بروز بدھ بوقت سوا گیارہ بجے شب سطوہ دبی والحمدللہ رب العالمین۔ الذی بِیَدہٖ اَزِمَّۃُ التَّوفیق والعنایۃ، سبحانہ و تعالٰی

HADEES MUBARAK

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2126 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 6
مسدد، یحیی، یزید بن ابی عبید، سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے عاشورا کے دن فرمایا کہ اپنی قوم میں یا لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے کچھ کھا لیا ہے تو وہ باقی دن روزہ پورا کرے اور جس نے کچھ نہیں کھایا ہو تو اس کو چاہیے کہ روزہ رکھ لے
Volume 1, Book 3, Number 95:
Narrated Anas:
Whenever the Prophet spoke a sentence (said a thing), he used to repeat it thrice so that the
people could understand it properly from him and whenever he asked permission to enter, (he
knocked the door) thrice with greeting.

اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد

Reply

iqbalkuwait
04-17-2010, 06:06 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Saturday, 17 April 2010
Quran.6 Aya.164,165
قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاَئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
فرما دیجئے: کیا میں اﷲ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر شے کا پروردگار ہے، اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے،
اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔ بیشک آپ کا رب (عذاب کے حق داروں کو) جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ (مغفرت کے امیدواروں کو) بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے،
Say, :Should I seek a lord other than Allah while He is the Lord of everything? And nobody does anything but to his own account, and no bearer of burden shall bear the burden of another. Then to your Lord is your return. Then He will let you know what you were disputing about.
TAFSEER
٢ ف سو اس ارشاد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ملت ابراہیم یعنی ملت اسلام کی اصل روح کی تعبیر کرائی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کی نماز اسکی قربانی اور اس کی ہر عبادت، اور اس کا مرنا اور جینا سب اللہ تعالٰی ہی کیلئے ہے۔ وہ جیتا ہے تو خداوند قدوس کی رضا و خوشنودی کیلئے اور مرتا ہے تو بھی اسی وحدہ لاشریک کی رضا و خوشنودی کیلئے۔ اس کی زندگی میں کوئی تقسیم نہیں بلکہ وہ از ابتداء تا انتہاء ہم رنگ اور ہم آہنگ ہے جب خداوند قدوس کا کوئی شریک نہیں، بلکہ وہ وحدہ لاشریک ہے تو اس لئے بندے کی زندگی میں بھی کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ بلکہ وہ پوری کی پوری بغیر کسی تجزیہ و تقسیم کے اور بدوں کسی تحفظ و استثناء کے اللہ وحدہ لاشریک ہی کیلئے ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہی میری فطرت ہے اور اسی کا مجھے میرے خالق و مالک کی طرف سے حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور اسی کیلئے میں نے اپنی گردن اسی کے آگے ڈال دی ہے، سبحانہ وتعالیٰ
٣ ف یعنی جہاں پر وہ عملی طور پر اس کا فیصلہ فرما دیگا۔ ورنہ علمی طور پر تو اس نے ان سب کا فیصلہ اپنی کتاب حکیم کے ذریعے اسی دنیا میں فرما دیا ہے، بہر کیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہر کوئی اپنے کئے کرائے کا ذمہ دار خود ہے۔ ہر کسی کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان خود ہی بھگتنا ہوگا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور سب کو آخرکار لوٹ کر اپنے رب ہی کے پاس جانا اور اس کے حضور حاضر ہونا ہے اور اسی کے یہاں تمام اختلافات کا آخری اور عملی فیصلہ ہوگا۔ تو پھر ایسے میں اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو اپنا حَکمَ و منصف ماننا اور اپنا معبود بنانا کس طرح اور کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ سو خالق و مالک اور حَکمَ و معبود وہی وحدہ لاشریک ہے، اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیّاہ۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ وبہٰذا قدتَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ الانعام بتوفیق اللہ و عنایتہ سبحانہ و تعالٰی فلہ الحمد ولہ الشکر قبل کل شیئ وبعد کل شیئ،٩ رجب ١٤٢٥؁ھ مطابق ٢٥ اگست ٢٠٠٤ بروز بدھ بوقت سوا گیارہ بجے شب سطوہ دبی والحمدللہ رب العالمین۔ الذی بِیَدہٖ اَزِمَّۃُ التَّوفیق والعنایۃ، سبحانہ و تعالٰی

HADEES MUBARAK

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2126 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 6
مسدد، یحیی، یزید بن ابی عبید، سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے عاشورا کے دن فرمایا کہ اپنی قوم میں یا لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے کچھ کھا لیا ہے تو وہ باقی دن روزہ پورا کرے اور جس نے کچھ نہیں کھایا ہو تو اس کو چاہیے کہ روزہ رکھ لے
Volume 1, Book 3, Number 95:
Narrated Anas:
Whenever the Prophet spoke a sentence (said a thing), he used to repeat it thrice so that the
people could understand it properly from him and whenever he asked permission to enter, (he
knocked the door) thrice with greeting.

اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد

Reply

iqbalkuwait
04-18-2010, 06:29 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Sunday, 18 April 2010
Quran. 7 Aya.2,3
كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ
(اے حبیبِ مکرّم!) یہ کتاب ہے (جو) آپ کی طرف اتاری گئی ہے سو آپ کے سینۂ (انور) میں اس (کی تبلیغ پر کفار کے انکار و تکذیب کے خیال) سے کوئی تنگی نہ ہو (یہ تو اتاری ہی اس لئے گئی ہے) کہ آپ اس کے ذریعے (منکرین کو) ڈر سنا سکیں اور یہ مومنین کے لئے نصیحت (ہے)،
(اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور اس کے غیروں میں سے (باطل حاکموں اور) دوستوں کے پیچھے مت چلو، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو،
(This is) a book sent down to you. Therefore, your heart must not be straitened because of it. (It is revealed to you) so that you may warn through it, and it may be an advice for the believers.
(O humankind,) follow what has been sent down to you from your Lord, and do not follow any masters other than Him. Little you heed to advice!
TAFSEER
١ ف سو اس ارشاد سے اس کتاب حکیم کے بارے میں پیغمبر کی ذمہ داری کی حد کو واضح فرما دیا گیا۔ کہ آپ کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کے انجام سے آگاہ اور خبردار کر دیں اور بس آگے یہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں مانتے اسکی ذمہ داری آپ پر نہیں آپ کا کام اور آپ کی اصل ذمہ داری انذار و تبلیغ ہے اور بس۔ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ کا عطف معنی لِتُنْذِرَ ہی پر ہے۔ لیکن اس کو فعل کے بجائے اسم کی شکل میں لانے میں اس امر واقعہ کا اظہار مقصود ہے کہ جہاں تک انذار کا تعلق ہے وہ تو آپ سب کو کر دیں، لیکن اس سے تذکیر ویاد دہانی کا فائدہ اہل ایمان ہی اٹھائیں گے، جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس بات کو طرح طرح سے بیان فرمایا گیا ہے۔
٢ ف سو اس ارشاد سے اس کتاب حکیم کے اصل اور مرکزی مضمون کی توضیح فرمائی گئی ہے۔ کہ تم لوگ پیروی کرو اس وحی کی جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے تمہارے رب کی جانب سے کہ اسی میں تمہارا بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور رب کی وحی اور اس کا کلام و ارشاد ہی ایسی چیز ہے جس میں کسی خطاء و تقصیر کا کوئی خدشہ و اندیشہ اور کوئی تصور وامکان نہیں اور جو ہر پہلو اور ہر اعتبار سے بندوں کیلئے خیر ہی خیر اور ذریعہ فلاح و نجات ہے اور بس، اسلئے اس کو چھوڑ کر دوسرے دوستوں اور سرپرستوں کی پیروی کرنا باعث خسارہ و نقصان ہے۔ مگر افسوس کہ تم لوگ کم ہی دھیان کرتے اور نصیحت کو مانتے ہو۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 614 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ
ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میرا یہ ارادہ ہوا ہے کہ اولا لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اس کے بعد حکم دوں کہ عشاء کی نماز کوئی دوسرا شخص پڑھائے اور میں خود کچھ لوگوں کو ہمراہ لے کر ایسے لوگوں کے گھروں تک پہنچوں جو عشاء کی نماز جماعت سے نہیں پڑھتے اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ فربہ ہڈی یا وہ عمدہ گوشت میں ہڈیاں پائے گا تو یقینا عشاء کی نماز میں آئے۔
Volume 1, Book 3, Number 96:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr:
Once Allah's Apostle remained behind us in a journey. He joined us while we were
performing ablution for the 'Asr prayer which was over-due. We were just passing wet hands
over our feet (not washing them properly) so the Prophet addressed us in a loud voice and
said twice or thrice, "Save your heels from the fire."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
04-19-2010, 04:29 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Monday, 19 April 2010
Quran. 7 Aya.4,5
وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَآئِلُونَ
فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءهُمْ بَأْسُنَا إِلاَّ أَن قَالُواْ إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ
اور کتنی ہی بستیاں (ایسی) ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا سو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا (جبکہ) وہ دوپہر کو سو رہے تھے،
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آگیا تو ان کی پکار سوائے اس کے (کچھ) نہ تھی کہ وہ کہنے لگے کہ بیشک ہم ظالم تھے،
How many a town We have destroyed! Our punishment came upon them at night or when they were having a nap at midday.
So, when Our punishment came upon them, they could say nothing but cry, :We were wrongdoers indeed.
TAFSEER
(ف4) اب حکم الٰہی کا اِتّباع ترک کرنے اور اس سے اِعراض کرنے کے نتائج پچھلی قوموں کے حالات میں دکھائے جاتے ہیں ۔
(ف5) معنی یہ ہیں کہ ہمارا عذاب ایسے وقت آیا جب کہ انہیں خیال بھی نہ تھا یا تو رات کا وقت تھا اور وہ آرام کی نیند سوتے تھے یا دن میں قیلولہ کا و قت تھا اور وہ مصروف راحت تھے نہ عذاب کے نزول کی کوئی نشانی تھی نہ قرینہ کہ پہلے سے آگاہ ہوتے اچانک آ گیا اس سے کُفَّار کو مُتنبِّہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسبابِ امن و راحت پر مغرور نہ ہوں ، عذاب الٰہی جب آتا ہے تو دَفۡعَۃً آجاتا ہے ۔
٣ ف سو اس سے درس عبرت لینے کیلئے تاریخ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جو اپنے عیش و عشرت میں مگن اور اپنے ظلم وعدوں پر اڑی ہوئی تھیں، قدرت کے قانون امہال کے مطابق ان کو جتنی مہلت ملنا تھی وہ ملی، مگر آخرکار ان کو عذاب خداوندی نے آپکڑا، اور ایسے طور پر کہ ان کو اس کاوہم و گمان بھی نہ تھا، سو اس وقت ان کی سب اکڑغوں نکل گئی۔ ان کا کبر و غرور سب کا سب ہرن ہوگیا، اور اس وقت ان کی چیخ و پکار اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ واقعی ہم لوگ ظالم تھے، مگر بےوقت کے اس اس اقرار و اعتراف کا ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہ ہوا۔ اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کر دیا گیا۔ اور قصہ پارینہ، اور داستان عبرت بن کر رہ گئے۔ اور یہی نتیجہ انجام ہوتا ہے منکرین حق کا۔ والعیاذ باللہ سو اس میں سرکشوں کیلئے بڑا سامان عبرت وبصیرت ہے۔ کہ تاکہ وہ اپنی سرکشی کی رَوَش سے باز آجائیں۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2101 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ
علی، سفیان ، عمر، عطاء ، سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی، تو حضرت عمر نکلے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کا وقت ہو گیا عورتیں اور بچے سو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر آئے اس حال میں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور فرما رہے تھے کہ اگر میں اپنی امت پر یا فرمایا کہ لوگوں پر شاق نہ جانتا (اور سفیان نے امتی کو نقل کیا) تو میں ان کو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم دیتا، ابن جریج نے بواسطہ، عطاء، ابن عباس نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نماز میں دیر کی تو حضرت عمر آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ عورتیں اور بچے سو گئے،چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کی کنپٹیوں سے پانی ٹپک رہا تھا، اور فرما رہے تھے کہ یہی وقت نماز کا ہے اگر میں اپنی امت کے لئے دشوار نہ جانتا (تواسی وقت نماز پڑھنے کا حکم دیتا) اور عمرو بیان کرتے ہیں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور ابن جریج نے کہا کہ آپ اپنی کنپٹیوں سے پانی پونچھ رہے تھے، اور عمر نے کہا کہ اگر میں اپنی امت کے لئے شاق نہ جانتا، اور ابراہیم بن منذر نے بواسطہ معن محمد بن مسلم، عمرو، عطاء، حضرت ابن عباس، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
Volume 1, Book 3, Number 97:
Narrated Abu Burda's father:
Allah's Apostle said "Three persons will have a double reward:
1. A Person from the people of the scriptures who believed in his prophet (Jesus or Moses)
and then believed in the Prophet Muhammad (i .e. has embraced Islam).
2. A slave who discharges his duties to Allah and his master.
3. A master of a woman-slave who teaches her good manners and educates her in the best
possible way (the religion) and manumits her and then marries her."
Volume 1, Book 3, Number 97g:
Narrated Ibn 'Abbas:
Once Allah's Apostle came out while Bilal was accompanying him. He went towards the
women thinking that they had not heard him (i.e. his sermon). So he preached them and
ordered them to pay alms. (Hearing that) the women started giving alms; some donated their
ear-rings, some gave their rings and Bilal was collecting them in the corner of his garment.

اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
04-20-2010, 04:40 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Tuesday, 20 April 2010
Quran. 7 Aya.6,7
فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ
پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم یقیناً رسولوں سے بھی (ان کی دعوت و تبلیغ کے ردِّ عمل کی نسبت) دریافت کریں گے،
پھر ہم ان پر (اپنے) علم سے (ان کے سب) حالات بیان کریں گے اور ہم (کہیں) غائب نہ تھے (کہ انہیں دیکھتے نہ ہوں)،
So, We shall ask those to whom the messengers were sent, and We shall ask the messengers (how they conveyed the message).
Then, having full knowledge, We shall tell them the whole story, as We were never far from them.
TAFSEER
٦۔١ امتوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا؟وہ جواب دیں گے کہ ہاں! یا اللہ تیرے پیغمبر یقینا ہمار پاس آئے تھے لیکن ہماری قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کیا؟ پیغمبر سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔
ف٣ یعنی تمہارا کوئی جلیل و حقیر اور قلیل و کثیر عمل یا ظاہری و باطنی حال ہمارے علم سے غائب نہیں۔ ہم بلا توسط غیرے ذرہ ذرہ سے خبردار ہیں۔ اپنے اس علم ازلی محیط کے موافق سب اگلے پچھلے احوال تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیں گے۔ ملائیکۃ اللہ کے لکھے ہوئے اعمال نامے بھی علم الہٰی کے سرمو خلاف نہیں ہو سکتے ان کے ذریعہ سے اطلاع دینا محض ضابطہ کی مراعات اور نظام حکومت کا مظاہرہ ہے، ورنہ خدا اپنے علم میں ان ذرائع کا (معاذاللہ) محتاج نہیں ہو سکتا۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 611 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ
خندق کے دن عمر بن خطاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اللہ میں نے اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی اور آفتاب غروب ہو گیا حضرت عمر کی یہ کہنا ایسے وقت تھا کہ روزہ دار کے افطار کا وقت ہو جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطحان میں اترے اور میں آپ کی ہمراہ تھا آپ نے وضو فرمایا اور آفتاب غروب ہوجانے کے بعد پہلے نماز پڑھی۔
Volume 1, Book 3, Number 98:
Narrated Abu Huraira:
I said: "O Allah's Apostle! Who will be the luckiest person, who will gain your intercession
on the Day of Resurrection?" Allah's Apostle said: O Abu Huraira! "I have thought that none
will ask me about it before you as I know your longing for the (learning of) Hadiths. The
luckiest person who will have my intercession on the Day of Resurrection will be the one
who said sincerely from the bottom of his heart "None has the right to be worshipped but
Allah."
And 'Umar bin 'Abdul 'Aziz wrote to Abu Bakr bin Hazm, "Look for the knowledge of
Hadith and get it written, as I am afraid that religious knowledge will vanish and the religious
learned men will pass away (die). Do not accept anything save the Hadiths of the Prophet.
Circulate knowledge and teach the ignorant, for knowledge does not vanish except when it is
kept secretly (to oneself)."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
04-21-2010, 07:25 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Wednesday, 21 April 2010
Quran. 7 Aya.8,9
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَـئِكَ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُم بِمَا كَانُواْ بِآيَاتِنَا يِظْلِمُونَ
اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سو جن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے،
اور جن کے (نیکیوں کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے،
The Weighing (of deeds) on that day is definite. As for those whose scales are heavy, they will be the successful ones.
But those whose scales are light, they are the ones who have brought loss to themselves, because they did not do justice to Our verses.
TAFSEER
٤ ف یعنی وزن ضرور ہوگا۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوسکیں، اور ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ و بدلہ ملے۔ سو یہ اس جملے کا ایک اور ظاہر و متبادر مفہوم و مطلب ہے، جبکہ دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہے کہ اس روز وزن حق ہی کا ہوگا یعنی باطل کا سرے سے کوئی وزن ہوگا ہی نہیں۔ اور باطل پرستوں نے اپنے طور پر اور اپنے ظن و گمان کے مطابق جو کچھ کیا کرایا ہوگا وہ سب اکارت اور ہَبَاءً مَّنْثُوْرَا ہو کر رہ جائے گا۔ اس لئے باطل پرستوں کیلئے اس روز کوئی حساب قائم ہی نہیں ہوگا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا) 18۔الکہف:105) یعنی اکارت چلے گئے ان لوگوں کے سب اعمال پس ہم قیامت کے روز ان کیلئے کوئی وزن قائم کریں گے ہی نہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم
١ ف یعنی حق سے منہ موڑ کر۔ اور اس سے اعراض و انکار کر کے سو پیغام حق و ہدایت سے اعراض و روگردانی سراسر ظلم ہے سو یہ ظلم ہے اللہ کے حق میں جو کہ سب کا خالق و مالک ہے کہ یہ ظلم ہے اس کے حق عبودیت و بندگی میں اور یہ ظلم ہے رسول کے حق میں ان کے حق اطاعت واتباع سے موڑ کر نیز یہ ظلم ہے انسان کی خود اپنی ذات کے حق میں کہ انکار حق کے نتیجے میں اس کو دارین کی سعادت و سرخروائی سے محروم کر کے دائمی ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈالا۔ پس حق کا انکار اور اس سے اعراض و روگردانی ہر اعتبار سے ظلم اور ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم من کل شائیۃ من شوائب الظلم والاعراض والانکار۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1386 حدیث مرفوع مکررات 145متفق علیہ
محمد بن عرعرہ، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابوسلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے، آپ نے فرمایا، وہ عمل جو ہمیشہ کیا جائے، اگرچہ کم ہو، اور آپ نے فرمایا، کہ ان ہی عمال کی پابندی کرو جن کی تمہیں طاقت ہے۔
Volume 1, Book 3, Number 99:
Narrated Abdullah Ibn Dinar:
also narrates the same (above-mentioned statement) as has been narrated by 'Umar bin 'Abdul
'Aziz up to "The religious scholar (learned men) will pass away (die)."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
04-22-2010, 05:35 PM
Quran 7/10,11

Reply

waji
04-22-2010, 06:55 PM
:sl:

Easy Quran Software
With this software you can view Translations and Tafseer of many well known Tafseer
in English, Urdu and Hindi languages
:w:
Reply

iqbalkuwait
04-28-2010, 06:38 PM
Quran 7/17 to 24
اورصبع شام آپنے رب کےنام کا ذکر کيا کريں = قرآن 76/25
Reply

iqbalkuwait
04-28-2010, 06:39 PM
Quran 7/23,24
Attachment 4057
اورصبع شام آپنے رب کےنام کا ذکر کيا کريں = قرآن 76/25
Reply

iqbalkuwait
04-29-2010, 04:39 PM
Quran 7/25,26
اورصبع شام آپنے رب کےنام کا ذکر کيا کريں = قرآن 76/25
Reply

iqbalkuwait
05-02-2010, 06:37 PM
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Sunday, 02 May 2010
Quran. 7 Aya.31,32
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِي لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،
فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں،
O children of ‘Adam, take on your adornment at every mosque. Eat and drink and do not be extravagant. Surely, He does not like the extravagant.
Say, :Who has prohibited the adornment Allah has brought forth for His servants, and the wholesome things of sustenance? Say, :They are for the believers during this worldly life (though shared by others), while they are purely for them on the day of Resurrection. This is how We elaborate the verses for people who understand.
TAFSEER
٣١۔١ آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا ہے کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔
٣١۔٢ اِسْرَافُ، (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کے کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے، ایک حدیث میں نبی نے فرمایا ' جو چاہو کھاؤ اور جو چاہے پیو جو چاہے پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبر سے (صحیح مسلم، صحیح بخاری)، بعض سلف کا قول ہے، کہ اللہ تعالٰی نے (وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ) 7۔ الاعراف:31) اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرما دی ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لیے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا ہرحال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عیدین کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا ایک حصہ ہے۔ (ابن کثیر)
٣٢۔١ مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کر لی تھیں نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کر دینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور فائدہ اٹھا لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دینوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالٰی کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات ومشروبات بھی حرام ہوں گے۔
HADEES MUBARAK
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1835 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 5متفق علیہ
عبداللہ بن یوسف، مالک، ابی حازم، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے۔
Volume 1, Book 3, Number 110:
Narrated Abu Huraira:
The Prophet said, "Name yourselves with my name (use my name) but do not name
yourselves with my Kunya name (i.e. Abu-l Qasim). And whoever sees me in a dream then
surely he has seen me for Satan cannot impersonate me. And whoever tells a lie against me
(intentionally), then (surely) let him occupy his seat in Hell-fire."
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں
Reply

iqbalkuwait
05-03-2010, 04:51 PM
For Reading please click Daily to -----------------VIEW
Attachment 4064
اورصبع شام آپنے رب کےنام کا ذکر کيا کريں = قرآن 76/25
Reply

iqbalkuwait
05-29-2010, 02:55 PM
اور ہم نے اُن کے لئے ساتھ رہنے والے (شیاطین) مقرر کر دیئے، سو انہوں نے اُن کے لئے وہ (تمام برے اعمال) خوش نما کر دکھائے جو اُن کے آگے تھے اور اُن کے پیچھے تھے اور اُن پر (وہی) فرمانِ عذاب ثابت ہوگیا جو اُن امتوں کے بارے میں صادر ہوچکا تھا جو جنّات اور انسانوں میں سے اُن سے پہلے گزر چکی تھیں۔ بے شک وہ نقصان اٹھانے والے تھے،
اور کافر لوگ کہتے ہیں: تم اِس قرآن کو مت سنا کرو اور اِس (کی قرات کے اوقات) میں شور و غل مچایا کرو تاکہ تم (اِن کے قرآن پڑھنے پر) غالب رہو،
پس ہم کافروں کو سخت عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے اور ہم انہیں اُن برے اعمال کا بدلہ ضرور دیں گے جو وہ کرتے رہے تھے،
Quran 41/25,26,27
Reply

iqbalkuwait
07-13-2010, 07:08 PM
Please click to----------VIEW

Attachment 4123
سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم
اورصبع شام آپنے رب کےنام کا ذکر کيا کريں = قرآن 76/25
Reply

iqbalkuwait
07-14-2010, 03:55 PM
For learn please click to-----------VIEW

Attachment 4124
Attachment 4125
اورصبع شام آپنے رب کےنام کا ذکر کيا کريں = قرآن 76/25
Reply

iqbalkuwait
07-24-2010, 05:46 PM
Please click to ---------VIEW
Attachment 4132
Reply

sussana
07-29-2010, 07:08 AM
“Those to whom We have given the Book (the Qur’an) study it as it should be studied: they are the ones that believe therein: those who reject faith therein the loss is their own.” (Qur’an, 2:121)
Reply

iqbalkuwait
09-09-2010, 09:20 PM
For daily reading please click to -------VIEW

Attachment 4148
Reply

iqbalkuwait
11-03-2010, 07:28 PM
Please click to ---------VIEW

Reply

iqbalkuwait
01-02-2011, 06:55 PM

Reply

iqbalkuwait
02-14-2011, 04:01 PM
On that day those who reject Faith and disobey the messenger will wish that the earth Were made one with them: But never will they hide a single fact from Allah!
Allahumma Salli Ala Sayyidina Muhammad Wala 'ala Sayyidina Muhammad
Reply

iqbalkuwait
04-27-2011, 02:32 AM

Reply

iqbalkuwait
04-27-2011, 02:57 AM


Reply

iqbalkuwait
05-01-2011, 04:51 PM



Reply

iqbalkuwait
05-10-2011, 02:45 PM




Reply

iqbalkuwait
05-14-2011, 03:25 PM





Reply

ayesha.ansari
06-02-2011, 05:40 AM
Yes remembering ALLAH throughout a day makes youur day easy and perfect . When you leave ALLAH for your busy schedule then ALLAH leaves you too in trouble and when you take time out of your busy schedule to remember ALLAH then ALLAH makes your life more easy. :nervous:
Reply

abdallah220
06-12-2011, 07:45 AM
god reward all the best
Reply

ayesha.ansari
06-15-2011, 05:39 AM
JAZAKALLAH khair for sharing so beautiful ayah and their meaning with us.
Reply

iqbalkuwait
06-18-2011, 07:16 PM
Please Click for ******* VIEW

Reply

ayesha.ansari
06-20-2011, 05:23 AM
Indeed this is true, ALLAH show his rage and anger to whole world but the closer one to ALLAH know what is this, and what we all have to do,asking for mercy from the Lord.
Reply

ayesha.ansari
07-06-2011, 10:13 AM
JAZAKALLAH khair. great great thing to be shared with all of us. but no one here seem to be happy no reply for such a great point.
Reply

ayesha.ansari
08-02-2011, 04:15 AM
Exactly you are right. :statisfie
ALLAH is the one who decide what is best for that person or what is not. all we need to do is to be agreed on what GOD is agree on.
Reply

ayesha.ansari
08-30-2011, 04:07 AM
JAZAKALLAH . Well the most obligatory duty performed by any person is the leader of a troop or country or any thing who is responsible for every thing. then why not Muslims leader are performing well. are they forgotten the punishment which ALLAH gave him. It's such a big responsibility and they are not doing it with honest. how can they face ALLAH.
Reply

iqbalkuwait
09-10-2011, 06:59 PM




Reply

ayesha.ansari
09-12-2011, 04:53 AM
Indeed ALLAH is the one who can forgive before our last breath until we say sorry and feel ashamed of what we do in our life. May ALLAH show mercy and forgive us all.
Reply

iqbalkuwait
09-22-2011, 07:32 PM





Reply

ayesha.ansari
09-26-2011, 05:06 AM
JAZAKALLAH beautiful sharing really creating love of ALLAH and prophet in heart. loving people for the sake of ALLAH and also going back to bad life is same as thinking of hell fire bad, these all will really make you happier and peaceful.
Reply

iqbalkuwait
09-28-2011, 06:26 PM
If u r interested to read daily one Aya & one Hadees click to>>> link






Reply

iqbalkuwait
10-04-2011, 03:20 PM





Reply

iqbalkuwait
10-11-2011, 07:59 PM





Reply

ayesha.ansari
10-12-2011, 04:46 AM
SUBHANALLAH. great sharing.. i understand the meaning of first ayah.. but find some difficulty in second one. kindly brief me what is bahira or sahiba or wasila.... JAZAKALLAH
Reply

Endymion
10-12-2011, 05:18 AM
Assalam Alekum Dear Sister Ayesha :statisfie

Brother Iqbal dont like to answer questions,and may be thats why Degue fever still exists :hmm: Let me answer that for you :statisfie

The first Ayah.

(5:101) Believers! Do not ask of the things which, if made manifest to you, would vex you; for, if you should ask about them while the Qur'an is being revealed, they will be made manifest to you. Allah has pardoned whatever happened in the past. He is All-Forgiving, All-Forbearing.

Explanation.
People used to ask the Prophet (peace be on him) many questions which were of no practical relevance to either religious or day-to-day affairs. Once, for instance, a person asked the Prophet (peace be on him) in the presence of a crowd: 'Who is my real father?' Likewise, many people used to ask unnecessary questions about legal matters. By these uncalled for inquiries they sought knowledge of matters which had for good reasons, been deliberately left undetermined by the Law-giver. In the Qur'an, for example. Pilgrimage had been declared obligatory. A person who became aware of this came to the Prophet (peace be on him) and inquired: 'Has it been made obligatory to perform it every year?' To this the Prophet (peace be on him) made no reply. When he inquired for the second time the Prophet (peace be on him) again stayed silent. On being asked for the third time, he said: 'Pity on you! Had I uttered "Yes" in reply to your question, it would have become obligatory to perform it every year. And then you would not have been able to observe it and would have been guilty of disobedience.' (See Bukhari, 'Riqaq', 22; 'Zakah', 53; I'tisam', 3; 'Adab', 6; Muslim, 'Aqdiyah', 10, 11, 13, 14; Darimi, 'Riqaq', 38; Muwatta', 'Kalam', 20; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, pp. 327, 360, 367; vol. 4, pp. 246, 249, 250, 251, 255 - Ed.)

The Prophet (peace be on him) discouraged people from being over-inquisitive and unnecessarily curious about every question. We find in the Hadith the following saying from the Prophet (peace be on him): 'The worst criminal among the Muslims is the one who inquired about something which had not been made unlawful, and then it was declared so, because of his inquiry.' (Bukhari, I'tisam', 3; Muslim, Fada'il', 132, 133; Abu Da'ud, 'Sunnah', 6 - Ed.) According to another tradition the Prophet (peace be on him) said: 'God has imposed upon you certain obligations, do not neglect them; He has imposed certain prohibitions, do not violate them; He has imposed certain limits, do not even approach them; and He has remained silent about certain matters - and has not done so out of forgetfulness - do not pursue them.' (See Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 2, n. 110 - Ed.)

In both these traditions an important fact has been called to our attention. In matters where the Law-giver has chosen to lay down certain injunctions only broadly, without any elaborate details, or quantitative specifications, He has done so not because of neglect or forgetfulness. Such seeming omissions are deliberate, and the reason thereof is that He does not desire to place limitations upon people, but prefers to allow them latitude and ease in following His commandments. Now there are some people who make unnecessary inquiries, cause elaborately prescribed, inflexibly determined and restrictive regulations to be added to the Law. Some others, in cases where such details are in no way deducible from the text, resort to analogical reasoning, thereby turning a broad general rule into an elaborate law full of restrictive details, and an unspecified into a specified rule. Both sorts of people put Muslims in great danger. For, in the area of belief, the more detailed the doctrines to which people are required to subscribe, the more problematic it becomes to do so. Likewise, in legal matters, the greater the restriction, the greater the likelihood of violation.

The second Ayah.

(5:103) Allah has neither appointed (cattle devoted to idols such as) Bahirah, Sa'ibah, Wasilah nor Ham;but those who disbelieve forge lies against Allah and of them most have no understanding (and therefore succumb to such superstitions).

Explanation.

Some people first indulged in hair-splitting arguments about their laws and dogma, and thereby wove a great web of credal elaborations and legal minutiae. Then they became enmeshed in this same web and thus became guilty of dogmatic errors and the violation of their own religious laws. The people referred to here are the Jews, and the Muslims who followed in their footsteps and left no stone unturned, despite the warnings contained in the Qur'an and in the sayings of the Prophet Muhammad (peace be on him).

118. Just as, in the Indian subcontinent, cows, oxen and goats are set free after being consecrated either to God or to some idol or shrine or to some saintly person, and just as people consider it prohibited either to put them to work, to slaughter them or to derive any other kind of benefit from them, so the Arabs of the Jahiliyah period also let loose certain animals after consecrating them. Such animals were variously named.

Bahirah was the name of a female camel which had already borne five young, the last of which was a male. The practice was to slit the ear of such a camel and then let her loose. Thereafter no one could ride her, use her milk, slaughter her or shear her hair. She was entitled to graze and drink water wherever she liked.

Sa'ibah was the name of either a male or female camel which had been let loose after consecration as a mark of gratitude in fulfilment of a vow taken for either the recovery from some ailment or delivery from some danger. In the same way the female camel which had borne ten times, and each time a female, was also let loose.

Wasilah. If the first kid born to a goat was a male, it was slaughtered in the name of the deities; but if it was a female, it was kept by the owners for themselves. If twins were born and one of them was a male and the other a female goat, the male was not slaughtered but rather let loose in the name of the deities. This male goat was called wasilah.

Ham. If the young of camels in the second degree of descent had become worthy of riding they were let loose. Likewise, if ten offspring had been borne by a female camel she was also let loose, and called ham.




And Jazakallahu Khyran for sharing those ayahs.Reading the Explanation helped much.My Mother asked me about the explanation of second ayah and i told her i'll look into it and tell ya.Alhamdulillah i can answer her now.Thanks for the reminder :statisfie
Reply

iqbalkuwait
10-12-2011, 03:11 PM





Reply

iqbalkuwait
10-13-2011, 07:06 PM







Reply

ayesha.ansari
10-17-2011, 06:18 AM
SUBHANALLAH... Best best ever sharing here. I love to do Sajda... Why? Because it helps me like i am free. no one can see me. i am just in hand of ALLAH and no one can reject me. Feeling of trust and faith in your heart and head.
Reply

iqbalkuwait
10-18-2011, 06:14 PM







Reply

ayesha.ansari
10-19-2011, 04:57 AM
JAZAKALLAH today i have learn many new things i have certain mistakes while praying but i will try that i would never repeat those again. and ALLAH is the best forgiver and He will surely forgive us what we have done unintentionally. May be our parents should have to repeat that or read them with us so that every one should get a chance to correct them again.
Reply

iqbalkuwait
10-19-2011, 04:29 PM

Reply

iqbalkuwait
10-19-2011, 04:34 PM







Reply

ayesha.ansari
10-20-2011, 04:37 AM
JAZAKALLAH khair for replying back me and i have learn and understand this now.
Reply

iqbalkuwait
10-27-2011, 03:36 PM




Allah's Apostle saying." By Allah! I ask for forgiveness from Allah and turn to Him in repentance more than seventy times a day."
Reply

Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, you can participate in the discussions and share your thoughts. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and make new friends.
Sign Up
British Wholesales - Certified Wholesale Linen & Towels | Holiday in the Maldives

IslamicBoard

Experience a richer experience on our mobile app!