/* */

PDA

View Full Version : اسلام ميں لاالہ الہ اللہ کی اھميت



Slave of Rehman
03-06-2007, 10:52 AM
اسلام عليکم ميرے پيارے مسلمان بہنوں اور بھائيو!
اس وقت صبح کے تقريبن پونے دو بج چکے ہيں اور ميں نے يہ قلم اٹھايا ہے صرف اور صرف اس بات پہ زور دينے کے ليے کہ ہماری زندگی ميں لاالہ الااللہ کی اہميت کيا ہے؟
يہ کلمہ اتنا آسان نہيں ہے کہ صرف ادا کرنے سے اس کا مقصد پورا ہو جائے بلکہ يہ ايک قرض ہے ہم مسمانوں کے اوپر کہ ہم اس کے صحيح مفہوم کو جان سکيں اور اس پر عمل کر سکيں۔
عمل کيسے کيا جاسکتا ہے؟
عمل کرنے کا صرف اور صرف ايک واحد طريقہ ہے اور وہ ہے اپنی روز مرہ کی زندگی کو اس کلمہ ميں ڈھالنے کا۔ اس کلمہ کو اپنا اوڑنا بچھونا بنانے سے اس کا قرض اترسکتا ہے جو ہم مسلمانوں کے کندھوں پر ہے ، جب سے ہم اس دنيا ميں آئے ہيں يہ قرض ہمارے ساتھ ساتھ ہے کيونکہ قيامت کے دن سب سے پہلے اسی قرض کے بارے ميں پوچھ گوچھہ ہوگی کہ کيا تم نے ميرا کلمہ پڑھا؟ اگر پڑھا تو کيا اس کا حق ادا کيا؟

اسی فرض کی ادائگی کے ليے ہم سب پيدا کيے گئے ہيں۔

اللہ عز و جل نے قرآن کی سورہ 06، آيات 102 ميں حکم ديا ہے کہ:

ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
يہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہيں، ہر چيز کا پيدا کرنے والا ہے تو اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چيز کا نگران ہے۔

اس کلمہ کا حق ادا کرنا اتنا آسان نہيں ہے جتنا ہم سمجھتے ہيں، يہ تو وہ کلمہ ہے جس کا قرض ادا کرنا ہم بھول گئے تھے اور ہميں ياد دہانی کرانے کے ليے اللہ عز و جل نے اپنے پيارے رسول بھيجے اور کتابيں نازل کيں کہ کس طرح ہم اس قرض کو ايک فرض سمجھ کر اس کا حق صحيح نمونے کرسکيں۔
ہم نے اس کلمہ کو بھلا کر دنيا ميں گم ہو گئے ہيں اور اس فانی دنيا کو اور اس کی ہر شئے کو دوست بنا رکھا ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 75 آيۃ 20:
كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ
مگر (لوگو) تم دنيا کو دوست رکھتے ہو۔

لا نہيں ہے، الہ کوئی اللہ۔
يہ لا الہ کہنا اور اس کو سمجھنا ايک بڑی بات ہے، يہ نفی کی علامت ہے، اور اس سے انکار ہوتا ہے ہر اس خدا کا جس کو ہم لوگ شريک بناتے ہيں اللہ عز و جل کے،
اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 16 آيۃ 51:

وَقَالَ اللّهُ لاَ تَتَّخِذُواْ إِلـهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلهٌ وَاحِدٌ فَإيَّايَ فَارْهَبُونِ
اور اللہ عز و جل نے فرمايا ہے کہ دو دو معبود نہ بنائو معبود وہی ايک ہے تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

يہ انکار ہے ہر اس معاشرے کا جس کی ابتدا غير خدا سے پڑی ہوئی ہے، يہ انکار ہےہر اس ريتوں اور اور رواجوں کا جو غير خدا کے نام سے شروع ہوتيں ہيں، يہ انکار ہےہر اس قانون کا جس کی بنياد ہی اللہ پاک کے دشمنوں نے رکھی ہے، يہ انکار ہےہر اس غلط عقيدہ کا جو غير اللہ کے ليے ہمارے دلوں ميں گھر کر چکا ہے، يہ انکار ہےہر اس دعا کا جو غير خدا سے مانگی جاتی ہے،

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 40، آیۃ 60 :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے ہی دعا کرو ميں تمہاری د‏عا قبول کروں گا۔

يہ انکار ہےہر اس چڑھاوے کا جو غير خدا کے آستانے ميں چڑھايا جاتا ہے، يہ انکار ہےہماری ان سوچوں کا جن ميںدنياپرستی آجاتی ہے، يہ انکار ہےہر اس بھروسے کا جو ايک رب العالمين سے ہٹ کے غير خدا سے منسوب ہو جاتا ہے، يہ انکار ہے ہر اس محبت کا جو اللہ کے علاوہ کسی مشرک يا بدعتی بندہ کے ساتھ کی جاتی ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 02 آيۃ 165:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ
اور بعض لوگ ايسے ہيں جو غير اللہ کو شريک بناتے اور ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہيں۔

ايسے بہت سے کام ہيں ہماری زندگی ميں جس کا انکار لا الہ کے مفہوم ميں آجاتے ہيں۔

اب ہم روشنی ڈالتے ہيں الا اللہ کے اوپر جس کا مطلب ہے صرف اور صرف ايک اللہ۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 20 آيۃ 98:
إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ
تمہارا معبود ايک اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہيں۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 37 آيۃ 04:
إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ
يقينا تمہارا معبود ايک ہی ہے۔


الا اللہ جو اس کلمہ کا اصل مقصد ہے، جس کے بغير يہ کلمہ ادھورا ہے يا يہ سمجھيں کہ لا الہ اور الا اللہ ايک لازم و ملزوم ہے، الا اللہ کے بغير ہمارا دين نامکمل ہے۔

ہمارے دين کی بنياد ہی اس لفظ ميں ہے، ہمارے دين کا اصل مفہوم ہی اس کلمہ ميں ہے، يہ کلمہ ہميں دعوت ديتا ہے ايک اللہ کی طرف جو خالق و مالک ہے اس دنيا کا اور رازق ہے ہر اس مخلوق کا جس کے اندر تھوڑی سی بھی جان ہے۔ يہ کلمہ ہميں قائل کرتا ہے اللہ کی اس طاقت کی طرف جس کی اجازت کے بغير پانی کا ايک قطرہ بھی ہماری زبان سے حلق تک پہنچ پاتا کہ صرف اسی طاقتور کے آگے ہی جھکنا ہے، يہ کلمہ ہميں مسلمان ہونے کی ياد دہانی کراتا ہے کہ ہم اس کلمہ کے مقروض ہيں اور ہميں يہ قرض جلد از جلد ادا کرنا چاہيے اس کلمہ کی طرف راغب ہو کر، يہ کلمہ ہميں حکم ديتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اس کلمہ کی طرف موڑ ديں، ہم اپنی راہيں اس کلمہ کی طرف گامزن کرديں۔
يہ کلمہ کيا ہے کہ جس کا مطلب ہے ايک اللہ عز و جل؟ يہ کلمہ ہميں سکھاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد بھی ايک ہے اور وہ ہے ايک اللہ کے حکم پہ لبيک کرنا۔ ايک اللہ ہميں اجازت ديتا ہے يا يوں کہيں کہ ہميں حکم ديتا ہے کہ ہم اپنی کمريں کس ليں اپنی زندگی ميں ايک اللہ کا قانون نافظ کرنے کے ليے، ہم اپنا معاشرہ بنائيں جس ميں صرف ايک اللہ پہ يقين و بھروسہ ہو اور جس معاشرہ کی رسم و رواج صرف ايک اللہ کے زير نگرانی ہو۔
اللہ عز و جل نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 03 آيۃ 79:
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللّهِ وَلَـكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
کسی آدمی کو شاياں نہيں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ميرے بندے ہوجاؤ۔ بلکہ اس کو يہ کہنا لائق ہے کہ تم سب اللہ کے ہو جاؤ کيوں کہ تم کتاب (اللہ) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔

ہماری دعائيں صرف ايک اللہ کے ليے ہو، ہمارے ہاتھ اٹھيں تو صرف ايک اللہ کی بارگاھ ميں، ہمارا سر بسجود ہو تو صرف ايک اللہ کے سامنے،


اللہ عز و جل نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 07 آيۃ 206
إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ
جو لوگ تمہارے پروردگار کے پاس ہيں وہ اس کی عبادت پر تکبر نہيں کرتے اور اس پاک ذات کو ياد کرتے اور اسکے آکے سجدہ کرتے رہتے ہيں۔

ہماری اگر تلوار اٹھے تو صرف ايک اللہ کے دين کے نفاظ کے ليے، اور اگر ہم کسی سے محبت کريں تو ايک اللہ کے ليے اور اگر کسی سے دشمنی رکھيں تو وہ بھی ايک اللہ کے ليے۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 58 آيۃ 22 :
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
جو لوگ اللہ پر اور روز قيامت پر ايمان رکھتے ہيں تم ان کو اللہ اور اس اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ ديکھو گے۔۔۔۔۔۔

مختصر يہ کہ ہمارے دماغ و دل ميں اور ہماری زبان پہ صرف ايک اللہ کا نام اور اس کی صفات ہو۔
اگر آپ سلف صالحين کے طريقہ کار کو ديکھيں تو ان کے ايمان کا جز صرف ايک اللہ ہی تھا۔ اگر آپ ايک اللہ کا مفھوم صحيح معنوں ميں پڑھيںجو علماء اھل سنت نے اپنی ان تھک محنتوں اور پر تکاليف کاوشوں سے زير قلم کی ہيں تو آپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ اس کلمہ کی ہمارے دين ميں کتنی اہميت ہےجسے سمجھے اور پڑھے بغير انسان مسلمان نہيں بنتا اور جس پہ صحيح نمونے عمل کيے بغير ايک مسلمان مومن نہيں بن سکتا۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 98 آيۃ 05:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
اور ان کو حکم تو يہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کريں ( ايک سو ہو کر) اور نماز پڑھيں اور زکواۃ ديں اور یہی سچا دين ہے۔

لا اللہ الا اللہ کہنے سے اور اس پر عمل کرنے سے ايک مسلمان جنت ميں جا سکتا ہے اور جس کے عمل ميں کوئی شرک یا بدعت نہ ہو، نہ کہ ہم صرف اپنے نفس کو پوجنے مين لگ جائيں اور اور ہمارا آخری وقت آجائے اور روز محشرحوض کوثر پہ خاتم انبياء رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے قريب بھی نہ آنے پائيں۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 07 آيۃ 176:
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَـكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث۔۔۔۔۔۔
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس(کے درجے) بلند کرديتے۔ مگر وہ پستی کی طرف مائل ہو گيا اور اپنی خواہش کے پيچھے چل پڑا تو اس کی مثال کتے کی سی ہو گئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور يوں ہی چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے۔

اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ: اللہ ہميں توحيد و سنت پہ عمل کرنے اور کرانے کی توفيق عطا فرمائے اور شرک و بدعت کی لعنت سے نجات فرمائے اور ايمان کے ساتھ اس دنيا سے رخصت فرمائے۔ آمين



جزاک اللہ
اللہ کا عاجز بندہ
Reply

Login/Register to hide ads. Scroll down for more posts
NoName55
03-06-2007, 11:22 AM
:sl:

شكرياو مرحبا
ا
Reply

Slave of Rehman
03-06-2007, 02:00 PM
Jazakallah Noman Bhai!
Reply

Khayal
03-07-2007, 06:58 AM
:sl:

Bohut umdaah mazmoon likha hai, ALLAH SWT samjhnai or amal ki taufeeq day, Aameen!
aik baat or font size or wo bhi urdu mein, perhnai men dushwari ho rahi hai, is liey iasay bara kia hai...

Jazaak ALLAH khayr..

:w:

.


!
اس وقت صبح کے تقريبن پونے دو بج چکے ہيں اور ميں نے يہ قلم اٹھايا ہے صرف اور صرف اس بات پہ زور دينے کے ليے کہ ہماری زندگی ميں لاالہ الااللہ کی اہميت کيا ہے؟
يہ کلمہ اتنا آسان نہيں ہے کہ صرف ادا کرنے سے اس کا مقصد پورا ہو جائے بلکہ يہ ايک قرض ہے ہم مسمانوں کے اوپر کہ ہم اس کے صحيح مفہوم کو جان سکيں اور اس پر عمل کر سکيں۔
عمل کيسے کيا جاسکتا ہے؟
عمل کرنے کا صرف اور صرف ايک واحد طريقہ ہے اور وہ ہے اپنی روز مرہ کی زندگی کو اس کلمہ ميں ڈھالنے کا۔ اس کلمہ کو اپنا اوڑنا بچھونا بنانے سے اس کا قرض اترسکتا ہے جو ہم مسلمانوں کے کندھوں پر ہے ، جب سے ہم اس دنيا ميں آئے ہيں يہ قرض ہمارے ساتھ ساتھ ہے کيونکہ قيامت کے دن سب سے پہلے اسی قرض کے بارے ميں پوچھ گوچھہ ہوگی کہ کيا تم نے ميرا کلمہ پڑھا؟ اگر پڑھا تو کيا اس کا حق ادا کيا؟

اسی فرض کی ادائگی کے ليے ہم سب پيدا کيے گئے ہيں۔

اللہ عز و جل نے قرآن کی سورہ 06، آيات 102 ميں حکم ديا ہے کہ:

ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
يہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہيں، ہر چيز کا پيدا کرنے والا ہے تو اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چيز کا نگران ہے۔

اس کلمہ کا حق ادا کرنا اتنا آسان نہيں ہے جتنا ہم سمجھتے ہيں، يہ تو وہ کلمہ ہے جس کا قرض ادا کرنا ہم بھول گئے تھے اور ہميں ياد دہانی کرانے کے ليے اللہ عز و جل نے اپنے پيارے رسول بھيجے اور کتابيں نازل کيں کہ کس طرح ہم اس قرض کو ايک فرض سمجھ کر اس کا حق صحيح نمونے کرسکيں۔
ہم نے اس کلمہ کو بھلا کر دنيا ميں گم ہو گئے ہيں اور اس فانی دنيا کو اور اس کی ہر شئے کو دوست بنا رکھا ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 75 آيۃ 20:
كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ
مگر (لوگو) تم دنيا کو دوست رکھتے ہو۔

لا نہيں ہے، الہ کوئی اللہ۔
يہ لا الہ کہنا اور اس کو سمجھنا ايک بڑی بات ہے، يہ نفی کی علامت ہے، اور اس سے انکار ہوتا ہے ہر اس خدا کا جس کو ہم لوگ شريک بناتے ہيں اللہ عز و جل کے،
اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 16 آيۃ 51:

وَقَالَ اللّهُ لاَ تَتَّخِذُواْ إِلـهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلهٌ وَاحِدٌ فَإيَّايَ فَارْهَبُونِ
اور اللہ عز و جل نے فرمايا ہے کہ دو دو معبود نہ بنائو معبود وہی ايک ہے تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

يہ انکار ہے ہر اس معاشرے کا جس کی ابتدا غير خدا سے پڑی ہوئی ہے، يہ انکار ہےہر اس ريتوں اور اور رواجوں کا جو غير خدا کے نام سے شروع ہوتيں ہيں، يہ انکار ہےہر اس قانون کا جس کی بنياد ہی اللہ پاک کے دشمنوں نے رکھی ہے، يہ انکار ہےہر اس غلط عقيدہ کا جو غير اللہ کے ليے ہمارے دلوں ميں گھر کر چکا ہے، يہ انکار ہےہر اس دعا کا جو غير خدا سے مانگی جاتی ہے،

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 40، آیۃ 60 :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے ہی دعا کرو ميں تمہاری د‏عا قبول کروں گا۔

يہ انکار ہےہر اس چڑھاوے کا جو غير خدا کے آستانے ميں چڑھايا جاتا ہے، يہ انکار ہےہماری ان سوچوں کا جن ميںدنياپرستی آجاتی ہے، يہ انکار ہےہر اس بھروسے کا جو ايک رب العالمين سے ہٹ کے غير خدا سے منسوب ہو جاتا ہے، يہ انکار ہے ہر اس محبت کا جو اللہ کے علاوہ کسی مشرک يا بدعتی بندہ کے ساتھ کی جاتی ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 02 آيۃ 165:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ
اور بعض لوگ ايسے ہيں جو غير اللہ کو شريک بناتے اور ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہيں۔

ايسے بہت سے کام ہيں ہماری زندگی ميں جس کا انکار لا الہ کے مفہوم ميں آجاتے ہيں۔

اب ہم روشنی ڈالتے ہيں الا اللہ کے اوپر جس کا مطلب ہے صرف اور صرف ايک اللہ۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 20 آيۃ 98:
إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ
تمہارا معبود ايک اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہيں۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 37 آيۃ 04:
إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ
يقينا تمہارا معبود ايک ہی ہے۔


الا اللہ جو اس کلمہ کا اصل مقصد ہے، جس کے بغير يہ کلمہ ادھورا ہے يا يہ سمجھيں کہ لا الہ اور الا اللہ ايک لازم و ملزوم ہے، الا اللہ کے بغير ہمارا دين نامکمل ہے۔

ہمارے دين کی بنياد ہی اس لفظ ميں ہے، ہمارے دين کا اصل مفہوم ہی اس کلمہ ميں ہے، يہ کلمہ ہميں دعوت ديتا ہے ايک اللہ کی طرف جو خالق و مالک ہے اس دنيا کا اور رازق ہے ہر اس مخلوق کا جس کے اندر تھوڑی سی بھی جان ہے۔ يہ کلمہ ہميں قائل کرتا ہے اللہ کی اس طاقت کی طرف جس کی اجازت کے بغير پانی کا ايک قطرہ بھی ہماری زبان سے حلق تک پہنچ پاتا کہ صرف اسی طاقتور کے آگے ہی جھکنا ہے، يہ کلمہ ہميں مسلمان ہونے کی ياد دہانی کراتا ہے کہ ہم اس کلمہ کے مقروض ہيں اور ہميں يہ قرض جلد از جلد ادا کرنا چاہيے اس کلمہ کی طرف راغب ہو کر، يہ کلمہ ہميں حکم ديتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اس کلمہ کی طرف موڑ ديں، ہم اپنی راہيں اس کلمہ کی طرف گامزن کرديں۔
يہ کلمہ کيا ہے کہ جس کا مطلب ہے ايک اللہ عز و جل؟ يہ کلمہ ہميں سکھاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد بھی ايک ہے اور وہ ہے ايک اللہ کے حکم پہ لبيک کرنا۔ ايک اللہ ہميں اجازت ديتا ہے يا يوں کہيں کہ ہميں حکم ديتا ہے کہ ہم اپنی کمريں کس ليں اپنی زندگی ميں ايک اللہ کا قانون نافظ کرنے کے ليے، ہم اپنا معاشرہ بنائيں جس ميں صرف ايک اللہ پہ يقين و بھروسہ ہو اور جس معاشرہ کی رسم و رواج صرف ايک اللہ کے زير نگرانی ہو۔
اللہ عز و جل نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 03 آيۃ 79:
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللّهِ وَلَـكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
کسی آدمی کو شاياں نہيں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ميرے بندے ہوجاؤ۔ بلکہ اس کو يہ کہنا لائق ہے کہ تم سب اللہ کے ہو جاؤ کيوں کہ تم کتاب (اللہ) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔

ہماری دعائيں صرف ايک اللہ کے ليے ہو، ہمارے ہاتھ اٹھيں تو صرف ايک اللہ کی بارگاھ ميں، ہمارا سر بسجود ہو تو صرف ايک اللہ کے سامنے،


اللہ عز و جل نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 07 آيۃ 206
إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ
جو لوگ تمہارے پروردگار کے پاس ہيں وہ اس کی عبادت پر تکبر نہيں کرتے اور اس پاک ذات کو ياد کرتے اور اسکے آکے سجدہ کرتے رہتے ہيں۔

ہماری اگر تلوار اٹھے تو صرف ايک اللہ کے دين کے نفاظ کے ليے، اور اگر ہم کسی سے محبت کريں تو ايک اللہ کے ليے اور اگر کسی سے دشمنی رکھيں تو وہ بھی ايک اللہ کے ليے۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 58 آيۃ 22 :
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
جو لوگ اللہ پر اور روز قيامت پر ايمان رکھتے ہيں تم ان کو اللہ اور اس اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ ديکھو گے۔۔۔۔۔۔

مختصر يہ کہ ہمارے دماغ و دل ميں اور ہماری زبان پہ صرف ايک اللہ کا نام اور اس کی صفات ہو۔
اگر آپ سلف صالحين کے طريقہ کار کو ديکھيں تو ان کے ايمان کا جز صرف ايک اللہ ہی تھا۔ اگر آپ ايک اللہ کا مفھوم صحيح معنوں ميں پڑھيںجو علماء اھل سنت نے اپنی ان تھک محنتوں اور پر تکاليف کاوشوں سے زير قلم کی ہيں تو آپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ اس کلمہ کی ہمارے دين ميں کتنی اہميت ہےجسے سمجھے اور پڑھے بغير انسان مسلمان نہيں بنتا اور جس پہ صحيح نمونے عمل کيے بغير ايک مسلمان مومن نہيں بن سکتا۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 98 آيۃ 05:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
اور ان کو حکم تو يہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کريں ( ايک سو ہو کر) اور نماز پڑھيں اور زکواۃ ديں اور یہی سچا دين ہے۔

لا اللہ الا اللہ کہنے سے اور اس پر عمل کرنے سے ايک مسلمان جنت ميں جا سکتا ہے اور جس کے عمل ميں کوئی شرک یا بدعت نہ ہو، نہ کہ ہم صرف اپنے نفس کو پوجنے مين لگ جائيں اور اور ہمارا آخری وقت آجائے اور روز محشرحوض کوثر پہ خاتم انبياء رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے قريب بھی نہ آنے پائيں۔

اللہ رب العزت نے قرآن ميں فرمايا: سورہ 07 آيۃ 176:
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَـكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث۔۔۔۔۔۔
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس(کے درجے) بلند کرديتے۔ مگر وہ پستی کی طرف مائل ہو گيا اور اپنی خواہش کے پيچھے چل پڑا تو اس کی مثال کتے کی سی ہو گئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور يوں ہی چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے۔

اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ: اللہ ہميں توحيد و سنت پہ عمل کرنے اور کرانے کی توفيق عطا فرمائے اور شرک و بدعت کی لعنت سے نجات فرمائے اور ايمان کے ساتھ اس دنيا سے رخصت فرمائے۔ آمين


جزاک اللہ
اللہ کا عاجز بندہ__________________

:sl:

مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ
Whosoever obeys the Messenger, indeed he has obeyed Allah.

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
Whatever the Messenger gives you, accept it; and whatever he forbids you, abstain.

:w:
Reply

Welcome, Guest!
Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, you can participate in the discussions and share your thoughts. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and make new friends.
Sign Up
Slave of Rehman
03-07-2007, 11:38 AM
:sl: Sister
Jazakallah for it.
thanx to make it bigger.
i will post my letest article soon. inshallah
:w:
Reply

Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, you can participate in the discussions and share your thoughts. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and make new friends.
Sign Up

Similar Threads

  1. Replies: 19
    Last Post: 08-06-2012, 08:18 AM
  2. Replies: 0
    Last Post: 05-14-2010, 12:31 PM
  3. Replies: 2
    Last Post: 12-26-2007, 06:01 PM
British Wholesales - Certified Wholesale Linen & Towels | Holiday in the Maldives

IslamicBoard

Experience a richer experience on our mobile app!