× Register Login What's New! Contact us
Results 1 to 8 of 8 visibility 4366

.لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

  1. #1
    jalismirza's Avatar Limited Member
    brightness_1
    Limited Member
    star_rate
    Join Date
    May 2013
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    13
    Threads
    7
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    1
    Likes Ratio
    0

    Thumbs up .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

    Report bad ads?

    ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

    جلیل القدر تابعی اور عرب سرداراحنف بن قیس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ علم اور حِلم میں بے مثال ہیں ،رواداری، بردباری اور تحمل مزاجی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے ،بدگوئی سے دور بھاگتے ہیں اور نرم گوئی سے دلوں میں گھر کرتے ہیں… یار دوستوں نے تو بارہا چاہا مگر اُنہیں کبھی غصہ نہیں آیا، سخت سے سخت بات بھی اُنہیں اشتعال کی سرحدوں کی طرف دھکیلنے میں ہمیشہ ناکام رہی اور وہ اُکسانے والوں پر اکثر مسکراتے ہی رہے…اُن کی یہ تمام صفات اہلِ عرب میں کسی ضرب المثل کی طرح عام تھیں اور والدین اپنے بچوں کے درمیان احنف کا ذکر فخر سے کیا کرتے تھے…پھر ہوا یوں کہ ایک دن اُن کے کچھ ”دوست“ ایک جگہ جمع ہوئے اور اُن میں اِس بات پر شرط لگ گئی کہ کسی طرح احنف کو غصہ دلایا جائے اور اُنہیں اِس حد تک مشتعل کر دیا جائے کہ لوگ اُن سے دور بھاگنے لگیں لہٰذا اُن سب نے مل کر ایک نوجوان کو تیار کیا اور اُسے احنف کے گھر بھیج دیا…وہ نوجوان ڈھٹائی کے خمیر سے مرصع ایک ایسا وجود تھا کہ جس پر ایک نظر پڑتے ہی انسان اُلجھ کر رہ جائے چنانچہ وہ لبوں پر ایک مکروہ مگر معنی خیز مسکراہٹ سجائے احنف کے سامنے جابیٹھا…احنف نے نوجوان کو بغور دیکھنے کے بعد اُس سے سوال کیا کہ ”کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے“…نوجوان نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ”کام تو بہت خاص ہے ،اگرآپ کو گراں نہ گزرے تو عرض کروں“…احنف نے جواباً خوش دلی سے کہا کہ ”ضرور فرمائیے“ …اب اُس کے ہونٹوں پر کسی طوائف کی طرح رقص کرتی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور اُس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا کہ ”بات دراصل یہ ہے کہ میں تمہاری ماں سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہی پیغام لے کر میں تمہارے پاس آیا ہوں“…اُسے یقین تھا کہ یہ بے ہودہ بات سننے کے بعد احنف غصے سے آگ بگولہ ہو جائیں گے اور اُسے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیں گے مگر ہوا اِس کے برعکس!…احنف نے نہایت پُرسکون لہجے میں اُس سے کہا کہ ”بھائی! ہمیں تو آپ کے ساتھ سسرالی رشتہ جوڑنے میں کوئی عار نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کا حسب و نسب انتہائی محترم و معزز ہو گا جب ہی تو آپ نے یہ زحمت فرمائی،مگر کیاکروں کہ میری والدہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکی ہیں،70برس کی ایک خاتون کسی نوجوان سے بیاہتے ہوئے اچھی نہیں لگیں گی اور نوجوان بھی ایسا کہ جسے ایک سے بڑھ کر ایک اچھی اور کم عمر لڑکیاں بھی مل جائیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ آپ کسی ایسی خاتون سے عقد فرمائیے جو نہ صرف آپ کی ہم عمر ہوں بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والی بھی ہوں اور ساتھ ساتھ اِس قابل بھی ہوں کہ آپ کے بچوں کی ماں بن سکیں،میری والدہ کا کیا ہے؟ وہ شاید کچھ دن اور جی لیں لیکن آپ کو بچوں کا سکھ نہیں دے سکیں گی“…اور پھر کچھ لمحوں کے توقف کے بعد احنف نے یہ آخری جملہ کہا کہ ”جن لوگوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے اُنہیں جاکر یہ بھی بتا دیجئے گا کہ آپ مجھے غصہ دلانے میں ناکام رہے“۔
    میں یقینا اِس بات سے بے خبر ہوں کہ احنف کے دور میں ایسے پُر فتن افراد کتنی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن اپنے وطن میں کم از کم ایک ایسے شخص سے بلاشبہ واقف ہوں جسے دیکھتے ہی انسان مٹھیاں بھینچ لے،احترام کرنے کو جی نہ چاہے،ہونٹ خود بخود سکڑ جائیں،پیشانی شکن گفتہ بن کر احتجاج کرے، رُواں رُواں استقبالِ جلال کے لئے کھڑا ہوجائے اور نگاہیں آنکھوں کو یہ کہہ کر کوسیں کہ اگر تم چند لمحوں کے لئے بے نیاز ہوجاتیں تو ہم اُس پر پڑنے سے تو بچ جاتیں…ایسی مخلوق کو تو دیکھنے کے لئے ہی بڑا دل گردہ چاہئے چہ جائیکہ کوئی اُن سے تنہائی میں ملاقات کرے، اُنہیں بہت دیر تک اپنے سامنے دیکھے اور محسوس کرے،صحرا کی ریت کی طرح چبھنے والی اُن کی مسکراہٹ کا جواب اپنے تبسم سے دے، رُتبے کا احساس کرتے ہوئے اُن کی بے تکی باتوں پر سر ہلائے،بار بار گھڑی کی جانب یہ سوچ کر نظر دوڑائے کہ رخصت کی گھڑی کب آئے گی؟جب کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ وہ جس انسان کے سامنے بیٹھا ہے اُس سے ملک کے کروڑوں انسان نجات کی دعائیں مانگتے ہیں، ہزاروں بے گناہوں کا قتل اُس کی گردن پر ہے ، لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکا عرشِ الٰہی کا مسلسل طواف کر رہی ہے، غریب اِسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں،ستم رسیدہ ، مزاراتِ اولیاء پر اِس سے آزادی کی منتیں مانگتے ہیں، کہنے والے اِس کے لئے بھلا نہیں کہتے اور لکھنے والے اِس پر اچھا نہیں لکھتے،یہ قو م کے لئے بیک وقت غم او ر صدمے کا باعث ہے ، کبھی اِسے دیکھ کر غصہ آتا ہے اور کبھی اپنے ہی اعمال پر رونا…لیکن کیا کیجئے کہ اِن سب حقیقتوں کے باوجود وہ ایک حقیقت ہے ، ایک ایسا سچ کہ جس پر سوائے شرمندگی کے کوئی اور تبصرہ ممکن ہی نہیں ہے …خیر! یہ ساری تلخیاں اپنی جگہ مگر شیرینی تو یہ ہے کہ احنف بن قیس کی طرح اُس سے ملنے والے ”ملاقاتی“ کو بھی غصہ نہ آیا حالانکہ اُس نے بانچھوں سے کِھلا اپنا چہرہ کئی بار ”ملاقاتی“ کے سامنے اِس سبب سے کیا کہ وہ اُس کی مسکراہٹ کو تمسخر سمجھے اور اُس کی اُٹھی ہوئی بھنووں کو طنز، وہ چاہتا تھا کہ ”ملاقاتی“ یا تو شیر کی طرح بپھر جائے یاپھر اُس کے سامنے بکھر جائے، وہ اُس کے چہرے سے اطمینان چھین لینا چاہتا تھا ،اُس کی خواہش تھی کہ ”ملاقاتی“ کے ردعمل کی کھڑکی پر لگا قفل اُس کے جملوں کے تیروں سے ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں گرے اور پھر انتقام کی دھوپ اُسی کھڑکی سے نمودار ہوجائے…مگر یہ ہونہ سکا…احنف بن قیس کے قدموں کے نشان پر جم کے قدم رکھنے والا بڑے دنوں سے جما ہوا تھا،اُسے بھی غصہ نہیں آیا، اُس نے اپنے ماضی سے صرف سیکھا نہیں ہے بلکہ آنے والے مستقبل کو ایک اچھے اُستاد کی طرح سکھا بھی رہا ہے ، پہلے وہ خامیوں پر حامیوں کی مدد سے قابو پاتا تھا اور اب ہر کمی کو اپنے دل کی نمی سے پیار کے ساتھ مٹا دیتا ہے …ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے،سختیوں نے جس فطرت کو تھپکیاں دے کر سلایا ہے کہیں وہ پھر سے جاگ نہ جائے…میں کیا کروں لیکن مجھے ڈر تو لگتا ہے ، سنگھاسن پر بیٹھنے سے قبل اور براجمان ہونے کے بعد تاریخ کے اوراق تو یہی کہتے ہیں کہ روپ عموماً مختلف ہوتے ہیں…اللہ کرے کہ اِس وقت جو روپ ہے وہ اقتدار کی دھوپ میں موم کی طرح پگھل نہ جائے کیونکہ یہ موم جس سانچے پر چڑھا ہے وہ بہرحال اصل ہے اور میں اُسی اصل کے ظاہر ہونے سے خوف کھاتا ہوں، فی الوقت تو چال میں توازن اور انداز میں ٹھہراؤ ہے، فیصلے بزرگ اور اُن پر عمل جوان ہے اور اِسی بنا پر میں اپنے اردگرد اُمید کے درجنوں دیے جلائے بیٹھا ہوں، مخالفت کی آندھی تو شاید اُنہیں بجھا نہ سکے لیکن اگر منافقت نے جینے کے لئے ایک بھی سانس اندر کھینچ لی تو میرے سارے دیے سرد ہوجائیں گے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے میرے یقین کو بری طرح جکڑ رکھا ہے …!
    اچھی خبریں سنانے والے کہتے ہیں کہ ”ملاقاتی“ جس سے ملا تھا شاید اب وہ بہت جلد چلا جائے گا مگر میں تو صرف یہی سوچتا ہوں کہ اُس کے رہتے ہوئے جو اتنا کچھ بگڑا ہے وہ کیا سب دوبارہ بن پائے گا؟ ہر آج کو یقینا بیتا کل بننا ہے لیکن آنے والے کل کے لئے گزرے کل کو بھی تو یاد رکھنا ہے !وہ شخص شجر کو پھلوں سے ہی نہیں بلکہ پتوں سے بھی محروم کرچکا ہے،شاخیں سہمی سہمی سی ہیں اور دائمی خزاں کے وہم نے اُن کی نشو ونما کی عادت کو بدشگونی کے پنجرے میں مقید کردیا ہے…ایسے میں جڑوں کو پانی دینے والے پر بھی اب اُسے اعتماد نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ نئی کونپلیں پھر کسی لٹیرے کے لئے پھوٹیں، پھر کوئی پھلوں کو توڑ کر نہیں بلکہ بھنبھوڑ کر کھائے، مفاہمت کے کلہاڑے نے اُس کی ٹہنیوں کو رُسوا کر دیا ہے اور اب وہ خوفزدہ ہے کہ ”مصلحت کے خنجر“ سے کہیں اُس کے تنے کو اُنہی ناموں سے دوبارہ نہ گودا جائے جنہوں نے اِس کی چھاؤں تک کو بیچ ڈالاتھا…تبدیلی تو نہیں آسکی لیکن مالی یقینا تبدیل ہونے جارہا ہے …یاد رکھئے کہ لوگ نہیں بدلتے چاہے کوئی اُنہیں بہترین راستہ ہی کیوں نہ دکھادے، وہ توصرف اُسی وقت تبدیل ہوتے ہیں جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کوئی راستہ باقی ہی نہیں بچا…!!!!
    chat Quote

  2. Report bad ads?
  3. #2
    jalismirza's Avatar Limited Member
    brightness_1
    Limited Member
    star_rate
    Join Date
    May 2013
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    13
    Threads
    7
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    1
    Likes Ratio
    0

    Lightbulb چلو کچھ تو یکساں ہوا۔لوڈشیڈنگ ہی سہی

    Dr Aamir Liaquat Hussain Article Loud Speaker in Jang News "Chalo kuch to yaksa howa.load shedding hi sahi"


    چلو کچھ تو یکساں ہوا۔لوڈشیڈنگ ہی سہی!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
    ہم لوگوں کو یکساں انصاف فراہم نہیں کر سکے، یکساں نظام تعلیم کے لئے کوئی کام نہیں کیا، یکساں حقوق کے لئے صرف آواز ہی اُٹھاتے رہے ، یکساں معیارِ زندگی صرف ایک خواب بن کر ہی رہا اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کتابوں کے اوراق میں چَھپ کر چُھپا رہا مگر بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم نے کم از کم ”لوڈشیڈنگ“ کے سہارے کچھ تو ”یکساں“ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے …سپریم کورٹ کے حکم پر خیبر سے کراچی تک اب ”یکساں لوڈشیڈنگ “ ہوا کرے گی، کیا ہوا جو اسمبلیوں میں نشستیں یکساں نہیں، کوئی بات نہیں کہ جو وسائل کی تقسیم میں توازن کو کبھی برقرار نہیں رکھاگیا اور حیرت کی بات نہیں اگر توانائی سب جگہ یکساں نہیں پہنچی…یہ انصاف کیا کم ہے کہ اب برابری کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ ہوا کرے گی…ویسے بھی کراچی جیسے شہر میں جہاں ٹارگٹ کلنگ نے پہلے ہی خوشیوں کو اندھیروں میں دھکیلے رکھا ہو،جہاں انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم کبھی جاتا ہی نہ ہو وہاں کچھ گھنٹوں کے لئے بجلی کا آنا خود بجلی کے لئے باعثِ شرم اور ارتکابِ توہین ہے…ایسے میں ”یکساں لوڈشیڈنگ“ کے نسخے سے بہتر اِس مرض کی کوئی تشخیص ہو ہی نہیں سکتی تھی اور اِس کا بروقت اطلاق کر کے ہیسکو،لیسکو،واپڈا اور کے ای ایس سی جیسے ڈراؤنے نام والے اداروں نے عوام کے دل جیت لئے ہیں…میں حیران ہوں کہ دلدل میں دھنسی قوم کے محفوظ رہنماؤں نے اِس عظیم تاریخی فیصلے پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ سب چپ کیوں سادھے بیٹھے ہیں؟ یہ تو تاریخ کاایک شاندار موڑ ہے ، بالکل اُس سورج گرہن کی طرح جو ستر سال میں ایک مرتبہ انسانی مشاہدوں کو جِلا بخشتا ہے…کراچی والو! اب ناراض نہ ہوجانا …اور اے ملک کے دوسرے صوبوں میں بسنے والو! تم بھی اِسے امتیازی سلوک سے تعبیر مت کرنا، یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی تمہیں کچھ بھی برابری کے تحت نہیں ملا لیکن اب یہ جو لوڈشیڈنگ مل رہی ہے ،اِسے قبول کرلینااورانکار نہ کرنا…دیکھو اگر تم نے ضد پکڑ لی اور مساوات کی اِس پھوار سے سیراب نہ ہوئے تو ہمیشہ کے لئے پیاسے رہ جاؤ گے، تم کتنے خوش نصیب ہو کہ تم سب سے ایک ساتھ بجلی لے لی جائے گی، وہ منظر کتنا دلفریب ہوگا جب کوئی صوبہ دوسرے صوبے کو کچھ دیر کے لئے روشن دیکھ کر یہ شکوہ نہیں کر سکے گا کہ وہ بجلی سے کیوں محروم ہے ؟کوئی فرق نہیں پڑتا اگر اُس کی آبادی بھرپور ہو،اِس پر بھی غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ بجلی کی طلب کہاں زیادہ اور کہاں کم ہے؟ بس اِتنا یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدل کو راستہ یہیں سے ملا ہے اور اُس نے اپنے سفر کا آغاز کردیا ہے…کاش کہ فیصلہ یہ سنایا جاتا کہ آج سے پورے ملک کو یکساں بجلی فراہم کی جائے،کاش کہ سوال یہ کیا جاتا کہ بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے یہ تو بتائیں کہ پاکستانیوں کا آخر قصور کیا ہے اور وہ کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں کہ اِس شدید گرمی میں بجلی سے محروم ہیں ، کاش کہ ذمہ داروں کا تعین کر کے اُن سے بازپُرس کی جاتی، سزائیں سنائی جاتیں…مگر ایسا کچھ نہیں ہوااور اُمید رکھئے کہ آئندہ ہوگا بھی نہیں،چند ماہ تک یہ شور یونہی کان کے پردے پھاڑتا رہے گا،میڈیا خبروں کی شہ سرخیوں کے ساتھ پنکھا جھلتے عوام کے چہرے دکھا کرحقائق کو کمرشل بریک کے ساتھ بیچتا رہے گا،ہم جیسے کالم نگاروں کو مفت میں ایسے موضوعات ملتے رہیں گے تاکہ ہمارا قلم چلتا رہے اور کالم کا پیٹ بھرتا رہے، جب سر میں جوئیں زیادہ ہوجائیں تو رینگنے کا احساس جاتارہتا ہے اور شاید اِسی لئے اب کسی کے سر پر جوں نہیں رینگتی بلکہ بے حسی کی دوسری جوؤں کے ساتھ بالوں کے کسی سایہ دار جھنڈ میں بیٹھ کر خوش گپیاں کرتی رہتی ہے…کسی کا درد دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجانا جیسی امثال بھی اب اِس لئے معنی نہیں رکھتیں کیونکہ قوم کا کلیجہ پہلے ہی سے کرتا دھرتاؤں کے منہ میں ہے اور وہ اُسے مزے لے لے کر چبا رہے ہیں، سب اپنی اپنی مستی میں مست ہیں، بے فکرے، ناشُکرے اور شکاری شِکرے…!
    رہ گئی قوم تو سچ پوچھئے یہ بھی ظالموں میں سے ہی ہے، جنریٹرز خریدنے کے عادی اور ایک دوسرے سے یوپی ایس کی تعریفیں کرنے والے کبھی اپنا حق مانگنے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے…محفلوں میں مشورے دیئے جاتے ہیں کہ پٹرول والامہنگاہے تو گیس کا لے لو، گیس کا بھی نہیں لے سکتے تو چائنا کا سب سے سستا والا لے لو اور اگر اِس کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تو اچھی بیٹری والا یوپی ایس ضرور لے لو…اور پھر اِس کے بعد یار دوستوں کو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ”ہمارا والا جنریٹر تو زبردست ہے بھائی! 4پنکھے، ایک فریج،6ٹیوب لائٹیں اور ایک ٹی وی بآسانی چلائے جاسکتے ہیں،سیکنڈ ہینڈ جاپانی ہے مگر کمال کا ہے ، تم بھی یہی لے لو، روز روز کی لوڈ شیڈنگ سے جان تو چھوٹے گی“ …جبکہ دوسرا یوں جواب دیتا ہے کہ…”یار! ہم تو اپنے یوپی ایس ہی میں خوش ہیں2پنکھے چل جاتے ہیں،6ٹیوب لائٹیں اور چھوٹا والا فریج…یار تجھے تو پتہ ہے کہ جنریٹر کی آواز بہت ہوتی ہے ، اماں کو ویسے ہی شور شرابا پسند نہیں ہے حالانکہ اپنی گلی میں شدید فائرنگ معمول کی بات ہے “…یہ کہہ کر دونوں ایک دوسرے کو تالی مارتے ہیں،ہنستے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اُن کی ہنسی دراصل ہنسی نہیں بلکہ زوال کی اعلانیہ پیدائش ہے جو ہمیشہ قہقہہ لگاتے ہوئے آنکھ کھولتی ہے ۔
    حقیقتاً ہم ظلم سہنے کے عادی ہوچکے ہیں،چاہے وہ ظلم نوٹ چھین کر کیاجائے یا ووٹ چھین کر، جب تک طاقتوروں کے ہاتھوں ہم رُسوائی کی سرحدوں کی زیارت نہ کرآئیں ہمیں چین ہی نہیں آتا…اپنی گردن پر ستم گر کا پاؤں رکھوا کر ہمیں سانسیں لینے کی عادت سی ہوگئی ہے ، کچھ اچھا ہونے کی ”ناگہانی“ سے ہمیں خوف آتا ہے، خوش خبریاں ہمارے لئے کسی روگ سے کم نہیں، اِنہیں سن کر یا تو ہم شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا بیمار…ہم چاہتے ہیں کہ ظالم ہم پر ہمیشہ اِسی طرح مُسلط رہیں،حکم چلاتے رہیں، صبر آزماتے رہیں اور ہم چُپ چاپ ”جی مالک!“ کی سرگوشیاں کرتے کرتے ایک دن ساکت ہوجائیں…مُردے کبھی احتجاج نہیں کرتے، سکوت کے گہوارے میں بے حرکت صرف دفن ہو جاتے ہیں، ہم بھی احتجاج کرنا بھول چکے ہیں اور اگر کرتے ہیں تو اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا کر اور اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر…یا پھر ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر حالات کی تلخی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبو ل کرلیتے ہیں…یہ جانے بنا کہ واقعی یہ تقدیر ہے یا19 کروڑ عوام کی تحقیر!…ہم جو اپنی ہی نظروں سے گِرے ہوئے ہیں اگر اُٹھ جاتے تو وہ چہرے بخوبی پہچان لیتے جو عالمی منڈیوں میں قوموں کا سودا طوائفوں کی طرح کرتے ہیں کہ جو گاہک اچھا ملا اُسے قوم بیچ دی… اِس منڈی میں قوم سے آزادی، خودمختاری، نظریئے اور حب الوطنی کی ہڈیاں نکال کر گوشت اور چمڑی کے سودے کئے جاتے ہیں…خیر میں بھی یہ کیا باتیں لے بیٹھا…آج تو خوشی کا دن ہے ، محمود و ایاز کو حکم کے ذریعے ایک ہی صف میں کھڑا کیا جارہا ہے لیکن صفیں بنانے والوں نے ایک بار بھی یہ دیکھنا اور سوچنا گوارا نہیں کیا کہ بہت کچھ یکساں کرنا ابھی باقی تھا…آپ یوں کرتے کہ ساری ملالائیں ایک جیسی ہوتیں، کاروسائیکل پر اور پیدل اسکول جانے والوں کے بستوں میں کتابیں ایک ہوتیں، مسلک، مذہب، رنگ،نسل اور عقیدوں کی بنیاد پرکوئی کسی کو تقسیم کرنے کے قابل نہ ہوتا، اظہارِ رائے کی آزادی سب ہی کو حاصل ہوتی،خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ختم ہو جاتا، چہروں پر تیزاب پھینکنے والوں کے چہرے تیزاب کے درد سے آشنا کئے جاتے، ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب کی ایک سوچ ہوتی،ہم سب ایک ہوتے، پنجابی، پختون، سندھی، بلوچ، سرائیکی، قبائلی، مہاجر یہ سب صرف شناختیں ہوتیں لیکن قوم پاکستانی ہوتی تب آپ کہتے کہ ”ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ کی جائے“ تو بہت اچھا لگتا…سچی! بہت اچھا لگتا…!!!
    chat Quote

  4. #3
    jalismirza's Avatar Limited Member
    brightness_1
    Limited Member
    star_rate
    Join Date
    May 2013
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    13
    Threads
    7
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    1
    Likes Ratio
    0

    Thumbs up "Had Guzarnay kay Bad Fahad ki Darkhast" Loud Speaker by Aamir Liaquat Hussain

    Aamir Liaquat Hussain [COLOR=#1B8EDE !important]Column[/COLOR] "Had Guzarnay kay Bad Fahad ki Darkhast" published in [COLOR=#1B8EDE !important]Daily[/COLOR] Jang [COLOR=#1B8EDE !important]Newspaper[/COLOR]

    حد گزرنے کے بعد فہدکی درخواست!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
    وہ آٹھویں جماعت کا ایک کم سن طالب علم ہے ،اُس کی آنکھوں نے ابھی مسرتوں کے دل خوش کن نظاروں کو اوجِ شباب پر نہیں دیکھا ہے ،وہ عمر کے زینے کی جس سیڑھی پر اِس وقت کھڑاہے وہاں سے اونچائی بہت دور ہے،ایک طویل اور تھکادینے والا سفر اُسکے انتظار میں ہے سچ تو یہ ہے کہ اُسے زندگی کے معنیٰ بھی صحیح طرح نہیں معلوم بس گھر سے اسکول جانا ،ہمجولیوں میں گھل مل کر علم حاصل کرنا،پھر کچھ خواہشیں،کچھ فرمائشیں اورمعصوم شرارتیں گھر آکر اماں، ابا سے لاڈ کرنا، بہن بھائیوں سے ناز نخرے اُٹھوانا اِس کے سوا زیست کے اور دوسرے رنگوں سے اِس کی پہچان ہی کہاں ہوئی ہے ؟ٹی وی،پی ایس پی،ویڈیو گیمز اور کبھی کبھار گھر والوں کے ساتھ کسی تفریحی مقام کی سیریا فلم دیکھنے کیلئے چلے جانا،یہی اِس کی کل کائنات ہے یہ دیگر بچوں کی طرح روٹھتا بھی ہے اور منائے جانے پر مان بھی جاتا ہے ، سب کی طرح اِس کی آرزو بھی یہی ہے کہ دن امن وچین میں گزریں اور راتیں خوش حالی میں بسر ہوں، دوسری کونپلوں کی طرح اِسے بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شام تک اُس کے ابا جان سلامت گھر آجائیں گے نا!کوئی ٹارگٹ کِلر، لٹیرا، بھتہ خور، دہشت گرد اور اغواکار اُن کا شکار تو نہیں کرے گا نا!کیونکہ اُسے بھی اپنے ابا سے بہت پیار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ابا کی ڈانٹ سے اُسے کوئی محروم نہ کرے وہ ایک ایسے حساس دل کا مالک ہے جس میں احساس کی نہ ختم ہونے والی کانیں ہیں، اِتنی سی عمر میں دوسروں کی فکر اور اُن کے دکھوں کے خیال نے اُسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے اب اُسے کھلونوں کی نہیں بلکہ کھلے ہوئے چہروں کی ضرورت ہے ،انعام کی نہیں،امان کی چاہ ہے وہ واقعی ”بچپن کی ضد “ یعنی ”بڑھاپا“ بن چکا ہے ،منتخب اراکین اسمبلی سے بہتر سوچتاہے ،وزراء سے زیادہ محبِ وطن ہے اور افواجِ پاکستان سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ رکھتاہے۔
    یہ ہے کون؟ آٹھویں جماعت کا ایک ایسا ہونہار طالبعلم جس نے اپنے تئیں تو ایوانِ اقتدار کے درودیوار ہلا دیئے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ وہاں کے مکین فطری طور پر زلزلوں کے پشتی عادی ہیں، وہ تو پوری قوم کو ہی ”آفٹر شاکس“ قرار دیتے ہوئے احتجاج و چیخ پکار پر کان دھرنا تو درکنار،نظر بھر کے دیکھنا بھی اپنی شان کے برخلاف سمجھتے ہیں ایسے میں پریس کلب کے باہر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود فہد امجد کی بھوک پیاس سے اُنہیں کیا لینا دینا؟یہ تو خود مدتوں سے ایسے بھوکے پیاسے ہیں کہ عوامی توقعات کی ہانڈی میں کل ہی بجٹ کا کفگیر ڈال کر اپنی اپنی پلیٹیں بھرلینے کے باوجود ہم سے مزید نوالوں کے متمنی ہیں فہد امجد اگلے پانچ برس تک بھی یوں ہی بیٹھا رہے اِن معروفوں اور مصروفوں کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پھر فہد امجد کا مطالبہ بھی تو اقتدار کے کلیجے کو جلا بھنا دینے کیلئے کافی ہے کیاضرورت تھی اِس غریب وطن پرست کو ملک کے ”عجیب صدر“ اور ”نویلے وزیراعظم“ سے یہ التجا کرنے کی کہ ”زرداری انکل! اور نواز شریف انکل! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو میری عمر اتنی زیادہ تو ہوگی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جگہ اُن کی سزا میں پوری کر لوں لہٰذا آپ صرف اتنا کر دیجئے کہ اوباما صاحب سے کہہ کر مجھے ڈاکٹر عافیہ کی جگہ بھجوا دیجئے اور اُنہیں بتا دیجئے کہ عافیہ صدیقی کی باقی سزا پوری کرنے کے لئے میں دل سے تیار ہوں نوازشریف انکل! اگر امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں کوئی قیدی درکار ہے تو آپ پلیز مجھے امریکہ کے حوالے کر کے ڈاکٹر عافیہ کو جلد از جلد پاکستان واپس لانے کا انتظام کیجئے“۔
    بھلا بتائیے ہے کوئی تُک؟کن لوگوں سے کیا مانگ بیٹھاہے ہمارا فہدجو قوم کو ملک میں موجود بجلی نہیں دے سکے وہ امریکہ میں مقید عافیہ کہاں سے لائیں گے ؟مگر بچہ بھی کیا کرے بے چارہ انتخابی تقاریر اور وعدوں کو سچ سمجھ بیٹھا، شاید اُسے سارے لیڈر اپنے ٹیچرز کی طرح لگتے ہوں گے اور جب ہی اُس نے سوچ لیا ہوگاکہ پاکستان ایک کلاس روم کی طرح ہے ،عوام اسٹوڈنٹس اور لیڈرز ٹیچرزجس طرح ٹیچرز وہی پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے اِسی طرح لیڈرز بھی وہی کہتے ہیں جو وہ ہمارے لئے کرنا چاہتے ہیں…اور اِسی اُمید پر وہ صدر صاحب سے چاند مانگ بیٹھا…ابھی بچہ ہے نا اِسی لئے یہ بات عقل میں نہیں سما سکی کہ اگرخدانخواستہ چاند”اُن“ کی دسترس میں ہوتا تو آسمان میں نہ ہوتا بلکہ سوئس بینک کے کسی اکاؤنٹ میں کبھی پورا ہوتااور کبھی آدھا…لیکن ہوتا محفوظ…کیونکہ اُسے کبھی گرہن نہیں لگتا…فہد ابھی چھوٹا ہے لیکن اُس نے اپنے جذبے کے اظہار سے کئی بڑوں کو لمحے بھر میں چھوٹا کردکھایاکہتے ہیں کہ اسمبلیاں”دردرکھنے والوں“ سے بھری پڑی ہیں مگر افسوس کہ غمِ عوام میں تیزی سے پھیلتے، پھلتے اور پھولتے اراکین میں سے کوئی ایک بھی فہد امجد جیسا نہیں ہے ،وزیراعظم سے لے کر اُن کی کابینہ کے بزرجمہروں تک شاید کسی کو خبر بھی نہیں ہے کہ امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر شدیدحملہ ہوا ہے ،وہ زخمی ہیں،کئی گھنٹوں تک بے ہوش رہی ہیں اور یہی تشویشناک اطلاعات سننے کے بعد فہد سے نہ رہا گیا اور اُس نے اپنے دونوں ”انکلز“ سے یہ درخواست کر ڈالی کہ عافیہ کے بدلے اُسے امریکہ بھجوا دیا جائے…اب اُسے کیا معلوم تھا کہ اُن میں سے ایک”انکل“ نے تو پانچ برسوں سے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ لوگوں کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا تو کجا اُن سے لمحہ بھر آشنائی بھی حضوروالا پر حرام ہے …”مقدر کے سکندر“ کی طرح اُن کے زیرلب بھی یہی گیت رہتا ہے کہ ”روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا…وہ مقدر کا سکندر ،جانِ من !کہلائے گا“اور اِسی کو نسخہ، وظیفہ اور علاج سمجھ کر وہ صرف مسکراتے رہتے ہیں کیونکہ اب تو ویسے بھی ”جانے کی گھڑی“ قریب آگئی ہے …رہے ”دوسرے انکل“تو وہ انتخابات کے بعد سے مسکرانا ہی بھول گئے ہیں،اللہ جانے اُنہیں کون سا غم اندر ہی اندر کھا رہا ہے …خبریں رکھنے اور سنانے والے کہتے ہیں کہ ”عوام کے دکھوں نے اُن سے اُن کی مسکراہٹ چھین لی ہے“ اگر یہ وجہ درست ہے تو پھر تو ڈار جی کو اپنے وزیراعظم کا چہرہ دیکھ کر بجٹ بنانا چاہئے تھا،مجھے لگتاہے کہ بجٹ تقریر لکھتے ہوئے شاید اُن کے سامنے صدر مملکت کی تصویر تھی یاتصورات کی پرچھائیوں میں اُنہی کا مسکراتا چہرہ…جب ہی تو ٹیکسوں کا اِتنا خوبصورت اِتوار بازار سجایا گیا ہے …لوگ خواہ مخواہ اِس فکر میں پریشان رہتے تھے کہ دوپہر اور رات کا کھاناکیسے کھائیں گے ؟اِس بجٹ نے اُنہیں داتا دربار،سیلانی دسترخوان اور دیگر مزارات کا راستہ دکھا دیا ہے جہاں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے اور عزت سے کھلایا جاتا ہے …لیجئے! میں بھی کہاں نکل گیا…سچ تو یہ ہے کہ کم سن فہد امجد کی یہ قدآور آرزو حب الوطنی کے ٹھیکے داروں کے رخسار پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے …ایک وقت تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے بس میں سب کچھ تھا، وہ چاہتے تو عافیہ صدیقی اپنی باقی ماندہ سزا پاکستان میں پوری کرسکتی تھی،وہ چاہتے توریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں ہی ہم اُسے واپس لے آتے (میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مفروضہ ہے مگر مفروضے ہی فارمولے بنتے ہیں) لیکن اُنہوں نے عصمت صدیقی کو سوائے جھوٹی تسلیوں کے اور کچھ نہیں دیا۔البتہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے فہد امجد کے بس میں جو تھا وہ اُس نے کردکھایا،وہ حاکم ہے نہ وزیر، جرنیل ہے نہ سفیر…صرف ایک عام پاکستانی بچہ ہے اور ایک عام پاکستانی بچے نے دنیا بھر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ”ہماری عافیہ ہمیں لوٹادو! تم انصاف پسندوں نے اُسے جو سزا سنائی ہے اُسے پورا کرنے کیلئے کسی کا بچہ ہونا بہت ضروری ہے۔ 86برس کی سزا38سال کی عورت کیسے بھگت سکتی ہے؟اِس کے لئے تو 8سال کاایک بچہ چاہئے جس پر شاید یہ اُمید باندھی جاسکتی ہو کہ وہ 51برس تک جی سکے گا“…!!!

    chat Quote

  5. #4
    jalismirza's Avatar Limited Member
    brightness_1
    Limited Member
    star_rate
    Join Date
    May 2013
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    13
    Threads
    7
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    1
    Likes Ratio
    0

    Thumbs up زیارت کے منکر...لاؤڈ اسپیکر

    Aamir Liaquat Hussain Column "Ziarat kay Munkir" Loud Speaker Published in Daly Jang Newspaper about condemnable incident in which Militant destroy Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah Residency
    زیارت کے منکر...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین


    میرے پیارے قائدِ اعظم! مجھے یقین ہے کہ آپ کی قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی اور آپ عالمِ برزخ کے اعلیٰ ترین مقامات میں سے کسی ایک مقام پر اپنے ہی جیسے بے شمار پیاروں کے ساتھ اُس گھڑی کے بے چینی سے منتظر ہوں گے جب حشر بپا ہونے کا صور پھونکا جائے گا…مجھے اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ ”حکمی شہادت “کے درجے پر فائز ہیں اور یقیناً اپنا رزق پارہے ہیں لیکن ہمیں اِس کا شعور نہیں…”کسمپرسی“ پر تو یوں ہی الزام لگادیاگیا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی جان کسمپرسی نے نہیں بلکہ ”اپنوں“ نے ہی لی تھی…میرے بے مثال رہبر! آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ ہی کے بنائے ہوئے پاکستان میں پیدا ہوا،پلا بڑھا اور یہیں کا کھارہا ہوں، سچ پوچھیے تو آپ کے احسانات کے بوجھ تَلے دبا ایک ایسااحسان فراموش ہوں جسے آپ کے پاکستان سے زیادہ ہروقت اپنے ہونے کا یقین ہے حالانکہ پاکستان ہے تو میں ہوں ورنہ تو میں صرف ”میں“ ہی تو ہوں…اور اللہ کی اِس وسیع و عریض کائنات میں کسی ”میں“ کی کبھی گنجائش تھی اور نہ ہوگی، ہر ”میں“ کو لازم ہے کہ وہ ”ہم“ میں فنا ہواور عجز کی لہروں کے سہارے حقیقت کے ساحل تک پہنچے لہٰذامیں یہ اقرار کرتا ہوں کہ پاکستان میں آزادی کی سانس لینے والے ہر نفس کی حیات کا ثواب اللہ کے حکم کے ذریعے آپ کی روح تک بالضرور پہنچایاجاتا ہے اور 1948سے لے کر اب تلک آپ کے درجات میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے…یہ الگ بات ہے کہ کچھ کم ظرفوں کے نزدیک پاکستان آپ کا ”قصور“ اور ایک ایسی غلطی ہے جو آپ کو نہیں کرناچاہیے تھی…دراصل یہ وہ ”غلام زادے“ ہیں جن کی زبانیں آقاؤں کے تلووں کے ذائقوں کی عادی ہوگئی تھیں اور یہ اُن کے پیروں پر لگا اپنا ہی تھوک چاٹنے میں مَست رہنا چاہتے تھے مگر آپ نے اِنہیں جھنجوڑا، بازوؤں سے پکڑ کر اُنہیں اُن ہی کے قدموں پر کھڑا کیا اور پاکستان لے آئے …تب ہی سے یہ آپ کے شدید دشمن ہیں، کبھی آپ کی جدّوجہد کا تمسخر اُڑاتے ہیں تو کبھی دو قومی نظرئیے کے چہرے پر اپنی غلاظت مَلتے ہیں، اِنہیں غلامی میں جینا اچھا لگتا تھااور عزّت کی زندگی اِن کی کبھی خواہش ہی نہیں تھی…”اَنا“ کے یہ یتیم بچے مدتوں سے اپنے باپ کی تلاش میں ناکام ہیں اِسی لیے ہر ”بابا“سے نفرت کرتے ہیں اور آپ تو”بابائے قوم “ ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سے پیار کیا جائے!
    مجھے یقین ہے کہ آپ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس قولِ مقدس سے ضرور آشنا ہوں گے کہ ”جس پر احسان کیا جائے اُس کے شَر سے بچو“…آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت فرما کر یہی نصیحت سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم نے بھی کی…پیارے قائد! آپ بھول تو نہیں گئے نا کہ آپ نے بھی تواپنے وجود کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتی اور ذلیل ہوتی قوم پر احسان فرمایا تھا، ہندو بنیوں اور سکھ سرداروں کے پیچھے چلنے والوں کو آپ نے نیا راستہ دکھلایا تھاپھر یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ ہمارے شر سے بچ جاتے…ہم نے ہر موڑ پرآپ کی کردار کشی کی،آپ کو زہریلے القابات سے پکارا، وضع قطع پر تنقید کی، انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا ، سنّی،شیعہ کے پیمانوں میں تراشا یہاں تک کہ آپ کو مارڈالا…او ر ا ب جب اِس پر بھی جی نہیں بھراتوجہاں آپ نے اپنے آخری دو ماہ گزارے تھے اُس زیارت ہی کو تباہ کرڈالا…ہمارے شر کی یہ انتہانہیں تو اور کیا ہے …شاید کسی پر احسان کرکے اُس کے شر سے بچنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اُس پر احسان کیا ہی کیوں جارہا ہے کہ جس پر اللہ نے کرم نہیں فرمایا… لیکن جب اللہ ہی کے حکم سے اُس کا کوئی بندہ کسی پر احسان کرتا ہے تو اللہ چاہتا ہے کہ اُس کا یہ نیک بندہ دیکھ لے کہ اُ س کے رب نے کبھی(معاذ اللہ) غلط نہیں کیا،پروردگار نیکیوں کی بہاریں بھی دینا چاہتا ہے اور انجام سے آگاہی بھی چنانچہ احسان کرنے کی بنا پر نیکیاں عطا فرماتا ہے اور منکرِ احسان کے ضررکے سبب گناہ معاف فرماتا ہے یعنی بیک وقت ہمیں تین انعامات ملتے ہیں…پہلا یہ ”پختہ یقین“ کہ اللہ سے بہتر اُس کے بندوں کو کوئی جان سکتا ہے اور نہ ہی اُس سے بڑھ کر کوئی اُن سے پیار کرسکتا ہے ، اگر اُسی نے اُن کی حالت زار پر رحم نہیں فرمایا ہے تو بے شک اِس میں اُسی کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے …دوسرا ”اجرو ثواب“ کہ احسان کرنا ایک محبوب ترین عمل ہے اور اللہ نہیں چاہتا کہ اُس کے بندے اِس عمل سے رک جائیں چنانچہ وہ یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے بندے کے فلاں بندے یا بندوں پر احسان کے نتائج تباہ کن ہوں گے وہ غالب حکمت کے ذریعے اُسے پایہٴ تکمیل تک پہنچاتا ہے تاکہ احسان کے اِس عمل پر اُسے اجر،رحمتوں اور نیکیوں کے سائے عطا کیے جائیں…اور تیسرا ”گناہوں میں تخفیف“ کہ چونکہ وہ سب کچھ جانتاہے ،سب اُسی کا علم ہے ،وہی عالم ہے ، وہی بصیر ہے ،وہی خبیر ہے لہٰذا احسان کے مزے لوٹنے والا جب اپنی اوقات پر اُترتا ہے اور احسان کرنے والے کو درد،ٹھیس،دکھ اور تکلیف پہنچاتا ہے تو اُسی لمحے محسن کے نامہٴ اعمال میں لکھے ہوئے گناہوں کی سیاہی دھندلا جاتی ہے یہاں تک کہ گناہ تیزی سے مٹتے چلے جاتے ہیں جبکہ احسان فراموش کے بوجھ میں مزید اضافہ کردیاجاتا ہے، اتنا اضافہ کہ وہ بروزِ حشر گھسٹتا ہوا اپنے رب کی بارگاہ میں حساب کتاب کیلئے حاضر ہوگا…دنیا میں ظاہری طور پرتو یو ں لگتا ہے کہ ناشکرے اور احسان ناشناس کامیاب ہوگئے مگر درحقیقت اُن سے زیادہ خسارے میں کوئی اور نہیں ہوتا…اور یہی ہماری حالت ہے…ہم نے آپ کوبہت رنج دیا ہے ، آپ کے دیے ہوئے تحفے کی قدر نہیں کی،ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کو فخر جانا، پاکستانی کے بجائے ہمیشہ لسانی شناخت پر سینے چوڑے کیے ،قربانیوں کو جھٹلایا،اکابرین کی توہین کی،تقسیمِ ہند کو غلطی قرار دیا،مشرقی پاکستان کو کاٹ کر پھینک دیا اور اب باقی ماندہ بچے کھچے پاکستان کو فرقہ واریت،نفرت،انتقام اور غداری کے ناخنوں سے نوچ رہے ہیں…بے شک ہم احسان فراموش ہیں، بلاشبہ ہم سوارتھی(مفاد پرست) ہیں…اپنی رہائش گاہوں،محلوں اور قلعے نما مراکز کی حفاظت کے لئے تو ہم لاکھوں روپے ماہانہ پر محافظوں کی فوجِ ظفر موج لا کھڑی کرتے ہیں لیکن آپ نے جہاں اپنے آخری ایام گزارے وہاں صرف ایک غیر تربیت یافتہ ، غیر مسلح چوکی دار اور صرف ایک پولیس اہل کار تعینات کر کے ہم نے دنیا کو یہ بتلادیاہے کہ ہماری نگاہوں میں آپ کی وقعت کیاہے …پولیس اہل کار تو اپنا فرض نبھاتے اور آخری وقت میں آپ کی زیرِاستعمال اشیا کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھالیکن اُن کی جان ابھی تک نہیں نکلی کہ جن کے کروفر میں جان بھی آپ ہی کے سبب ہے…میرے عظیم قائد! خدانخواستہ اگر یہی حملہ رائے ونڈ،منصورہ،بلاول ہاؤس،ڈیرہ اسماعیل خان،نائن زیرو یا چارسدہ میں ہوتا توپاکستان کے گلی کوچوں میں آگ لگی ہوتی،اِن مبارک رہائش گاہوں کے تقدس کی پامالی پر سینہ کوبی کرتے ہوئے لاکھوں افراد سے آپ کے بنائے ہوئے آزاد وطن کی غلام راہیں بھر جاتیں،ہڑتال،الٹی میٹم اور پیمانہٴ صبر کے لبریز ہونے کی سرخیاں اپنے دوام کے لیے لہو کی سرخی کی متقاضی ہوتیں…مگریہ آپ کی رہائش گاہ تھی…یہ زیارت ہے قائد اعظم! اور زیار ت کے منکر تو چاہتے ہی نہیں کہ زیارت کی جائے…ہم محسن کشوں نے بتلادیا ہے کہ ہم نالی کے وہ کیڑے ہیں جنہیں خوشبوؤں سے مہکتے بام و در راس نہیں آتے،نہ جانے اب آنے والی نسلیں جب اپنی نصابی کتب میں زیارت کی تصویر پر انگلی رکھ کر ہم سے یہ پوچھیں گی کہ ”یہ کون سی جگہ ہے ؟“ تو ہم کیا جواب دیں گے؟یہ کہ یہاں آپ نے اپنی حیات کے آخری دن گزارے تھے یا پھر یہ کہ آخری دنوں میں بانی پاکستان یہاں رہا کرتے تھے اور پاکستانیوں نے اِسی سبب اِس مقام پر بموں سے حملہ کیا تھاکہ قائد اعظم کی جرأت کیسے ہوئی جو اُنہوں نے یہاں سانسیں لیں،اب اِس کے قیام کا کوئی جواز نہیں،اُڑادو…!!!
    chat Quote

  6. Report bad ads?
  7. #5
    jalismirza's Avatar Limited Member
    brightness_1
    Limited Member
    star_rate
    Join Date
    May 2013
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    13
    Threads
    7
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    1
    Likes Ratio
    0

    Thumbs up چیف جسٹس انصاف دلائیں، امان رمضان میں مقت 

    Amaan Ramazan Official - امان رمضان

    چیف جسٹس انصاف دلائیں، امان رمضان میں مقتول ٹیکسی ڈرائیور کی بیوہ کی اپیل
    کراچی(اسٹاف رپورٹر)تین روز قبل رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں بے گناہ ٹیکسی ڈرائیورکی بیوہ نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے گڑگڑاتے ہوئے یہ اپیل کی ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے اور ان کے شوہر کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزادی جائے۔عامر لیاقت کی جانب سے مرید عباس کے اہل خانہ کیلئے عامر لیاقت کی جانب سے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا گیا، اسلام کیلئے سیدہ خدیجہ  اور حضرت ابوطالب کی خدمات پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے خراج تحسین پیش کیا۔جیوکی امان رمضان نشریات میں مقتول ٹیکسی ڈرائیور کی بیوہ نے اپنے یتیم بچوں اور خالہ کے ساتھ شرکت کی، دکھی خاتون نے ڈاکٹرعامرلیاقت حسین سے گفتگو کے دوران آبدیدہ ہوکر بتایا کہ محض شک کی بنیادپر بناء تحقیق کیے گولیاں برساکر میراسہاگ اجاڑاگیااورمیرے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ چھینا گیا میں اپنے شوہر کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ اپنے شوہرکاذکرکرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ میرے شوہرایک محب وطن پاکستانی تھے اور انہوں نے گھرمیں قائداعظم کی تصویر بھی آویزاں کررکھی تھی ،وہ بیماربچے کی دوالینے کے لیے گھر سے نکلے تھے مگر رینجرزکی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ تین دن گزرنے کے باوجود رینجرزکے کسی ذمے داراورحکومتی عہدیدار نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیاجو بے حسی کی انتہا ہے۔ان کا کہناتھا کہ شوہر کے قتل کا معاملہ اٹھانے پر انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے دھمکیاں بھی مل رہی ہیں ۔ مریدعباس کے قتل پرلواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ڈاکٹر عامرلیاقت حسین نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت بھی دہشت گردی ہی کی ایک قسم ہے۔ان کاکہنا تھا کہ حکومت سندھ کی مجرمانہ خاموشی اس حقیقت کی عکاسی کررہی ہے کہ وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔اس موقع پرمتاثرہ خاندان کی دادرسی کرتے ہوئے انہوں نے ایک لاکھ روپے بطور عطیہ دینے کا اعلان کیا جس پر لواحقین نے انہیں ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ سب کے پسندیدہ قرآنی لوح میں انعامات کی برسات کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ایک اور خوش نصیب نے قرشی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے صحیح جوابات دے کر کار جیت لی۔ گزشتہ بارہ برسوں سے الیکٹرونک میڈیا پر کامیابی کے ساتھ رمضان نشریات پیش کرکے کروڑوں ناظرین کا دل موہ لینے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی یہ بھی منفرد روایت رہی ہے کہ وہ ہر سال رمضان المبارک میں اسلام کی جلیل القدر شخصیات سے وابستہ ایام پربھرپور عقیدت ا وراحترام سے ان کاذکرکرتے ہیں، اس سلسلے میں جیو کی براہ راست خصوصی نشریات ”امان رمضان“کے دسویں روزام المومنین سیدہ خدیجہ  کے یوم وصال پرسحروافطارکی نشریات ان کے ذکرسے معموررہی،عام الحزن کی مناسبت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفیق چچاحضرت ابوطالب کے شفقت بھرے واقعات بھی بیان کیے گئے۔شام میں رسول اللہ کی نواسی سیدہ زینب کے روضہٴ اطہر پر دہشت گردوں کے حملے کی واشگاف انداز میں مذمت کرتے ہوئے ڈاکٹر عامرلیاقت نے اسے مسلم امہ کی بے حسی اور عظیم المرتبت ہستیوں سے دوری کاشاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ذاتی مفادات امت کے اجتماعی مفادات سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں اس لیے ایسے اندوہناک واقعات پیش آرہے ہیں ۔تاریخی نشریات کے دسویں روز دیوااکیڈمی میں زیرتعلیم خصوصی بچوں کومدعوکیا گیاتھاجومختلف امراض میں مبتلاہونے کے باوجودجرأت مندی کے ساتھ معاشرے میں اپنامقام بنارہے ہیں اورعلم وہنرکے شعبوں میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔بچوں سے گفتگو کے دوران میزبان بچوں میں گھل مل گئے اوران سے ان کی تعلیم اوردیگرمشاغل پر گفتگو کی اوران میں تحائف بھی تقسیم کیے ۔اس موقع پر ادارے کی پرنسپل مس مسرت بھی موجود تھیں۔پروگرام ”راہ نیکی“ میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے دل کے مرض میں مبتلا اٹھارہ سالہ شمشیر علی اور اس کی بیوہ ماں کے لیے امدا د کی اپیل کی جس پر مخیر حضرات نے ان کے لیے عطیات کا اعلان کیا جبکہ باعزت روزگار کے متلاشی محمد فیاض کواس کی خواہش پرضروری اشیاء سے لداہوا فرنچ فرائزکاٹھیلا دیاگیاجس پر متاثرین نے خوشی کااظہار کیا۔ علاوہ ازیں جیو کے شہرہٴ آفاق ”عالم اورعالم“ میں سحروافطار میں علامہ سید حمزہ علی قادری ،ڈاکٹرحسن رضوی ،مفتی عبدالحمید ربانی اور مولانا ضامن عباس زیدی نے شرکت کی اور قرآن و سنت کی روشنی میں ناظرین وحاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔

    chat Quote

  8. #6
    Tilmeez's Avatar Jewel of IB
    brightness_1
    Abu Aisha
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Jan 2006
    Location
    Close to U!
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    2,768
    Threads
    103
    Rep Power
    164
    Rep Ratio
    364
    Likes Ratio
    13

    Re: .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان



    ایک جیسے دھاگے یکجا کر دیئے گئے ہیں۔

    | Likes Periwinkle18 liked this post
    .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

    رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ



    chat Quote

  9. #7
    Tilmeez's Avatar Jewel of IB
    brightness_1
    Abu Aisha
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Jan 2006
    Location
    Close to U!
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    2,768
    Threads
    103
    Rep Power
    164
    Rep Ratio
    364
    Likes Ratio
    13

    Re: .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

    ایک چشم کشا تحریر، لازمی پڑھیئے اور سوچئے کہ بحیثیت قوم اور کیا کچھ بیچنا باقی ہےَ؟َ

    11019145202 1 - .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

    | Likes Haya emaan liked this post
    .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

    رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ



    chat Quote

  10. #8
    Tilmeez's Avatar Jewel of IB
    brightness_1
    Abu Aisha
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Jan 2006
    Location
    Close to U!
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    2,768
    Threads
    103
    Rep Power
    164
    Rep Ratio
    364
    Likes Ratio
    13

    Re: .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان


    ڈاکٹر ضیاالدین کی رائے ۔۔۔۔۔

    madari amir liaqat - .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان
    | Likes Haya emaan liked this post
    .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان

    رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ



    chat Quote


  11. Hide
Hey there! .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, we remember exactly what you've read, so you always come right back where you left off. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and share your thoughts. .لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان
Sign Up

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •  
create