لیں جی، مغرب کے لولے لنگڑے تجرباتی نظام "جمہوریت" میں فحاشی کی کوئی تعریف ہی نہیں ۔قمر زمان کائرہ


مقبوضہ پاکستان میں فحاشی اور عریانی پھیلانے والے ایک نجی میڈیا گروپ کے اخبار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ بقول وزیرِ اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ، انگریز کے بنائے ہوئے تجرباتی نظام "جمہوریت" میں ہمارے لیئے فحاشی کی کوئی تعریف ہی موجود نہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ۳۰ سال لگا دیئے فحاشی کی تعریف بناتے ہوئے تو ہمارے پیارے وطن میں اتنی جلدی کیسے بن سکتی ہے جنہوں نے اپنی ۶۰ سال غلامی کی تاریخ میں کبھی "اصلی جمہوریت" ہی نہیں دیکھی۔ بیوقوف ایسی چیز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو اِنہوں نے کبھی دیکھی ہی نہیں، بس سُن رکھی ہے۔ اور جس مغرب کی نسل نے اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان میں سے اکثر نے ابھی تک اپنے باپ نہیں دیکھے؛صرف ماں کا معلوم ہے۔

کائرہ صاحب کو یوں تو امریکہ کی ۳۰ سالہ محنت سے نکلنے والی تعریف سے اتفاق تو نہیں ہو گا مگر اُن کے خیال میں اتنا "ترقی یافتہ" ملک بھی اگر فحاشی کی تعریف کا کھوج ۳۰ سال میں لگا رہا ہے تو ہم کس کھیت کی گاجر مولی ہیں۔ تب تک ہماری مائیں بہنیں اور بہو بیٹیاں انتظار کریں یا پھر کسی مولوی کے مشورے پر مجبوری میں "عارضی و ہنگامی" اقدام اٹھائے جا سکتے ہیں۔
حضرت کہتے ہیں تعریف کرنا تو ایک طرف ،ہم فحاشی روکنے کے قابل بھی نہیں، اُلٹا کیبل والوں پر نظر رکھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جس نے فیشن ویک کرنے ہیں ہوٹلوں میں کر لے، کیبل آپریٹر لوگوں کے گھر تک نئے فیشن کے کپڑے کاپر کی تاروں میں چھپا کر پہنچا دیں گے۔ حضرت کی بات واقعی بڑی گہری تھی، جب تک نئے، نفیس، خوبصورت دِکھنے والے کپڑے اور ہیر ڈریسرز خریدنے ہماری عورتیں بازار نہیں جائیں گی اور پھر دِکھانے کیلئے بازاروں میں نہیں اُتریں گی تب تک ان بوتیکوں کو اُن کا رزق کیسے ملے گا۔
میک اپ، بوتیک کا کاروبار، ٹی وی تک آنے والی کیبل کی تاروں سے ہی تو وابسطہ ہے۔ فحاشی تو لگتا ہے بلاوجہ بدنام ہے۔
سب کچھ آئینی ہے اور سنسر بورڈ سے پاس ہو کر آ رہا ہے اس لیئے اس پر مزید بولا تو توہینِ عدالت و آئین ہو جائے گے، جس کی سزا موت ہے۔ میں کوئی رمشا مسیح کا رشتہ دار نہیں ہوں کہ کیسی بھی توہین کرلوں مجھے بچانے فوج کے ہیلی کاپٹر اتر آئیں گے اس لیئے چپ اور خاموش رہنا بہتر ہوگا۔ آخر میں بھی تو اسی قوم کا فرد ہوں۔
جی اوئے جمہوریت، تیری تو شان ہی نرالی ہے۔