حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق فتنوں کا ایک ایسا زمانہ بھی اس دنیا میں بسنے والوں کو دیکھنا ہے جس میں دین پر عمل کرنا ہاتھ پہ انگارہ رکھنے کی مانند ہوگا، خیال ہوتا ہے کہ وہ زمانہ آچکا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے وطن ہندوستان میں اس وقت کچھ ایسی فضا بنائی جا رہی ہے ، جس میں مذہبِ اسلام کے مسلّمات اور طے شدہ امور پر بے وجہ بحث و مباحثے کے دروازے کھولے جا رہے ہیں، اور آزادیِ اظہار و بیان کے نام پر خدائی دین میں رائے زنی کی جا رہی ہے،ایسے موقعوںپر اصحابِ علم و قلم کی ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ پوری تن دہی سے احقاقِ حق اور ابطالِ باظل کی خدمت انجام دیں۔ ناچ، گانا اور باجا وغیرہ اسلام کی رو سے قطعاً ممنوع ہے ،جس میں کسی اہلِ علم کا اختلاف نہیں، اس کے باوجود گذشتہ دنوںکسی بچّی کے اس مشغلے کو بہ طور پیشہ اختیار کرنے پر علما کی طرف سے کی گئی اپیل یا تلقین کو میڈیا اور اسلام دشمن عناصر نے فتوے کے نام سے اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی کہ غلط فہمیوںکو فروغ ہو۔ بعد میںگو کچھ لوگوں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ انھوں نے قبل از تحقیق خبر کو غلط طریقے سے پیش کر دیا تھا، وہ ایک اپیل تھی فتویٰ نہیں، اس کے باوجود یہ شوشہ چھوڑنے سے پیچھے نہ ہٹے کہ کیا اسلام میں واقعی گانا بجانا حرام ہے اور یہ کہہ کر کہ’اگر ایسا ہے تو ہم اس سے اتفاق نہیں رکھتے‘، اسلام کے ایک مسلّمہ امر میں رائے زنی کرکے لوگوں کو میں وسوسہ ڈالنے کی اپنی سی کوشش کی،جب کہ قرآن و احادیث اور فقہ‘ جو کہ شریعتِ اسلامی کے مآخذ ہیں، ان میں ان امور کی حرمت صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔گانا بجانا پوری امتِ مسلمہ کے نزدیک حرام ہے اور جن لوگوں نے سماع وغیرہ کے نام سے گنجائش نکالنے کی سعی کی ہے ، وہ بھی تاویلوں کا سہارا لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ۔ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۔ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۔ (ترجمہ)تو کیا تم اسی بات پر حیرت کرتے ہو ؟اور(اس کا مذاق بنا کر) ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو، جب کہ تم تکبر کے ساتھ کھیل کود میں پڑے ہوئے ہو؟ (النجم: 59-61) سمود کے معنی غفلت اور بے فکری کے ہیں، سامدون بہ معنی غافلون ہے اور ایک معنی سمود کے گانے کے بھی آتے ہیں، وہ بھی اس جگہ مراد ہوسکتے ہیں۔ (معارف القرآن: 8/222) اگر سامدون کے دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ کفارِ مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کردیتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی ارشاد فرما دیا تھاکہ ’میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر چلے جائیں گے ، چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا۔ (بخاری:5590) یہ تمام چیزیں آج ہر طرف دیکھی جا سکتی ہیں، آج بھی لوگ گانے باجے میں لگ کر یا لگا کر لوگوں کو قرآن سے غافل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ یہ باور کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں،دراصل یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے ، جسے بہت کم ذہن سمجھ سکے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کا دماغ برقی لہروں( electrical waves)پر فنکشن کرتا ہے ، اس پر جو سگنل (signal)جاتے ہیں وہ الیکٹرکل سگنل ہوتے ہیں، جو انسان کے جسم میں چارج ہوتے ہیں، اس لیے اگر ریڈیو چل رہا ہو اور آپ اس کے اینٹینے کو پکڑ لیں تو اس کی آواز بہتر ہو جاتی ہے ، کیوں کہ آپ اس کے ویوس(waves)کو رِسیو(recieve)کرکے اسے دینے لگتے ہیں، اسی کے پیشِ نظر میوزک پر ریسرچ کی گئی کہ وہ پہلے تو محض ایک آواز ہوتی ہے ، مگر انسان کے جسم میں پہنچ کر الیکٹرکل ویو( electrical wave)بن جاتی ہے ، جسے ویو لیٹ اینالیسس(wavelet analysis)کہتے ہیں کہ کون سی ویو لیٹ انسان کے دماغ پر زیادہ اثر کرتی ہے ، چناں چہ ایسی ویو لیٹ ایجاد کی گئیں جسے سن کر آدمی تِھرکنا بھی شروع کر دیتا ہے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دماغ تک پہنچ گئے ۔ پھر اس پر محنت کرتے کرتے ایک سسٹم ایجاد کیا، جس کا نام ہے بیک ٹریک سسٹم(Back Track System)(Back‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ میوزک تو ویو بار(wave bar) میں ہوتی ہے ، اس کے اوپر اپنا ایک میسج بٹھا دیتے ہیں، جیسے کسی انسان کے کندھے پر مکھی بیٹھ جائے اور جہاں انسان داخل ہو، وہ بھی ساتھ ہی میں داخل ہو جائے ، بالکل اسی طرح انسان میوزک تو سنتا محض ری فریش (refresh)ہونے کے لیے ، مگر اس کے ساتھ وہ پیغام بھی اس کے دماغ تک پہنچتا ہے اور اثر
http://afif.in/naach-aur-gaane-bajan...-gahri-sazish/