× Register Login What's New! Contact us
Results 1 to 4 of 4 visibility 4320

والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

  1. #1
    israrulhaq's Avatar
    brightness_1
    Awaiting email confirmation
    star_rate
    Join Date
    Sep 2009
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    1
    Threads
    1
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    60
    Likes Ratio
    100

    والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    Report bad ads?


    والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    مجھے ایک عزیز نے میسیج فارورڈ کیا ہے جس کا عنوان ہے ۔ "جو عورتیں اپنے والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ اپنے شوہر کا نام اپناتی ہیں وہ غور کریں کہ یہ حرام ہے "۔اسکے علاوہ یہ میسیج آجکل واٹس ایپ ، فیس بک اور دیگر شوشل میڈیا پر بھی چل رہا ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں اکثر خواتین شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگاتیں ہیں اس لیے اس میسیج کو پڑھ کر انہیں اور دوسرے لوگوں کوپریشانی ہورہی ہے۔
    جیسا کہا گیا ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئے جارہے ہیں ان کا مذکورہ معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب میں فرماتا ہے۔
    وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ۭذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ Ć۝ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ سورۃ الاحزاب آیت نمبر3-4
    "اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا.. یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو اور وہی صحیح راستہ بتلاتا ہے.. تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو.. یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔
    امام قرطبی فرماتے ہیں کہ متبنیٰ بنانا دور جاہلیت اورابتدائی دور اسلام کا معمول تھا۔ اس کے ذریعہ باہم وارث بنا یاجاتا اور باہم ایک دوسرے کی مدد کی جاتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ساتھ اس عمل کو منسوخ کردیا۔ دور جاہلیت میں جب کسی آدمی کو اس کی بہادری اور ظرافت اچھی لگتی تو وہ آدمی اسے اپنے ساتھ ملا لیتا اور اپنی میراث میں سے مذکر اولاد کے برابر اس کا حصہ مقرر کردیتا۔ اس لڑکے کو اس آدمی کی طرف منسوب کیا جاتا اور کہا جاتا : فلاں بن فلاں۔ تفسیر قرطبی۔
    اسی طرح احادیث میں بھی اپنے اصل والد کی جگہ کسی دوسرے کو اپنا باپ ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
    حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ الْحُسَيْنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ يَعْمَرَ أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيلِيَّ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنْ ادَّعَی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ ۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 764
    حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ اس بات کو جانتا بھی ہو تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جو شخص کسی ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی قرابت دار نہ ہو تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے۔
    اس سارے کنفیوژن کی ایک وجہ ہمارے اور عرب ممالک کے الگ الگ رسم و رواج ہیں۔ دنیا عرب میں نام کے ساتھ بن یا بنت کا لفظ ضرور استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بیٹا یا بیٹی کے ہوتے ہیں۔مثلاً ؑ عثمان بن عفان (عفان کا بیٹا عثمان) یا زینب بنت علی(علی کی بیٹی زینب) اسکے علاوہ بعض مرتبہ باپ کے نام کی بجائے اس کی کنیت نام کے ساتھ لگا لیتے ہیں جیسے عائشہ بنت ابی بکر(بکر کے ابو کی بیٹی عائشہ)۔
    عرب میں کنیت اشراف کی شرافت کا نشان سمجھی جاتی تھی اس لیے وہاں کے مرد و زن شادی کے بعد اپنی کنیت رکھ لیتے اور اسی کے نام سے پکارنا پسند فرماتے تھے بعض دفعہ یہ کنیت ایک سے زیادہ ناموں پر مشتمل ہوتی تھی جیسے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کانام عثمان تھا جبکہ کنیت ابوعبداللہ اورابوعمرتھی۔ چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی، اِس لیے ان کی کوئی کنیت بھی نہ تھی حضور ﷺ نے انہیں اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر کنیت رکھنے کی اجازت دی ۔ اس لیے آپ اُمِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ آپ کے بھانجے کا پورا نام حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہے۔
    برصغیر پاک وہند میں نا م اس طرح نہیں رکھے جاتے یعنی ان میں بن اور بنت کا لفظ نہیں ہوتا مثلاً میرا نا م اسرارالحق ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ میرے باپ کا نام حق ہے۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ میرے پاپ کا نام عبدالقیوم ہے اسی طرح اگر کسی لڑکی کا نام نسیم اختر ہے تو اس کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے والد کا نام اختر ہے۔تاہم یہ ہو بھی سکتا ہے۔
    برصغیر میں لڑکیاں شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام اس لئے نہیں لگاتیں کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہیں ہیں یا اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہیں ہیں بلکہ وہ تعارف کے طور پر اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لکھتیں ہیں اور اسکی ممانعت نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیوی کا اپنی پہچان کے لیے اس طرح نام تبدیل کرنے کا کوئی ثبوت موجود ہے؟ جی ہاں ثبوت موجودہے۔ قرآن مجید میں بعض عورتوں کا تعارف اللہ تعالیٰ نے ان کے شوہروں کی نسبت سے کرایا ہے۔
    قران مجید میں عزیز مصر کی بیوی زلیخا کو شوہر کی نسبت سے پکارا گیا ہے.
    وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِيْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا عَنْ نَّفْسِهٖ ۚ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۭ اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ؀ سورہ یوسف آیت نمبر 30
    اور شہر میں عورتیں گفتگوئیں کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی (زلیخا)اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہے۔
    واعلہ اور واہلہ کا ذکر ان کے شوہروں کے نام سے ہوا۔
    ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ سورہ تحریم آیت نمبر 10
    خدا نے کافروں کے لئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے۔ نوح علیہ السلام کی بیوی کا نام واہلہ تھا جبکہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا نام واعلہ تھا۔
    اسی طرح حضرت سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر ان کے شوہر کے نام سے ہوا۔
    وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَيْنٍ لِّيْ وَلَكَ ۭ لَا تَقْتُلُوْهُ ڰ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ Ḍ۝ سورۃالقصص آیت نمبر9
    اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ (یہ) میری اور تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرنا شاید کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے۔
    حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا ذکر ان کے شوہر کے نام سے ہوا۔
    اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ؀ سورہ آل عمران آیت نمبر 35
    وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھونگی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ (حضرت عمران کی بیوی کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا جوحضرت مریم علیہا السلام کی والدہ تھیں)
    اپنے نام کے ساتھ والد کے سوا کسی کا نام لگانا یا اسکی طرف نسبت کرنا جس کا مقصد ولدیت تبدیل کرنا نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت اپنے داد اکی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
    حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قِيلَ لِلْبَرَائِ وَأَنَا أَسْمَعُ أَوَلَّيْتُمْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ أَمَّا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا کَانُوا رُمَاةً فَقَالَ أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
    صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1510
    ابواسحاق سے مروی ہے کہ انہوں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا اور میں سن رہا تھا کہ کیا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین کے دن بھاگ گئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نہیں بھاگے وہ لوگ تیر انداز تھے تو آپ یہ فرما رہے تھے کہ میں سچا نبی ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
    جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اپنے نام کے ساتھ کوئی نسبت لگا نا صرف اپنا تعارف اور پہچا ن کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے بعض صحابہ نے اپنے والد کے نام کی بجائے اپنے آقا کے نام کی نسبت اختیار کی۔
    أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «صَلَّى عَامَ الْفَتْحِ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا بِثَوْبٍ ۔ موطا امام محمد:جلد اول:حدیث نمبر 162
    عقیل بن ابی طالب کے غلام ابو مرہ نے بیان کیا ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ
    عنہا نے مجھے بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن آٹھ رکعات ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر ادا فرمائیں۔
    حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُوسَی مَوْلَی ابْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَنَسًا عَنِ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ ؟ فَقَالَ : کُنَّا مَعَ أَبِی مُوسَی فِی السَّفَرِ فَصَامَ وَصُمْنَا۔
    ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر 9070
    حضرت موسیٰ مولی ابی عامر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے سفر میں روزے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے انہوں نے روزہ رکھا تو ہم نے بھی روزہ رکھا۔
    حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ
    عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ بْنِ الْہَادِّ ، قَالَ: أُصِیبَ سَالِمٌ مَوْلَی أَبِی حُذَیْفَۃَ یَوْمَ
    الْیَمَامَۃِ۔ ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر 34412
    حضرت عبد اللہ بن شداد بن ہاد کہتے ہیں کہ حضرت سالم مولی ابی حذیفہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
    لا تقرنوا.حم، وابن سعد والبغوي، ك عن سعد مولى أبي بكر قال: قدمت بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم تمرا قال فذكره ۔کنزالعمال: حدیث نمبر 40814
    حضرت سعد (رض) جو حضرت ابوبکر کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھجوریں پیش کیں آپ نے فرمایا : دو دو کھجوریں اکھٹی نہ کھاؤ۔ مسنداحمد، ابن سعد، البغوی، حاکم عن سعد مولی ابی بکر۔
    اوپر بیان کردہ چاروں احادیث میں صحابہ کرام نے اپنے والد کے نام کی بجائے اپنے آقاوں کا نام استعمال کیا ۔ مولی آزاد کردہ غلام کو کہتے ہیں۔
    حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت جو بخاری و مسلم میں بیان ہوئی ہے اس سے یہ بات اچھی طرح واضع ہو جاتی ہے کہ شوہر کےنام سے پہچان جلد ہو جاتی ہے۔ اس حدیث میں حضرت ابن ِ مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کو ابن مسعود کی بیوی کہہ کر پکارا گیا ہے۔یہاں زینب رضی اللہ عنہا کے والد کے نام کی بجائے شوہر کا نا م ہے۔
    جَائَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ زَيْنَبُ فَقَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ فَقِيلَ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا
    حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن ِ مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور اجازت طلب کی، آپ ﷺسے کہا گیا یا رسول اللہ ﷺ یہ زینب ہے۔ آپ نے فرمایا : کون زینب ؟ کہا گیا کہ ابن مسعود کی بیوی، آپ نے فرمایا : اچھا اجازت دو ، انہیں اجازت دی گئی ۔
    اسی میسیج میں لکھا گیا ہے کہ ازواج مطہرات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اورحضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تا عمر اپنے والد کے نام سے پکاری گئیں یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ حضور ﷺ کے نام کے ساتھ بھی پکاری گئیں۔ آئیے چند احادیث دیکھیں جس میں ا ن ازواج مطہرات کے ساتھ دوسری ازواج مطہرات بھی اپنے شوہر یعنی حضور ﷺ کے نام سے بھی پکاری گئیں ۔
    اس حدیث میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ والد کی بجائے شوہر کا نام ہے۔
    حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: «أُمَيْمَةُ بِنْتُ رُقَيْقَةَ وَرُقَيْقَةُ أُمُّهَا وَأَبُوهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بِجَادِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ سَعْدِ بْنِ تَيْمِ بْنِ مُرَّةَ، وَأُمُّهَا رُقَيْقَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى أُخْتُ خَدِيجَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعْتَزَبَتْ أُمَيْمَةُ فَتَزَوَّجَهَا حَبِيبُ بْنُ كَعْبِ بْنِ عُتَيْرٍ الثَّقَفِيُّ فَوَلَدَتْ لَهُ النَّهْدِيَّةَ، وَعَاشَتْ أُمَيْمَةُ بِنْتُ رُقَيْقَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَتْ عَنْهُ» فَحَدَّثَنَا بِصِحَّةِ مَا ذَكَرَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْوَاقِدِيُّ "
    المستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر6947
    محمد بن عمر فرماتے ہیں ۔ اممیہ بنت رقیہ ۔ رقیہ ان کی والدہ ہیں اور ان کے والد کا نام عبداللہ بن بجاد ب عمیر بن حارث بن حارثہ بن سعد بن تیم بن مرہ ہے ۔ ان کی والدہ رقیقہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی ہیں۔ حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد۔حبیب بن کعب بن عتیر ثقفی سے ان کی شادی ہوئی ۔ ان کے ہاں نہدیہ پیدا ہوئیں ۔ حضرت اممیہ بنت رقیقہ رسول اکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی زندہ رہیں اور حضور ﷺ سے روایت بھی کی۔
    حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ والد کی بجائے حضور ﷺ کا نام ہے۔
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ سَوْدَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ مَاتَتْ لَنَا شَاةٌ فَدَبَغْنَا مَسْکَهَا ثُمَّ مَا زِلْنَا نَنْبِذُ فِيهِ حَتَّی صَارَ شَنًّا ۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1622
    حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت سودہ (رض) زوجہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہماری ایک بکری مرگئی ہم نے اس کی کھال کو دباغت (رنگ) دے دیا، پھر ہم اس میں برابر نبیذ بناتے رہے، یہاں تک کہ وہ پرانی ہوگئی۔
    حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرْ الْفَيْئُ فِي حُجْرَتِهَا ۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1378
    حضور ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز پڑھتے تھے اور سورج (دھوپ) ان کے صحن میں ہوتی تھی اور چڑھتی نہ تھی۔
    أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَوَاحُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُحْتَلِمٍ ۔ سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1376
    حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ سے
    روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نماز جمعہ کیلئے ہر ایک بالغ مرد کے ذمہ جانا لازم ہے۔
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلَّهِ کُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً تَطَوُّعًا غَيْرَ فَرِيضَةٍ إِلَّا بَنَی اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَوْ إِلَّا بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَتْ أَمُّ حَبِيبَةَ فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ و قَالَ عَمْرٌو مَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ و قَالَ النُّعْمَانُ مِثْلَ ذَلِکَ ۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1690
    حضور ﷺکی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جو مسلمان بندہ روزانہ بارہ رکعتیں فرض نمازوں کے علاوہ نفل میں سے اللہ کے لئے پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتے ہیں یا (فرمایا کہ) اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا، حضرت ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ میں اس کے بعد سے ان نمازوں کو پڑھتی رہی ہوں اسی طرح عمرو اور نعمان نے بھی اپنی اپنی روایات میں اسی طرح کہا ہے۔
    حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا جَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ فِي الْمَسْجِدِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ فَقَامَ مَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا بَلَغَ قَرِيبًا مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِمَا رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَسَلَّمَا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَفَذَا فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رِسْلِکُمَا قَالَا سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَبُرَ عَلَيْهِمَا ذَلِکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنْ الْإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِکُمَا شَيْئًا ۔صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 366
    حضرت علی بن حسین (رض) روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ وہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت ملاقات کو آئیں جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان شریف کے آخری عشرہ میں معتکف تھے اور جب وہ واپس جانے لگیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ اٹھے اور مسجد کے دروازے کے پاس حضرت ام سلمہ کے مکان کے پاس پہنچے تو اس طرف سے دو انصاری گزرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کہہ کے جلدی سے جانے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٹھہرو سنو ! یہ میری بیوی ہیں تو یہ بات ان کو بہت شاق معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ سبحان اللہ ! اس پر رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کی رگوں میں شیطان خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے اور مجھے یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں یہ امر تمہارے دل میں کوئی شبہ پیدا نہ کر دے۔
    حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُبَيْدَ بْنَ السَّبَّاقِ قَالَ إِنَّ جُوَيْرِيَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ هَلْ مِنْ طَعَامٍ قَالَتْ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عِنْدَنَا طَعَامٌ إِلَّا عَظْمٌ مِنْ شَاةٍ أُعْطِيَتْهُ مَوْلَاتِي مِنْ الصَّدَقَةِ فَقَالَ قَرِّبِيهِ فَقَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا ۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2476
    حضور ﷺ کی زوجہ حضرت جویریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کچھ کھانا ہے تو انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس اس بکری کے گوشت کی ہڈی کے سوا کوئی کھانا نہیں جو میری آزاد کردہ باندی کو صدقہ میں ملی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو لے آؤ اس لئے کہ صدقہ تو اپنی جگہ پہنچ چکا ہے۔
    و حَدَّثَنِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا جَائَتْ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ فِي اعْتِکَافِهِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ وَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْلِبُهَا ثُمَّ ذَکَرَ بِمَعْنَی حَدِيثِ مَعْمَرٍ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنْ الْإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ وَلَمْ يَقُلْ يَجْرِي ۔ صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1183
    حضرت صفیہ زوجہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتکاف میں مسجد میں ملاقات کرنے کے لئے رمضان کے آخری عشرہ میں حاضر ہوئیں انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھوڑی دیر گفتگو کی پھر واپسی کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور نبی کریم ﷺبھی انہیں رخصت کرنے کے لئے اٹھے باقی حدیث اسی طرح ہے اس میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان انسان میں خون پہنچنے کی جگہ تک پہنچ جاتا ہے دوڑنے کا ذکر نہیں کیا۔
    قَالَ عَمْرٌو وَحَدَّثَنِي بُکَيْرُ بْنُ الْأَشَجِّ عَنْ کُرَيْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکَلَ عِنْدَهَا کَتِفًا ثُمَّ صَلَّی وَلَمْ يَتَوَضَّأْ ۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 793
    حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس بکری کا شانہ کھایا پھر وضو کئے بغیر نماز ادا فرمائی۔
    صحابہ کرام کی بیویوں کا ذکر بھی ا ن کے شوہروں کے نام کے ساتھ ہے۔
    حَدَّثَنَا مَالِکٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَوَاحَۃَ ، أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَۃَ کَانَ لَہُ مَسْجِدَانِ : مَسْجِدٌ فِی بَیْتِہِ ، وَمَسْجِدٌ فِی دَارِہِ ، إذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ صَلَّی فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی فِی بَیْتِہِ، وَإِذَا دَخَلَ صَلَّی فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی فِی دَارِہِ، وَکَانَ حَیْثُمَا أَدْرَکَتْہُ الصَّلاَۃُ أَنَاخَ۔ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 4930
    حضرت عبداللہ بن رواحہ کی بیوی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کی دو مسجدیں تھیں۔ ایک ان کے گھر میں اور ایک ان کے کمرہ میں جب وہ باہر آنا چاہتے تو وہ اپنے کمرے والی مسجد میں نماز ادا کرتے اور جب وہ اندر آنا چاہتے تو پھر اپنی گھر والی مسجد میں نماز پڑھتے اور ان کو جہاں بھی نماز پالیتی وہ جانور بٹھا لیتے۔
    أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيِّ عَنْ بُکَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا أَنْ لَا تَمَسَّ الطِّيبَ إِذَا خَرَجَتْ إِلَی الْعِشَائِ الْآخِرَةِ ۔سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1441
    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا جس وقت وہ نماز عشاء میں حاضر ہو تو خوشبو نہ لگائے۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ عورت کے نام کے ساتھ والدکا نام لگے یا شوہر کا، اس کا مقصد صرف اور صرف اس سے اس کا تعارف اور شناخت ہے۔ تحقیق کئےبغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
    اگر آپ کو اس متن سے کوئی اختلاف ہو یا آپ اس کے برعکس رائے رکھتے ہوں تو مجھے ضرور آگاہ کریں ۔ اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئے تواس کو آگے شیئر کر دیں ۔
    وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ
    دعا کا طالب :۔ اسرارالحق
    | Likes azc liked this post
    chat Quote

  2. Report bad ads?
  3. #2
    azc's Avatar Full Member
    brightness_1
    IB Oldskool
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Jan 2016
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    7,057
    Threads
    391
    Rep Power
    69
    Rep Ratio
    34
    Likes Ratio
    35

    Re: والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    دلچسپ تحریر ہے ـ کیا ٓآپ ہی نے لکھی ہے
    chat Quote

  4. #3
    MazharShafiq's Avatar Full Member
    brightness_1
    IB Oldtimer
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Sep 2016
    Location
    Pakistan
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    2,301
    Threads
    56
    Rep Power
    49
    Rep Ratio
    7
    Likes Ratio
    18

    Re: والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    جی عورت اپنی زوجیت کے طور پر شوہر کا نام استعمال کرتی۔ہے ولدیت کے طور پر تو نہیں استعمال کرتی ولدیت تو وہی رہے گی نہ۔
    والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    27y9utc 1 - والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا
    chat Quote

  5. #4
    MazharShafiq's Avatar Full Member
    brightness_1
    IB Oldtimer
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Sep 2016
    Location
    Pakistan
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    2,301
    Threads
    56
    Rep Power
    49
    Rep Ratio
    7
    Likes Ratio
    18

    Re: والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام-الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِج-فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآئَهُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّيْنِ وَمَوَالِيْکُمْط

    تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔

    الاحزاب، 33: 5

    آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:

    عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.

    حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

    بخاري، الصحيح، 3: 1292، رقم: 3317، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

    مسلم، الصحيح، 1: 79، رقم: 61، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

    جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:

    عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ يَقُولُ: مَنِ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ.

    حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔

    بخاري، الصحيح، 6: 2485، رقم: 6385

    مسلم، الصحيح، 1: 80، رقم: 63

    باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ کُفْرٌ.

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا و اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔

    بخاري، الصحيح، 6: 2485، رقم: 6386

    مسلم، الصحيح، 1: 80، رقم: 62

    باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:

    عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ: مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّی غَيْرَ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اﷲ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

    ابن ماجه، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بيروت: دار الفکر

    مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    ضَرَبَ اﷲُ مَثَـلًا لِّلَّذِيْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍط

    اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔

    التحريم، 66: 10

    مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:

    وَضَرَبَ اﷲُ مَثَـلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَم.

    اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجۂِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔

    التحريم، 66: 11

    اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:

    امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ.

    حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔

    بخاري، الصحيح، 2: 531، رقم: 1393

    اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:

    هَذِهِ زَوْجَةُ النَّبِيِّ.

    یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔

    بخاري، الصحيح، 5: 1950، رقم: 4780

    جلیل القدر صحابی حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اُن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل ہے:

    عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، حَفْصَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، صَفِيَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، سَوْدَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ.

    لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئےبغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے
    Last edited by MazharShafiq; 10-14-2018 at 01:20 PM.
    والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا

    27y9utc 1 - والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا
    chat Quote


  6. Hide
Hey there! والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, we remember exactly what you've read, so you always come right back where you left off. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and share your thoughts. والد کا نام ہٹا کر اسکی جگہ شوہر کا نام اپنانا
Sign Up

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •  
create