سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:

(۱) فاتحہ مروجہ یعنی سامنے کھانا یاکچھ شیرینی رکھ کر اس پر ’’الم ذلک الکتاب لاریب فیہ‘‘ سے لیکر ’’مفلحون ‘‘ تک اورسورہ حشر کی آخری تین آیات اورچار قل پڑھتے ہیں پھر ہاتھ اٹھاکر دعا مانگتے ہیں اس کے بعد کھانے کو تناول فرماتے ہیں یہ امر کیسا ہے؟

(۲) فاتحہ مروجہ کی ابتدا کہاں سے ہوئی اور کس نے اس کام کو شروع کیاہے؟

(۳) ایسے کھانے کو کھانا کیسا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میںم دلل تحریر فرمائیں.

المستفتي: محمد عبد الصمد ، بلاسپور گیٹ ، امام کھیر والی مسجد ، ضلع :رامپور

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللہٰ التوفیق:

(۱) فاتحہ خوانی کا مروجہ طریقہ بے اصل ہے اور اس کا ثبوت نہ تو قرآن سے ہے ، اور نہ ہی حدیث نبوی سے اور نہ فقہ کی کتابوں سے ہے ، بلکہ حضرات فقہاء نے اسکو بدعت لکھا ہے ۔(مجموعۃالفتاویٰ ۱/۸۱، احیاء العلوم /۱۴۸، فتاویٰ محمودیہ قدیم ۱/۲۲۹، جدید ڈابھیل ۳/۶۸، امداد المفتیین /۱۵۷)

قراء ۃ الفاتحۃ والإخلاص والکافرون ، علی الطعام بدعۃ۔( فتاویٰ سمر قندی بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ قدیم ۳/۱۹۳، جدید زکریا۲/۱۱۶)

(۲) فاتحہ مروجہ کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے ، اس کا کہیں سے ثبوت نہیں ملتاہے ، البتہ ہندوستانی مسلمانوں نے ہندوانی تہذیب سے متأثر ہوکر ان کے افعال کو اپنا لیاہے ، جیسا کہ ’’تحفۃ الہند‘‘ کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے، کہ جب ان غیر مسلموں میں سے کوئی مرجاتا تھا تو اس کے مرنے پر کھانا پکا کر پنڈت سے اس پر وید پڑھواتے تھے ، اسی رسم کو مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ۔ (تحفۃالہند/۵ ۸)

نیز جوہدیۃ الحرمین کے حوالہ سے بعض لوگوں نے کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے کا انتقال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دسواں اور چالیسواں کیا اور کھجور پر فاتحہ دی تو یہ غلط اور بے ثبوت بات ہے ، کتب معتبرہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (فتاوی رشیدیہ قدیم /۱۵۲، جدید زکریا/۱۲۷)

(۳) فاتحہ کا یہ طریقہ ناجائز ہے مگر نفس کھانا حرام نہیں ہے، بلکہ اسکی حلیت باقی رہتی ہے ، اور اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکو ضروری جاننا برا ہے ، اور بہتر یہ ہیکہ جو کچھ پڑھنا چاہیں پڑھ کر اس کا ثواب میت کو پہونچا دیں اورکھانے کو تصدق کی نیت سے فقراء کو کھلا دیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ قدیم /۱۵۳، جدید زکریا /۱۲۷، احیاء العلوم /۱۴۸)

صرح علماؤنا فی باب الحج عن الغیر بأن للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیر ہا کذا فی الہدایۃ ۔ (شامی ، کتاب الصلاۃ، ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب فی القرأۃ للمیت واہداء ثوابہا لہ، زکریا ۳/۱۵۱، کراچی ۲/۲۴۳) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
یکم؍صفر۱۴۱۴ھ
(الف فتویٰ نمبر:۲۹/۳۲۹۹)

https://islamreigns.wordpress.com/?_...0%2C1632877685