12 ربیع الاول کو کیا ہوا تھا؟

12 ربیع الاول بروز سوموار نماز فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ سنبھل گئی۔ آپ نے اپنے حجرہ مبارکہ کا پردہ اٹھایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو لبوں پر تبسم جاری ہو گیا۔ طلوع آفتاب کے بعد بار بار غشی پڑنے لگی۔

اسی دوران آپ نے مسواک بھی کی۔ آپ کے سامنے پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا اس میں دونوں ہاتھ ڈبو کر چہرہ انور پر ملتے تھے اور فرماتے تھے ”لا الہ الا اللہ ان للموت سکرات“ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں موت کی بڑی تکلیف ہے۔ اس کے بعد ہاتھ پھیلا کر کہنے لگے: ”فی الرفیق الاعلیٰ“ اسی میں آپ کی وفات ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللھم صلی علی محمد وعلٰی الہ واصحابہ وبارک وسلم دائما ابدا۔
آپ کی وفات کی خبر سن کر محبان رسول کے ہوش و حواس گم ہو گئے۔ آوازیں بند ہو گئیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ زمین پر بیٹھ گئے اور ان میں کوئی سکت نہ رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اتنا غم لیا کہ عقل کھو بیٹھے اور انہوں نے تلوار کھینچ لی اور کہا جو شخص یہ کہے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے میں اس کو قتل کر دوں گا۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں آپ کے چہرہ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا:
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ بے شک وفات پا گئے ہیں۔ پھر آپ باہر تشریف لے آئے، مدینہ کے لوگ زاروقطار رو رہے تھے۔ عمر فاروق جو غم سے نڈھال اور ہواس کھو بیٹھے تھے تلوار لے کر کھڑے تھے اور یہ کہہ رہے تھے جو شخص یہ کہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں میں اس کو قتل کر دوں گا۔ ایسے حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حالات کو کنٹرول کیا اور آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
”لوگو سنو! جو شخص محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرنا تھا (وہ جان لے کہ) محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ زندہ ہے۔ وہ کبھی نہیں مرے گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل
ابن ابی شیبہ میں ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان آیات کو تلاوت فرمایا۔
انک میت وانھم میتون٭ وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد٭
”بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اور بے شک وہ (سب لوگ) بھی مرنے والے ہیں۔ اور آپ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشگی و دوام نہیں ہے۔“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد سب لوگوں کی زبان پر وہی آیتیں تھیں جو سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تلاوت کی تھیں۔
12 ربیع الاول کا دن منانا:
خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل امت کے لئے معتبر قرار دیا گیا ہے۔ یہ نفوسِ قدسیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ پر اپنا مال و منال اور جان قربان کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے اور آپ کے اشارے پر ہر وقت مر مٹنے کے لئے مستعد اور تیار رہتے تھے۔ صحابہ کرام کے بعد تابعین و تبع تابعین کا دور خیر القرون کہلاتا ہے۔ اس میں کہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن منانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، اور امام احمد بن حنبل کی تعلیمات و ارشادات اور ان کی فقہی کتب میں بھی کہیں جشن منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ علاوہ ازیں محدثین میں سے کسی نے بھی اسے منانے کا حکم نہیں دیا۔ تو ایسا عمل جس کا ذکر نہ قرآن میں نہ حدیث میں، نہ خلفاء راشدین کے ادوار میں نہ فقہاء کے زمانہ میں ہے۔ اس کو شرعی حکم اور دینی فریضہ سمجھ کر انجام دینا اور اس پر اجر و ثواب کی توقع رکھنا کہاں کا دین اور اسلام ہے؟
علازہ ازیں 12 ربیع الاول کا دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے۔ ایک عرصہ تک لوگ اسے بارہ وفات کے نام سے ہی یاد کرتے رہے ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت تو 9 ربیع الاول کو ہوئی ہے اگر آپ کا یوم ولادت 12 ربیع الاول ہی تسلیم کر لیا جائے تو ولادت اور وفات کا دن ایک ہی ہوا۔ تو پھر اہمیت خوشی کو دی جائے گی یا موت کو؟ یقیناً غم خوشی پر غالب آ جائے گا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اپنی زندگی میں آنے والی خوشیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق منانا ہو گا اور غمی کو آپ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اپنانا ہو گا۔!!!!!