× Register Login What's New! Contact us
Results 1 to 3 of 3 visibility 4393

وقت دعا...................

  1. #1
    sabeel1's Avatar Limited Member
    brightness_1
    Limited Member
    star_rate star_rate
    Join Date
    May 2006
    Location
    Lahore Pakistan
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    19
    Threads
    14
    Rep Power
    0
    Rep Ratio
    65
    Likes Ratio
    0

    Post وقت دعا...................

    Report bad ads?

    وقت دعا...................
    سید قمر احمد سبزواریؔ
    دُنیا میں دو ہی نظریاتی ریاستیں ہیں ایک رحمانی اور دوسری شیطانی ،رحمانی ریاست پاکستان ہے جو اَمرِ الٰہی اور تائید مصطفیٰ ﷺ کی بدولت مسلمانان ہند کی قربانیوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آئی اسے مدینہ ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔جبکہ دوسری ریاست اسرائیل ہے جو شیطانی اور دجالی قوتوں کی مرہون منّت ہے ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی دشمنان اسلام کی سازشیں جاری ہیں اور ارض پاک میں نظام مصطفیٰ کی جگہ مغربی جمہوریت متعارف کروا دی گئی اور مسلمانان پاکستان کو جمہوریت کا بت پوجنے پر لگا دیا گیا اسلامی قانون کی بجائے انگریز کا غلامانہ قانون رائج ہے ۔اور موجودہ نئی حکومت جو نام نہاد جمہوریت کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے اس کے رہنمائوں نے تو حد کر دی آتے ہی بڑی ڈھٹائی سے قادیانی اور یہودی ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا ۔آسیہ ملعونہ جس نے گستا خی رسول کی تھی اور اپنے جرم کا اعتراف کیا جس کے نتیجے میں سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی اور لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو بر قرار رکھا ۔پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے حکومتی اور بیرونی دبائو میں اس کی رہائی کا پروانہ جاری کر دیا اورجان بوجھ کر یہ فیصلہ عین 31 اکتوبر کو سنایا جو شہید ناموس رسالت غازی علم دین شہید کا یوم شہادت ہے۔آسیہ ملعونہ کے فیصلے سے ویٹیکن کو خوش کیا گیا اور لعنت کا طوق اپنے گلے ڈال لیا گیا ۔کیونکہ آسیہ ملعونہ کو اکتوبر 2017ء میں سخاروف ایوارڈ کیلئے منتخب کیا گیا تھا یہ ایوارڈ آزادئ اظہار رائے پر دیا جاتا ہے اسطرح آسیہ ملعونہ کی صورت میں ہم نے ایک اور ملالہ دشمنان اسلام کو دیدی ہے جو رہائی کے بعدپوری دنیا میں جاکر اسلام اور توہین رسالت قانون کیخلاف تقریریں کر تی پھرے گی ۔اس فیصلے کے پس منظر پر نظر ڈالی تو واضع ہو گیا کہ 22 جنوری 2018ء کے انگریزی روزنامہ ڈیلی بزنس ریکارڈر میں یہ خبر تھی کہ آئی ایم ایف نے قرضہ کو آسیہ ملعونہ کی رہائی سے مشروط کیا تھا ۔فیصلے سے 20 روز پہلے وزیر اعظم سے آسیہ ملعونہ کا وکیل اور پاکستان کے عیسائی فرقوں کے نمائندہ وفد نے ملاقات کی اس ملاقات کا کیا مقصد تھا یہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے ۔27 اکتوبر 2018ء کو ایک مبیّنہ اسرائیلی طیارے کا سلام آباد ائیر پورٹ پر لینڈ کرنا اور 10 گھنٹے بعد اڑان بھرنا کس لیے تھا ؟۔مولانا سمیع الحق کی 2 نومبر2018ء کی صبح حکو مت کیخلاف تقریر اور آسیہ ملعونہ کی رہائی پرحکومت اور عدلیہ کی مذمت اور شام کو ان کا بہیمانہ قتل بھی سب کچھ کہہ رہا ہے ۔تحریک لبیک کی قیادت کو پابند سلاسل کرکے ناموس رسالت کے ہزاروں پروانوں کی گرفتاری ،اذیتیں دینا اور ایک عالم دین مولانا یو سف قادری کی زیر حراست موت سب کچھ کھل کر واضح کر رہی ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔ پاکستان کی ؑعدالت سے تو یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق ہی بازی لے گئی جس نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی آزادیٴ اظہار نہیں کیونکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی اورامن خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے حضورنبی کریمﷺ کے لیے توہین آمیزکلمات کہنے والی آسٹریا کی ای ایس نامی خاتون کے خلاف سزا کے فیصلے میں کہا ہے کہ پیغمبراسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کو آزادیٴ اظہار قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ گستاخی تعصب میں اضافے کی وجہ بن سکتی ہے جس کے باعث بین المذاہب امن بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ یورپی عدالت نے فیصلہ بھی دیا کہ یورپی یونین کے چارٹربرائے انسانی حقوق کی شق نمبر 10 کے تحت اس خاتون کے انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالت نے خاتون کوسزا دیتے وقت ان کے حقِ آزادیٴ اظہاراوردوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کے حق میں بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے جب کہ یہ فیصلہ مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا مقصد بھی جائز طور پر پورا کرتا ہے۔کیا یہ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کا فی نہیں۔
    قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی رکن ایم این اے عاصمہ حدید کی ڈھٹائی کیساتھ اسر ائیل کے حق میں قرار داد پیش کر نا اور قرآنی آیات کی غلط تشریح کر کے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دینا ۔وزیر اعظم کا ریاست مدینہ کا راگ الاپ کر پس پردہ یہود ونصاریٰ کی خوشنودی اور قادیانی مشیر رکھنا سب واضح کر رہا ہے کہ دینی قوتوں پر پابندیاں لگا کر انہیں جدو جہد تحفظ نامو س رسالت سے روکا جا سکے ۔ کرتار پور بارڈر کا کھولنا سکھوں سے زیادہ قادیانیوں کو سہولیات بہم پہنچانا ہے کیونکہ کرتار پور سے قادیان صرف 44 کلو میٹر کی دوری پر ہے ۔حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پوری قوم یک جان و یک قلب ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ کسی بھی مسلک کا کوئی بھی مسلمان اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پہ کٹ مرنے کو سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے ۔ہاں مگر یاد آیا حکومت وقت اور منصف اعلیٰ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک اور عدالت بھی ہے جہاں ہم سب کو حاضر ہونا ہے ، اور وہاں انصاف سے کم کوئی معیار نہیں ۔ ایسا شرمناک فیصلہ دینے والوں کو کل اس عدالت میں پیش ہونا ہے ، اور کہیں ایسا نہ ہو ان کا یہ فیصلہ کل اللہ تعالی کی عدالت میں انہیں رسوا و شرمسار کردے ۔حکمرانو! یاد رکھو ! اِس عدالت سے اُس عدالت تک کا سفر کچھ زیادہ طویل نہیں ہے ۔
    میرا وطن دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ الیکشن دکھاوا تھا۔ ایجنڈہ بیرونی ہے۔مسلمانان پاکستان کیلئے یہ وقتِ دعا ہے اور زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا وقت ہے۔
    اے خاصئہ خاصان رُسل وقت دُعا ہے
    اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
    chat Quote

  2. Report bad ads?
  3. #2
    MazharShafiq's Avatar Full Member
    brightness_1
    IB Oldtimer
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Sep 2016
    Location
    Pakistan
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    2,301
    Threads
    56
    Rep Power
    49
    Rep Ratio
    7
    Likes Ratio
    18

    Re: وقت دعا...................

    مولانا یحییٰ نعمانی *

    تحدید نسل (خاندانی منصوبہ بندی) کا فلسفہ

    اسلامی نقطہ نظر سے تحدید نسل کے مسئلہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میں پورے فلسفہ کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ غلط فہمیوں اور سماجی و معاشرتی حقائق سے ناواقفیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ مگر ان دنوں یہ تجربہ ہوا کہ پروپیگنڈے کے سامنے سچ بات میں طاقت کے ساتھ کثرت بھی ہونی چاہیے۔ اپنے لوگوں میں سے بہت سے لوگ متذبذب اور تردد کا شکار نظر آئے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ مسئلہ کی وضاحت کی جائے۔
    تحدید نسل کا فلسفہ:
    تحدید نسل Birth Controle جس کو اب بدل کر خاندانی منصوبہ بندی کا غلط نام دیا گیا۔ اس کا ایک پورا فلسفہ ہے۔ جس کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا گیاہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسا مسلمہ مسئلہ گیا ہے۔اس پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔
    وسائل زندگی کی قلت کا خطرہ:
    سب سے زیادہ زور دے کر جو دلیل ان حضرات کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں سکونت کی جگہ محدود ہے۔اگر آبادی تیزی کے ساتھ بڑھتی رہے گی تو بہت جلد وہ دن آجائے گا جب زمین بھر جائے گی' یا دنیا کی غذائی اور دیگر پیداوار انسانوں کی ضرورتوں سے کم رہ جائے گی۔ اور اس طرح آئندہ نسلوں کی زندگی کا معیار گرتا چلا جائے گا' اور وہ مناسب وسائل زندگی نہ پاسکیں گے' اور بڑی تنگی و غربت اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے مسائل مثلاً لوٹ مار سے دوچار ہوں گے۔
    یہی بات دائرہ کو سکیڑ کر ملکوں اور قوموں کے بارے میں کہی جاتی ہے' کہ اگر ملکوں کی اور خصوصاً تیسری دنیا کے گھنی آبادی والے ممالک کی آبادی یونہی بڑھتی رہی تو یہ ''ابل پڑیں '' گے' شدید غذائی کمی کے شکار ہوں گے' اپنی

    _________________________________________________
    *ایڈیٹر ماہنامہ ''الفرقان'' ٣١ نیا گائوں مغربی (نظیرآباد ) لکھنئو' انڈیا
    آبادی کو اچھی غذا' مناسب سہولیات زندگی اور اعلیٰ تعلیم نہیں دے سکیں گے۔
    اس دلیل کا نتیجہ ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ ساری انسانیت کے مفاد میں یہ بات ضروری ہے کہ آبادی کو فوراً بڑھنے سے روکا جائے یا کم سے کم بڑھنے دیا جائے' بلکہ ان کی تعلیم و تلقین تویہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کو موجودہ مقدار سے کم کیا جائے۔
    اگر قرآنی زبان میں بات کی جائے تو اس فلسفہ کو ''جاہلیت'' کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دنیا کو یہ اپنی عقل اور اپنی طاقت سے چلارہے ہیں ' لہٰذا پیدائش اور رزق کے معاملات بھی انہی کو انجام دینے ہیں اور خود ہی اس کا انتظام کرنا ہے۔ اس دنیا کا کوئی خدا ہے اور نہ کوئی چلانے والا۔ اور اگرکوئی ہے بھی تو نہ اس کے پاس عقل ہے اور نہ حساب لگانے کے لئے(Culculater) کلکولیٹر۔ اور یہ ذرا سا وجود رکھنے والے حضرات انسان ایسی عقل و دانائی کے مالک ہیں کہ اب انہوں نے کائنات کی منصوبہ بندی بھی اپنے ذمہ لے لی ہے۔
    کاش ان کو خبر ہوتی جس ذات عالی نے یہ دنیا بنائی اور انسان کواس کا بادشاہ بنایا وہ ایک سراپا علم و حکمت اور لامحدود قدرت وطاقت رہنے والی ذات ہے' وہ ا نسان کو اگر پیدا کررہا ہے تو اس کو رزق بھی دے گا' اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے کبھی رزق میں کمی نہیں کی ' ہمیشہ آبادی کے اضافے کے ساتھ وہ وسائل بھی بڑھاتا چلاگیا۔
    جس خدا نے کائنات کا ایسا دقیق ' پراسرار اور پراز حکمت نظام بنایا کہ جس میں نقطہ رکھنے کی گنجائش نہیں وہ انسانوں کو پیدا تو کرسکتا ہے مگر رزق نہیں دے سکتا؟ جس نے اس زمین میں انسانوں کے رزق کے لئے کیسے زبردست انتظامات کئے ہیں' سورج ' چاند ' ہوائیں ' زمین کی مٹی ' کیڑے مکوڑے اور نہ جانے کیا کیا سرگرم عمل ہوتے ہیں تو گیہوں کا ایک دانہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ خدا وسائل میں اضافہ کرنے پر قادر نہیں؟ اس کائنات کے لامحدود نظاموں کو دیکھئے وہ کس حکمت سے ان کو چلارہا ہے' پھر یہ رزق میں ہی وہ کیوں اضافہ نہیں کرسکتا۔ صرف نوع انسان کی بنیادی ضرورت پانی کے نظام ہی کو دیکھ لیجئے۔ اس نے اس کی سپلائی' ڈرینج اور صفائی (ریفائنری) کا کیسا نظام بنایا ہے۔ زمین میں سمندر کی شکل میں پانی کے لامتناہی خزانے رکھ دئیے۔ پھر اس کو سڑنے سے بچانے کے لئے نمک اور کشش کی طاقت سے اس میں حرکت و تموج رکھا۔ یہ قانون بنایا کہ پانی حرارت سے بخارات میں تبدیل ہوجاتاہے۔ ان بخارات کا وزن ہوا سے کم رکھا۔ پھر کم وزن کی چیزوں کے اوپر جانے اور بھاری چیزوں کے نیچے آنے کا قانون بنایا۔ اب اس نے ایک اور قانون بنایا کہ سورج کی شعاعیں جس چیز کے بیچ (Medium) سے گذریں اس کو گرم نہ کریں۔ اس طرح اوپر کی ہوا ٹھنڈی رہی نیچے کی ہوا زمین کی گرمی سے گرم ہوگئی۔ اب جب یہ بخارات اوپر کی سرد ہوا میں پہنچے تو ایک اور قانون حرکت میں آیا۔ بخارات سردی پاکر جم کر پانی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی طرح یہ قانون بنایا کہ سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف ہوائیں چلیں۔ اس طرح گرم علاقوں میں سمندر سے بادل اٹھ اٹھ کر پہنچیں۔
    اب جب بارش ہوتو اس نے زمین کو حکم دیا کہ وہ جذب کرکے اپنے خزانے بھی اُگلے او راپنے پیٹ میں پانی اسٹور کرلے تاکہ جب انسان چاہے پائوں کے نیچے سے کھود کر پانی نکال لے۔ موسم میں ضروری بارش کے بعد وہ بادل پہاڑوں کی چوٹیوں پر گئے اور وہاں اربوں گیلن پانی برف کی شکل میں اسٹور ہوگیا۔ جو دھیرے دھیرے پگھلے گا اور دریائوں کے راستہ پوری دنیا کو لگاتار سیراب کرتا رہے گا۔ دریائوں کے ذریعہ سپلائی کا یہ سسٹم سال بھر کام کرتارہے گا۔ اور یہی انسانوں کے ذریعہ پیدا کی گئی گندگی کو بھی سمندر میں لے جائے گا۔
    ایسی زبردست قدرت والا اللہ پیدا تو کردے گا مگر رزق اس کے بس کا نہیں؟ کیسا ظلم ہے؟ کیسی جہالت ہے؟
    وہ ہرچیز کو اپنے تناسب سے پیدا کرتا ہے اور کرے گا' اور مختلف ذرائع سے وہ دنیا میں آبادی او ررزق کا تناسب برقراررکھتا ہے۔ یہ اس کا اصول ہے کہ (عام طور پر) وہ ہرچیز ضرورت کے مطابق ہی پیدا کرتاہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ جس قدر وہ پیدا کرے گا ان کا وہ رزق بھی اتارے گا۔
    اگر انسانوں کی تعداد بڑھتی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق اتنے پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ اگر وہ اپنی قدرت کا کنٹرول باقی نہ رکھے تواس کی کچھ مخلوقات ایسی ہیں کہ ان سے ہی زمین بھر چکی ہوتی۔ حیوانات کے ماہرین بتلاتے ہیں کہ مچھلی کی ایک قسم (Star Fish) ایک مرتبہ میں ٢٠ کروڑ سے زائد انڈے دیتی ہے۔ اگر اللہ اس کی آبادی کو کنٹرول نہ کرے تو شاید چند سال میں نوع انسان کو زمین سے ہجرت کرنی پڑے۔
    اس مسئلہ کو اپنے سامنے کی چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ' کیا یہ ایک کھلی حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی میں اضافے کے ساتھ پیداوار اور وسائل معیشت میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آزادی کے ١٣ سال کے بعد ٦٠ء میں جب کہ آزاد ہندوستان کو اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے کافی کچھ موقعہ مل چکا تھا اس وقت کے معاشی حالات کا (جو بہت سوں نے دیکھے اور بہت سوں نے سنے ہیں) آج کے حالات سے مقابلہ کیجئے اور فرق ملاحظہ کیجئے۔اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کی کمیٹی کی طرف سے ہرسال ایک عالمی رپورٹ شائع ہوتی ہے۔ میں نے اس کی ١٩٩٧ء کی رپورٹ دیکھی ہے۔ اس میں پورا انڈکس دیا گیا ہے کہ کس طرح پوری دنیا کی پیداوار میں آبادی کے مقابلہ میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ دور مت جائیے اب سے ٢٤ سال پہلے ٨٠ء میں ہندوستان میں عام طور پر ایک کھیت میں جتنا غلہ پیدا ہوتا تھا' نئی ٹیکنیک اور ایجادات کی بدولت اب اس سے ٤ گنے سے بھی زیادہ پیدا ہوتاہے۔ جب کہ آبادی اس سے کافی کم بڑھی ہے۔
    ہمارے بچپن میں انار لکھنئو میں امین آباد کے چوراہے پر ایک دو دوکانوں پر ہی ملتا تھا۔شاید چوک اور حضرت گنج میں بھی دیدار ہوجاتے ہوں' اب ہرگلی کوچے میں بے عزت ہورہا ہے۔ وہ مالک رزاق عالم ہے۔ ضرورت کے اعتبار سے اپنے علم کے مطابق پیدا فرماتا ہے۔
    اس زمین میں رزق کے اللہ نے کس قدر خزانے رکھ دیئے ہیں' اور اس میں اضافے کے کیا کیا امکانات ہیں اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے (اور یہ یقینا پورا اندازہ نہیں ہوگا) کہ اقوام متحدہ کی ١٩٩٧ء کی غذائی صورت حال کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے مقابلہ ہالینڈ میں گندم فی ایکڑ پانچ گنا اور چاول ٤ گنا زیادہ پیدا ہوتا ہے' اور یہ صرف اعلیٰ انتظامات اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
    کس طرح ان بے خبروں کو بتلایا جائے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لئے اصل مسئلہ پیداوار کی کمی کا نہیں زیادتی ہے' ہرسال امریکہ اپنے فاضل آلووں اور غلہ کو دریا برد یا نذر آتش کرنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اکثرملکوں میں بے شمار مقدار میں غلہ گوداموں میں پڑا ہوا ہے۔
    زمین میں اللہ کے فضل سے رزق کی بہتات ہے' اور یہ جب ہے جب کہ ابھی بھی زمین کا وہ حصہ جومحنت کرکے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے' یا جو قابل کاشت ہونے کے باوجود بیکار پڑا ہے۔ اس حصہ سے چار گنا ہے جس میں کاشت ہورہی ہے۔
    دیکھئے کتے کے یہاں سال میں دو مرتبہ ولادت ہوتی ہے اور ایک مرتبہ میں ٦ سے ٨ تک۔ اس کا کوئی مصرف نہیں ہے۔ اگر اسی اعتبار سے تعداد بڑھتی رہتی تو زمین کب کی بھر چکی ہوتی۔اس کے بالمقابل بکری کے یہاں سال میں ایک مرتبہ ولادت ہوتی ہے اور صرف دو بچے ہوتے ہیں' پھر بکرا بے تحاشہ ذبح ہوتا ہے ۔ مگر تعداد کم نہیں ہوتی! آخر کہاں سے روزانہ اکیلے ہندوستان میں ذبح ہونے کے لئے لاکھوں بکرے آجاتے ہیں؟
    پہلے گھوڑے کی سواری ہوتی تھی' اور ہر شریف اور اوسط درجے کے گھرایک گھوڑا ضرور بندھتا تھا۔ پھر گاڑیوں اور اسکوٹروں نے گھوڑے کی ضرورت ختم کردی' اللہ نے نسل بھی کم کردی۔ نہ اس وقت کمی تھی نہ آج زیادتی۔
    غرض اس طرح کی نہ جانے کتنی مثالیں ہم اپنے سامنے کی دنیا سے بیان کرسکتے ہیں۔ کچھ یاد ہوگا کہ اب سے دودہائی پہلے مرغ کس قدر کم دستیاب تھا۔ ضرورت بڑھی تو اللہ نے مرغ کی ایسی نسلیں پیدا کیں جو سوائے گوشت کے اور کسی مصرف کی نہیں ' مشینوں سے جتنا چاہے پیدا کرلیجئے اور ایک ماہ یا دو ماہ میں اتنا بڑا اور پُرگوشت مرغ تیار جو پہلے ڈیڑھ سال میں بھی نہیں ہوتا تھا' یہی حال انڈے اور مچھلی کا ہے' یہ سب کس علیم و قدیر کی خلاقی ورزاقی ہے؟ مگر جن لوگوں نے اس حکیمانہ نظام کا خالق اندھی ' بہری فطرت (Nature) کوسمجھ رکھا ہے وہ اس کھلی حقیقت کو دیکھنے سے معذور ہیں۔ اور اسی لئے دنیا کو چلانے کے برتھ کنٹرول قسم کے انتظامات کرنا چاہتے ہیں۔
    ایک اور حوالے سے اس حقیقت کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آزادی کے وقت ہندوستان کی آبادی آج سے تقریباً ایک تہائی کے قریب تھی' اب کوئی تین گنی ہوگئی ہے۔ اور یہی نہیں کہ کوئی معاشی تباہی نہیں آئی بلکہ فی کس آمدنی ٤ گنی سے زائد ہوچکی ہے۔
    بہرحال یہ تو واضح ہے اور یقینی اور قطعی تجرباتی حقیقت ہے کہ عمومی طورپر عام انسانیت کے لئے اور خصوصی طور پر ملکوں اور قوموں کے لئے آبادی کی کثرت ایک معاشی اثاثہ (Asset) ہے نہ کہ معاشی بوجھ(Liability) ہمارے یہ دانشور نہ جانے کس زمانے میں رہتے ہیں' مغرب میں Colin Clark اور Afk Organski سے لے کر نہ جانے کتنے Demographic Economics کے ماہرین نے یہ بات مان لی ہے کہ (تجربوں کی شہادت اور گہرے تجزئیے کے مطابق) آبادی میں اضافہ معاشی ترقی اور مختلف حوالوں سے مفید ہی ثابت ہوتا ہے۔ ان کے جائزوں اور مطالعوں کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی طور پر سرگرم کثیرآبادی Economically Active Population (EAP) انسانی معاشیات اور ملکی اقتصادیات کے لئے غیر معمولی طور پر مفید اور Productive ہوتی ہے۔
    اب آئیے ایک اور پہلو دیکھتے ہیں ' قدیم زمانے میں روزگار کے ذرائع کس قدر محدود تھے' زراعت اور نہایت محدود تجارت' اور صنعتِ نہایت ابتدائی درجہ کی ' جوصرف ہاتھ سے ہوتی تھی' شہروں میں مزدوری اور اجرت پر عمل بھی ایک محدود دائرہ تھا۔پھر ایک وقت وہ آیا کہ زمین نے کالے سونے یعنی پیٹرول کے خزانے اگلنے شروع کئیے' جس سے نہ جانے کتنی پیداوار بڑھی اور زمین پر اقتصادیات کا کتنا بڑا انقلاب آیا۔ا سی طرح کالدارمشین کی ایجاد نے انسان کو بڑے پیمانوں پر کاروبار اور پیداوار کے وہ ذرائع دیے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔ اب بلا شک روایتی ذرائع آمدنی کے مقابلے میں یہ نئے ذرائع زیادہ لوگوں کو اپنے لئے وسائل زندگی حاصل کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔
    اعداد وشمار کی زبان میں اس حقیقت کو جاننا چاہیں تو ایک معمولی سی اور چھوٹی سی مثال سے سمجھیں۔ ٢٠٠٤ء میں ہندوستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا میدان ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دے رہا ہے۔ اور اس میں ٹیلی کمیونیکیشن کا شعبہ شامل نہیں ہے۔ جس میں پبلک سیکٹر ' پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں اور چھوٹی سطح کے ڈسٹری بیوٹرس اور پی سی او مالکان کو ملا کر تقریباً پچاس لاکھ لوگوں کو روزگار مل رہے ہے ۔ ١٩٨٠ء میں ان شعبوں میں آج کے مقابلہ میں ایک فیصد سے بھی کم روزگار تھا یعنی ملک کی آبادی میں اضافے کے ساتھ نئے نئے روزگار کے میدان بھی سامنے آرہے ہیں۔ غرض آبادی میں اضافے سے غربت میں اضافہ وہ فریب ہے جو غافلوں ہی کو دیا جاسکتا ہے' یا پھر پروپیگنڈے کے زور سے ہی منوایا جاسکتا ہے ۔
    اصلا مسئلہ معاشرتی اور اخلاقی ہے:
    اصل میں یہ فلسفہ اور تھیوری مغرب میں بھی اپنے خالص اقتصادی دلائل کی وجہ سے فروغ نہیں پاسکی تھی' بلکہ اس کے تو کچھ اور ہی اسباب تھے۔ پہلے پہل جب مالتھس نے اس کی دعوت دی تو کسی نے اس پر کان نہیں دھرا' لیکن بعد میں یورپ میں جو تہذیبی و معاشرتی انقلاب فرانس کے انقلاب اور صنعت اور مشین کے فروغ کے بعد آیا اس نے پے درپے ایسے اسباب پیدا کئے کہ ولادت اور بچے مغربی انسان کے لئے ایک مسئلہ بن گئے۔
    جدید مغرب کے شہری تمدن میں عیش پسندی اور مادہ پرستی نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی۔ انسان نے سادگی کو خیرباد کہا۔ خواہشات اور تمنائیں بہت بڑھ گئیں' غریبوں نے امیروں کے سے خواب دیکھنے شروع کردئیے۔ مال کی نمائش بڑھ گئی' قناعت حماقت قرار پائی' خود غرضانہ نقطہ نظر اور انفرادی مزاج عام ہوا ' ہر شخص اپنی لذت اندوزی اور عیش کوشی کو مقصد حیات سمجھنے لگا۔ آزادی کا مادر پدر آزاد تصور لیلائے خیال بنا' مال کے حصول کی ایک ہوڑا اور نہ بجھنے والی پیاس پیدا کی گئی۔ اور ان امراض کو کنٹرول کرنے والے اخلاق و مذہب کے توتصور کو بھی ذبح کردیا گیا۔ ان حالات میں مغربی انسان کونظر آیا کہ وہ جوکماتا ہے وہ تو اس کی اپنی پیاس کو بجھانے کے لئے کافی نہیں ہورہا' وہ جتنا کماتا ہے اس سب کو لٹا کر بھی اس کو وہ عیش نہیں مل سکتے جو اس کے آئیڈئل سرمایہ داروں کو حاصل ہیں۔ لہٰذا اس کی آمدنی میں سے بچوں کا حصہ کہاں سے نکلے گا۔ پھر بچے ہوں گے تو اس کے اوپر ان کی بھی سماجی ذمہ داریاں ہوں گی۔ پھر اس کے پاس اپنی عیاشی اور رنگ رلیوں کے لئے وقت کہاں سے آئے گا۔
    اس معاشرت اور انداز فکر کو (فطری ترتیب کے مطابق) خوشحال لوگ اختیار کرتے گئے' یہاں تک کہ یہ سماج کا عام کلچر اور فکر بن گیا ' مادہ پرستی او رعیش کوشی کی اس تہذیب میں عورت کو بھی نئی نئی پیاسیں لگتی رہیں۔ مرد کی آمدنی اس کے لئے ناکافی ثابت ہوئی' خوابوں کے جزیروں تک پرواز کے لئے اس نے بھی ملازمت کی ' اقتصادی دوڑ میں وہ بھی شامل ہوئی' اس کو اپنے خاندان کے اقتصادی بوجھ میں بھی حصہ بٹانا تھا اور اپنی ذاتی تمنائوں اور آرزئوں کے لئے بھی کماناتھا' اس کے سامنے بھی پڑوسی کی ارو شہرکی بڑی بڑی میم صاحبات اور ان کے عیش و عشرت کے آدرش تھے' اب وہ گھر کا بار کیوں اٹھائے؟ کہاں تک بچوں کے جھمیلوں میں پڑے؟ حمل و ولادت کی تکلیفوں اور رضاعت و پرورش کے مسئلوں اور گھر بار کی ذمہ داریوں کے ساتھ اس کے لئے اس عیش وعشرت اور تفریح کی کہاں سے گنجائش نکل سکے گی جس کی تمنائوں میں وہ صبح و شام کرتی رہی ہے۔ اور جس کے خوابوں میں وہ جوان ہوئی ہے؟
    پھر بے حیائی اور بدکاری کے سیلاب نے (معاذاللہ) عورت کو ہروقت ایک نئے مرد کے استقبال کے لئے تیار رہنے کا جذبہ دیا' ان آزادیوں میں اولاد بری طرح حائل ہوتی ہے' اب اس سے بچنے کاصور شیطان نے پھونکا' اس طرح ایک تعداد تو مستقل طور پر لاولد ہی رہتی ہے۔ یا کبھی بڑھاپے کی دستک پا کر اس بوجھ کے لئے بھی تیار ہوجاتی ہے۔
    بالآخر اس تمدن نے انسانیت کو سماجی نظام سے محروم کرہی دیا۔ رفتہ رفتہ اس تہذیب کی راہ میں ''خاندان کی منصوبہ بندی'' ایک منزل نہیں مرحلہ اور سفر کا پڑائو ثابت ہوئی' اور اب تو نوبت باینجارسید کہ مغرب میں خاندان ہی کا وجود نہیں بچ رہا' منصوبہ بندی کس کی کی جائے؟
    _____________________________
    وقت دعا...................

    27y9utc 1 - وقت دعا...................
    chat Quote

  4. #3
    azc's Avatar Full Member
    brightness_1
    IB Oldskool
    star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate star_rate
    Join Date
    Jan 2016
    Gender
    Male
    Religion
    Islam
    Posts
    7,057
    Threads
    391
    Rep Power
    69
    Rep Ratio
    34
    Likes Ratio
    35

    Re: وقت دعا...................

    چینی مسلمان اپنی ہی حکومت کے ظلم کا شکار ہیے انہیں دین سے دور کیا جارہا ہیے لیکن پاکستان اسلام کے دشمن کو اپنا سبسے قریبی دوست مانتا ہیے
    chat Quote


  5. Hide
Hey there! وقت دعا................... Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, we remember exactly what you've read, so you always come right back where you left off. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and share your thoughts. وقت دعا...................
Sign Up

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •  
create