images.jpg

شرک جلی او رشرک خفی کسے کہتے ہیں؟
محمد رفیق اعتصامی
ارشاد باری تعالیٰ ہے”بیشک شرک سب سے بڑا ظلم ہے“(القرآن)۔شرک کی تعریف کیا ہے اور اسکی کتنی قسمیں ہیں؟تو ازروئے شرع شرک کی دو قسمیں ہیں شرک جلی اور شرک خفی۔
شرک جلی کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی اور کو شریک کیا جائے مثلاًیہ عقیدہ رکھا جائے کہ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ معبود بر حق اور لائق پرستش ہے اور جس طرح وہ روزی دیتا ہے، ضروریات وحاجات کو پورا کرتا ہے او ربارشوں کا برسانا، ہواؤں کا چلانا، زندگی اور موت دینا یا کسی کی مشکلات کو حل کرنا وغیرہ بعینہ یہ کام تو فلاں دیوی،دیوتا،سورج چاند یا آگ وغیرہ بھی کر سکتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور چیزوں کو بھی نفع ونقصان کا مالک سمجھنا شرک جلی ہے۔
اور شرک خفی کیاہے، یہ جاننے سے پہلے چند اصولی باتیں بیان کرناضروری ہیں وہ یہ کہ کائنات میں حکم صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی چلتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے”حکم تو صرف اللہ تعالیٰ کا ہے“ اور”پہلے بھی اسی کا حکم ہے اور بعد میں بھی اسی کا“اور”اللہ ہی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں“القرآن۔
اور حکم کی تین قسمیں ہیں، پہلی یہ کہ کسی کام کو کرنے کاحکم دینا مثلاً”نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرواورزناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ“ وغیرہم، اور دوسری قسم یہ ہے کہ کسی حکم کا نافذ کرنا ارشاد باری تعالیٰ ہے”بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہیں کرتے ہیں“۔ اسکی مثال یہ ہے کہ زندگی و موت دینایا کسی کو کوئی نفع یا نقصان پہچانا وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہوجاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں پڑتی۔
اور حکم کی تیسری مثال یہ اشیاء مثلاً کسی دوا یا غذا میں کسی قسم کی تاثیر پیدا کرنا، دوا دینے سے مریض اچھے بھی ہوجاتے ہیں اور نہیں بھی ہوتے اگر دوا میں بذات خود شفا دینے کی تاثیر ہوتی تو دنیا میں کبھی کوئی شخص بیمار نہ پڑتا مگر ایسا نہیں اور دوامیں اثر اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوتا ہے، اسی طرح کھانا بھوک مٹانے اور پانی پیاس بجھانے میں بھی اللہ کے حکم کامحتاج ہے۔
یہ جاننے کے بعد اب شرک خفی کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص نے کھانا کھایا یا کوئی اور چیز کھائی تو اگر حکم خداوندی کے تحت اسکا اثر صحیح نہ ہوا تو اس نے کہا کہ میں نے فلاں چیز کھائی تو اس سے مجھے یہ مرض ہو گیا یا یہ تکلیف پہنچ گئی اگر میں یہ نہ کھاتا تو شائد ٹھیک رہتا؟
تو اصل میں تو فاعل حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ ہے مگر اس شخص کا اعتقاد یہ تھا کہ ان چیزوں کی وجہ سے مجھے یہ نقصان پہنچا ہے۔اسی طرح اگر کھانے کی حاجت ہو تو روٹی کا خیال ذھن میں آتا ہے اور پیاس بجھانے کیلئے پانی کا خیال ذہن میں آتا ہے، حالانکہ یہ دونوں بھوک اور پیاس مٹانے کے وسیلے ہیں اور حکم خداوندی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔
اصل بات یہ ہے کہ دین اسلام شرک کی تمام قسموں کی جڑ کاٹ دینا چاہتا ہے اور کسی بھی حالت میں اسے جائز نہیں رکھنا چاہتا۔لہٰذا ہونا یہ چاہئیے کہ جب بھی روٹی پانی یا کسی غذا یا دواکی حاجت ہو تو اسے پورا کرنے والے فاعل حقیقی (اللہ تبارک و تعالیٰ) کا تصوّر ذہن میں آنا چاہئیے اور پھر اللہ تعالیٰ کا حکم اورنبی پاکﷺ کی سنّت مبارکہ سمجھ کر انھیں استعمال کیا جائے۔
تو شرک خفی یہ ہے کہ چیزوں کو نفع و نقصان دینے میں فاعل مختار مانا جائے، دوسرے الفاظ میں اسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہ شخص جو ان چیزوں کی تاثیر کو مستقل اور دائمی سمجھتا ہے اس کی بھوک مٹانے والا ایک ”خدا“ روٹی ہے اور پیاس بجھانے والا”خدا“ پانی ہے اور اسی طرح شفا دینے والا ”خدا“ دوا ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق”ہر کام اللہ سے ہوتا ہے اور اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا۔“
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شرک کی دونوں اقسام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔