ansan2.JPG

انسان بیک وقت فرشتہ بھی ہے اور گمراہ بھی ہو سکتا ہے

محمد رفیق اعتصامی


ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ”یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے یہ کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں تو انھوں نے کہا کہ کیا آپ ایسے شخص کو خلیفہ بنائیں گے جو زمین میں فساد برپا کرے گا خون بہائے گا او ر ہم جو آپ کی تسبیح اور تقدیس کیلئے کافی ہیں تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے“ (القرآن)۔
اور انسان کوجس مادہ سے پید ا کیا گیا تو اس بارہ میں قرآن میں مذکور ہے ”اور بنایا ہم نے انسان کو کھنکھناتے سنے گارے سے اور جنّا ت کو بنایا ہم نے اس سے پہلے لَو کی آگ سے“ (سورۃ الحجرات:27)۔
تفسیر میں لکھا ہے کہ یہاں انسان کی پیدائش کے بارہ میں دو لفظ ارشاد فرمائے،صلصال(بجنے والی کھنکھناتی مٹی جو آگ میں پکنے کے بعد اس حالت کو پہنچتی ہے اسکو دوسری جگہ کا لفخارفرمایا اور حماء مّسنون سڑا ہوا گارا جس سے بدبو آتی ہو۔
خیال یہ ہے کہ اوّل سنے ہوئے گارے سے انسان کا پتلہ تیارکیا گیا اور پھر جب وہ خشک ہو کر اور کھن کھن بجنے لگا وہی انسان کا بدن ہو ا اور اسکی خاصیّتیں سختی اور بوجھ اس میں رہ گئیں اور کسی درجہ اسے آگ میں بھی پکایا گیا یہی ناری جزو انسان کی شیطانی طبیعت کی خا صیّت کا سبب ہے، تب اسے مختلف منازل سے گذارا گیا اور پھر وہ ا س درجہ کو پہنچا کہ اس میں روح پھونکی جائے (تفسیر القرآن از علاّمہ شبّیر احمد عثمانیؒ)۔
انسان کو جس مادہ سے بنایا گیاہے ان آیات میں اسکی حقیقت بیان کی گئی ہیں کہ ایک تو اس میں بوجھ ہے جسکی
خاصیّت یہ ہے کہ وہ نیچے کی طرف گرتا ہے یعنی اس میں گرنے کے امکانات ہیں ایک تو جسمانی لحاظ سے یعنی بوجھ کی وجہ سے اور دوسرا روحانی یعنی اخلاقی لحاظ سے!
کیونکہ ایک تو نفس امّارہ جوکہ انسان کے جسم کا ایک حصہ ہے اور دوسرا شیطان ابلیس، جو ازروئے حدیث انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے، یہ دونوں ا نسان کے پیچھے سائے کی طرح لگے ہوئے ہیں اور اسے گمراہ کر نے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
آپ نفس اماّرہ کی چالوں اور شیطان کی انسانوں کو گمراہ کرنے کی مثال تاریخ میں ملاحظہ کرلیں چاہے وہ کسی بھی رنگ نسل اور ذات پات کے لوگ ہوں سب میں ایک چیز مشترک ہے وہ یہ کہ اپنے فائدے کی چیزوں کے حصول کیلئے قتل و غارت گری کرنا، فساد برپا کرنا اور آخری حد تک جانا وغیرہ۔
سب سے پہلاقتل قابیل نے جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کا بیٹا تھا اپنے بھائی ہابیل کا کیا جو ایک عورت کی بناء پر تھا اس کے بعد آپ دیکھیں کہ صحابہ کرام جیسی نیک ہستیوں کے درمیان اہل سنّت و الجماعت کے مطابق کہیں علم کی کمی یا اجتہاد کی کمی کی وجہ سے جو باہمی جھگڑے یا جنگیں ہوئیں انھیں بنیاد بنا کر مسلمانوں کا ایک طبقہ صحابہ کرام ؓ پر تنقید کرتا ہے اور انھیں اپنی عدالت میں لا کر ان پر فرد جرم عائد کرتا ہے اور انھیں برا بھلا کہتا ہے۔
قرآن پاک میں ایک صاحب تصرف بزرگ اور درویش جسکا نام بلعم بن باعورا تھا اور جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا، عورت کے لالچ اور پیسوں کے عوض حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں اپنے ناپاک تصرفات چلانے لگا، اسکا عبرت ناک انجام قرآن پاک میں مذکور ہے۔
تاریخ کے مطابق اقتدار کے حصول، زر، زن اور زمین کی وجہ سے کتنی انسانی جانیں ضائع ہوئیں او ر ہوتی ہیں، ا ن سب باتوں کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انسان کی پیدائش جس مادہ سے ہوئی اور اس کی خا صیّت کیا ہے؟
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سارے انسان ایک جیسے نہیں ہوتے، انسانوں میں انبیآء علیہم السلام جیسی پاکباز ہستیاں پیدا ہوئیں اور صحابہ کرامؓ، غوث قطب ابدال اور اولیاء کرام پیدا ہوئے۔اور عقیدہ کی بات یہ ہے کہ انبیآء معصوم یعنی ممتنع عن الخطاء ہوتے ہیں اور شیطان ان پر تصرف نہیں کر سکتا کیونکہ انکی عصمت
کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہوتی ہے اور اولیاء کرام محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”میرے بندوں پر تیرا زور نہیں چلے گا“ (القرآن)۔
لہٰذا اس مضمون میں انسانی فطرت کا عمومی طور پر جائزہ لیا گیا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اکثر نفس و شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے اور شریعت کے خلاف کام کرنے لگتا ہے مگر ازروئے قرآن اگر وہ اپنے آپکو ستھرا کرنا چاہے تو ایسا بھی کر سکتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے”تحقیق وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے آپ کو ستھرا کیا،ذکر کیا اور نماز پڑھی مگر تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے‘‘ (الغا شیہ پ:30)۔
لہٰذا بندہ کیلئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ خود کو نفس اماّرہ اور شیطان ابلیس کے داؤ سے محفوظ رکھے او ر اس کیلئے ہر ممکن کوشش کرے اور عاجزی و انکساری سے کام لے اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرے تاکہ وہ بلندی سے پستی کی طرف گرنے سے بچ جائے۔