بائیس جون 2022 کراچی شہر میں موسم کی پہلی بارش ہوئی۔ اس بارش کا انتظار مجھے ہفتوں سے تھا۔ عصر اور مغرب کے درمیان فضاء نارنجی اور گرد آلود ہو گئی۔ جیسے کسی آندھی کی آمد آمد ہو۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں اور پھر بعد از مغرب بارش کا آغاز ہوا۔ کار پورچ میں سے گزر کر، بھیگتے ہوئے، میں نے اللہ کا نام لے کر پاور جنریٹر اسٹارٹ کیا، کیوں کہ حسب توقع بجلی چلی گئی تھی۔ یہ جان جوکھم والا کام میں پہلے بھی کرتا رہا ہوں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اللہ نہ کرے الیکٹریکیوشن کا امکان ہے، مگر پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر جنریٹر چلانے میں لگ جاتا ہوں۔

موجودہ دور میں فیول کی قیمت جس تیزی سے بڑھی ہے، اس کے مد نظر پیٹرول سے جنریٹر چلانا ایسے لگتا ہے جیسے اپنا خون جلانا۔ اس لیے ہم جیسے متوسط طبقے کے لوگ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ گیس سے جنریٹر چلایا جائے۔ پرسوں ظالموں نے کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے ویسے ہی تقریباً پورا دن بجلی موقوف رکھی۔ اس کے بعد رات میں اپنے شیڈیول کے مطابق لوڈ شیڈنگ کرنا بھی نہیں بھولے۔ اس صورت حال کے پس پردہ عوامل پر بات کرنے کا بالکل حوصلہ نہیں ہے، کیوں کہ زمانے کے ستم سہہ سہہ کر ہم پک سے گئے ہیں۔ بقول مرزا غالب

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

موت کا نام لیا تو ہمیں ڈاکٹر عامر لیاقت کی ناگہانی موت کی یاد آگئی۔ اچھا بھلا انسان تھا، زمانے کے رنگ میں رنگا گیا۔۔ ایک وقت آیا لوگ اس سے شدید نفرت کرنے لگے، کئی اس کی ذاتی زندگی میں مخل ہو کر وقت گزاری کرنے لگے۔ پھر وہ اچانک سے مر گیا۔ جو اس پر پھبتیاں کسا کرتے تھے، اب سوگ منانے لگے۔ یہی زندگی ہے، یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ اپنا صرف وہ ہے جسے ہم بمشکل اپناتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا جب وصال ہوا چاہتا تھا، آپ فرما رہے تھے

الٰھم الرفیق الاعلیٰ

انسان اپنی شہرت، دولت، رشتے دار، دوست احباب سب چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔۔ صرف اللہ ہی واحد سہارا ہے۔