بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

عزیز دوستوں!۔
ہمارا معاشرہ روز بروز زوال پذیر ہوتا جارہا ہے اس کا ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ پُر فتن اور پُر خطر ہے ہر کوئی دو کشتیوں کا سوار نظر آتا ہے اور دل میں یہ آرزو سمائے ہوئےہے کہ میرا ایمان بھی برقرار رہے اور اعتدال پسند، روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے میں میری عزت بھی بحال رہے اگر میں روشن خیالی کی رو میں بہہ کر اپنی ذاتی زندگی میں کوئی تبدیلی لاؤں مثلا داڑھی شیو کروں، شلوار، پاجامے سے لڑکیوں کی طرح اپنے ٹخنے ڈھانپ لوں یا گھریلو زندگی میں تبدیلی آجائے جیسے کیبل، نیٹ، ڈش انتینا، وی سی آر وغیرہ کا بے دریغ استعمال اور اپنی بیوی، بہن، بیٹی کو بے پردہ بازار یا مخلوط پارکوں میں سیر وتفریخ کی غرض سے لے جانا، گھر میں غیر محرم حضرات کا بلاجھجک آنا جانا (کیونکہ کے ان کے نزدیک روشن خیالی کا تقاضا ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ قدم بہ قدم چلیں!) تو کوئی اسلام پسند مجھے یہ نہ کہہ دے کہ یہ خلافت شریعت ہے اور اگر میں کبھی کبھار نماز یاجمعہ پڑھ لوں تو کوئی اعتدال پسند مجھے مُلا، انتہا پسند نہ کہہ دے بس اس کے درمیان درمیان زندگی کی گاڑی چلتی رہے یہ مختصر ساخاکہ ایسے حضرات کا ہے جو دنیا، معاشرہ، برادری وقبیلہ کے تقاضے تو یارکھتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔

عزیز دوستوں!۔
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ!۔
يَـٰۤأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِی ٱلسِّلۡمِ ڪَآفَّة
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے(البقرۃ۔٢٠٨)۔۔۔

یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر والی زندگی اللہ کو قطعا پسند نہیں یا پھر شریعت کی جو بات طبیعت و معاشرہ کے موافوق ہو اس پر عمل کرنا اور وجو اس کے برعکس ہو تو اسے ترک کر دینا یہ بھی عنداللہ مذموم کام ہے۔۔۔ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔

أَفَتُؤۡمِنُونَ بِبَعۡضِ ٱلۡكِتَـٰبِ وَتَكۡفُرُونَ بِبَعۡضِِۚ فَمَا جَزَآءُ مَن يَفۡعَلُ ذَٰلِكَ مِنڪُمۡ إِلَّا خِزۡیُُ فِی ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۖ وَيَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلَیٰۤ أَشَدِّ ٱلۡعَذَابِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُون
یہ کیا (بات ہے کہ) تم کتابِ (اللہ) کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو، خدا ان سے غافل نہیں(البقرۃ۔٨٥)۔۔۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔
لوگوں میں سب سے برا وہ شخص ہے جس کے دو چہرے ہوتے ہیں وہ لوگوں میں سے کسی کے سامنے ایک چہرے سے اور کسی کے سامنے دوسرے چہرے سے جاتا ہے (مسلم ٢٥٢٦ بعد حوالہ ٢٦٠٤ وترقیم دارالسلام ٦٦٣٠و مؤطا امام مالک۔٢؛٩٩١ حوالہ ١٩٣٠)۔۔۔

دورنگی چھوڑ دے یک رنگی ہوجا
سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا

وسلام۔۔۔
وما علینا الالبلاغ۔۔۔