/* */

PDA

View Full Version : Pray to Allah



Intelligent
02-10-2009, 07:39 AM
مقصد كا سمجھ آنا!!

آئیے اپنا فرض سمجھیں !!

معزز قارئین و قاریات! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ برکاتہ

امید ہے کہ آپ بخیرو عافیت ہونگے ، ترمذی کی ایک حدیث کا مفہوم ہے "جو آدمی صبح اٹھے تو صحیح سلامت ہو آفتوں سے محفوظ ہو ، ہاتھ پیر چلتے ہو ں ، جسم کے اعضاءقوی اور کام کرتے ہوں، اور اس روز کا کھانا اسکو میسر ہو تو گو یا اسے دنیا جہاں کی خیر و سعاد ت حاصل ہے"

عزیز بھائیو اور بہنو، ہم میں سے بیشترکو دنیا جہاں کی یہ خیر اور سعادت حاصل ہے بس یہ سوچنا شاید باقی ہو کہ لکھنے والے صبح شام ہمارا نام کس خانے میں لکھ کر لے جاتے ہونگے۔ شکرگزار یا نا شکرے!! ۔

ویسے عموماً اس خیر و عافیت کی قدر صرف اس وقت ہوتی ہے جب یکایک یہ ہاتھ سے جاتی رہے، آدمی اپاہج ہوجائے تو دنیااسکے لیے اندھیر ہوجاتی ہے کوئی زندگی بھر کا روگ لگ جائے تو مایوسی کے سیاہ بادل چھا جاتے ہیں اور آدمی سمجھنے لگتا ہے کہ اب کوئی نہیں جو اسکی دنیا روشن کرسکے انسان درحقیقت ظالم اور نادان ہے وہ کسی نعمت کا ادراک کرتا ہی نہیں جب تک اس سے چھن نہ جائے حالانکہ نعمت کا ادراک تو محض اس لیے مطلوب تھا کہ وہ اسکا کچھ شکر اداکرے ایسے ادراک اور خالی احساس کا کیا فائدہ جو وقت گزر جانے کے بعد پیدا ہو اور پھر دل کو حسرتوں کا روگ لگادے!!۔ جو نعمت ہاتھ سے جاتی ہی رہی اب لاکھ اسکا احساس کریں آپ اس پر شکر تو نہ کرپائے اب تو شکر نہیں صبر ہوگا۔ پر جو ظالم نعمت پر شکر تک نہ کرسکا و ہ مصیبت پر صبر کیا کرے گا۔ شکر اور صبر دونوں ہی عبادت ہیں بلکہ عباد ت کی جان ہیں پر ان دونوں عبادتوں کا اپنا اپنا وقت ہے اور اپنی اپنی جگہ ۔ غلط وقت یا غلط جگہ پر تو نماز بھی قبول نہیں !!! ۔

صاحبو! ہم سب انسان ہیں اورانسان حقیقت میں ظالم اور نادان ہے جب تک نعمت حاصل ہے یہ خوش رہتا ہے اس پر اپنا حق جتاتا ہے اتراتا ہے اور منعم کو تو گویا بھول ہی جاتا ہے کہ اس کا بھی کوئی حق ہے اور نعمت دے رکھنے سے اسکا بھی کوئی مقصد ہے اب بھلا ایسے نا شکرے کو خدا یاد دلانا ہو تو اسکی کیا صورت ہے؟ تا کہ یہ جو اسکے آسمان تلے رہتا ہے اور اسکی زمین پر اسکے فضل کا سہارا ٹیک کر چلتا ہے اپنی اوقات یاد کرلے سمجھ جائے کہ جس چیز کے بل بوتے پر یہ ٹھاٹھ کرتا ہے و ہ اسکی اپنی نہیں پرائی ہے یہ جن نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ان میں سے کسی ایک پر بھی اسکا حق نہیں یہی نہیں بلکہ جن ہاتھ پاؤں ، جن آنکھوں ، جن کانوں ، جس دل اور جس دماغ کے ذریعے یہ ان نعمتوں کا مزا اٹھاتا ہے اور ہر وقت مزے کرتا ہے وہ بھی اسکے اپنے نہیں ۔ یہ دیدہ دلیری محض پرائے مال پر عیاشی ہے جس کی دنیا میں کہیں گنجائش نہیں ۔ ایسی سینہ زوری چل جانے کی تو صرف ایک صورت ہے کہ اصل مالک نرا مجبور اور لاچا ر ہو،تب آدمی زبردستی اسکی چیز دبا رکھے پر جو زبردست اور زور آور ہو اسکے آگے دم بھلا کون مارتا ہے! اسکی چیز تو اسکی مرضی اور احسان مندی کے بغیر ایک لمحہ نہیں رکھی جاتی ۔ پھر یہ سارا کچھ جان کر جو کم ظرف ہر نعمت کا خود مالک بن بیٹھے اس پر اپنا حق جتائے، اترائے اور کہے یہ’ میری ‘ہے -حالانکہ اس سے پہلے یہاں کتنے آئے او ر کتنے گئے اس زمین پر نہ تو آج تک کوئی خود رہا اور نہ ہی وہ چیز جسے وہ میر ی کہتا ہے ہر کوئی مٹی کا تھا اور مٹی کی چیز بالا خر مٹی کو مل کر رہی ۔۔۔ تو آپ ہی بتائیں ایسے ناشکرے کو موت سے پہلے خدا یاد دلانے کی کیا صورت ہے؟ یہی نا کہ جو جو کچھ یہ ”اپنا“ سمجھتا ہے اور اس پر اپنی مرضی چلاتا ہے اس میں سے کوئی ایک چیز اسکی” اپنی“ نہ رہے! اس کو جو ہزار ہا نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے کوئی ایک آدھ ذرا اس سے چھن جائے!! تب جاکر اس کا ماتھا ٹھنکے کہ اگر وہ چیز اسکی ’اپنی‘ تھی تو پھر اسکی مرضی کے بغیر وہ چلی کیسے گئی ۔ بھئی مالک کی منشا کے بغیر چیز آخر جا کہاں سکتی ہے !پھر اگر اسکو مالک اور مزدور کا فرق سمجھ آجائے تو یہ سود ا مہنگا نہیں ۔ بھائیو خدا اپنی عافیت میں رکھے سچ پوچھیں تو یہ بھی ایسے انسان پر ایک نعمت ہوئی جو اسے باقی نعمتوں کی قدر و قیمت معلو م ہو اور چھن جانے والی نعمت پر اپنا ظلم یاد آئے۔ مگر ۔۔۔۔۔ انسان بہت ظالم اور نادان ہے ۔ اپنا قصور کب مانتا ہے الٹاخدا کو دوش دیتا ہے واویلا کرتا ہے اور شکووں سے خالق ہی کو بدنام کرتا ہے قسمت سے خدا ’یاد‘ بھی آیا تو گلے کرنے اور دھائی دینے کو! اپنا ظلم نہ تب مانے جب یہ ناشکرا تھا اور نہ اب مانے جب یہ بے صبر ا ہے!! ۔

الا المصلین سوائے بندگی کرنے والوں کے جو ہر حال میں اپنی اوقات یاد رکھتے ہیں ۔ اپنے خالق کا مقام جانتے ہیں ۔ اسکا حق پہچانتے ہیں اور یہ حق ادا کرنے کا خیال انکو صبح شام بے چین رکھتا ہے جو سب کچھ دے کر بھی سمجھتے ہیں کہ حق ادا نہ ہوا بھائیو اس نعمت کا نام ہدایت ہے جہاں میں ا س سے بڑی کوئی نعمت نہیں بس یو ں سمجھو ہدایت ایک سلیقہ ہے جس سے ہر نعمت کا حق ادا ہوتا ہے ہر دکھ میں سکھ کا پہلو نکل آتا ہے گویا اس نعمت کے اندر ہر نعمت ہے اور اسکے بغیر ہر راحت و بال جان عزیز و کچھ بھی مانگو تو ساتھ یہ نعمت ضرور طلب کرو یہ مانگنے سے بہت ملتی ہے اور دینے والادینے پر آئے تو بے حساب دیتا ہے ۔

اللّٰھم انی اسئلک الھدی والتقی والعفاف والغنی(صحیح مسلم)

قارئین:

آپ نے ملک میں مہنگائی اور ٹیکسوں کا رونا بہت سنا ہوگا یہ کوئی ایسا غلط ہے نہ اچھنبے کی بات ظلم کے نظام میں آخر توقع ہو بھی کس چیز کی سکتی ہے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کتنا کچھ آپکو بالکل مفت ملتا ہے کیا اسکی بھی کوئی قیمت ہے ؟ کوئی چیز آپکو مفت ملنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ سرے سے اسکی کوئی قیمت نہیں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ہو توآپکو بہت دکھتا ہے مگر صبح سے شام تک آپ کتنی ہوا پھونک لیتے ہیں کیا اسکا بھی کبھی آپ نے حساب کیا اگر اس پر بھی دام اٹھیں اور ٹیکس پڑیں تو آپ کیا کریں گے ؟ بجلی او رگیس کی طرح کیا ہوا کا استعمال بھی کم کرلیں گے ؟

پھر اشیاءخوردونوش اور روزمرہ استعمال کی ان چیزوں کو بھی لے لیجئے جوآپ بازار سے خریدتے ہیں انکے بھاؤ بڑھنے اور ان پر بھتے لگنے کی نوبت بھلا کب آتی ہے؟ تبھی نا جب یہ چیزیں انسانوں کے ہاتھ میں پہنچتی ہیں البتہ انکے پیدا کرنے والے نے تو کبھی انکے ”پیسے“ طلب نہیں کئے!!! اسکے پاس سے تو بھائیو سب مفت آتا ہے ۔۔مفت!!! ۔

اور یہ جو چیزوں کی’ قیمت ‘ہم جیب سے نکال کر دے دیتے ہیں یہ بھی بھلا کہاں سے آتی ہیں ؟غالباً اس کا جواب ہمارے پاس یہ ہوگا کہ یہ ہماری اور ہمارے باپ دادا کی خون پسینے کی کمائی ہے جواب برا نہیں ۔ اسباب کی دنیا میں جواب اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے مگر یہ اس سوال کا پورا جواب نہیں بھئی یہ کمائی ہوئی کیسے ؟ اور یہ خون پسینہ ، ساری دنیا کو ایک سا کیوں نہیں ملا؟ پھر جو بھوک سے لوگ مرجاتے ہیں انکا خون پسینہ کہاں چلا جاتا ہے وہ بے وقوف یہ کمائی کیوں نہیں کرلیتے !!؟اس کا جواب ہم کیا جانیں بھئی یہ توقسمت کے کھیل ہیں" اور’ کمائی‘ کے مواقع ؟" یہ سب چانس پر ہے" ویسے کمائی کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے ہاتھ پیر چلتے ہوں اور دل و دماغ صحیح کام کرتے ہوں۔۔۔ جی ہاں وہی چیز جسے اﷲ کے رسول نے دنیا جہان کی خیر و سعادت کہا ہے!!

قارئین و قاریات!

ہم میں سے بیشتر کو دنیا جہا ں کی یہ خیر اور سعادت حاصل ہے یہ فراغت ، یہ تن آسانی ، یہ صحت ، یہ جوانی ، یہ خوشیوں اور امنگوں سے بھری زندگی کتنی بڑی بڑی نعمتیں ہیں!بھلا آنکھ چلی جائے تو ’نئی ‘کتنے میں ’لگ ‘جاتی ہے ؟ سماعت جواب دے جائے تو مرمت کتنے میں ہوجاتی ہے ؟ دل کا عارضہ لگ جائے تو جان کب جاکر چھوٹتی ہے؟ اور تو اور دانتوں کی قدر بھی آدمی کو تب ہوتی ہے جب کسی ایک دانت یا داڑھ میں زور کی ٹیس اٹھے یا جب مسوڑھوں سے چیز چبانی پڑے !کسی پیاسے یا قحط سالی کے مارے سے پوچھئے گا ٹھنڈا پانی کتنی بڑی نعمت ہے !یہی پانی جسم سے کچھ دیر خارج نہ ہو تو پتہ چلے حضرت انسان کے لیے پیشاب کا آنا کتنا اشد ضروری ہے آپکے مسام بند ہوجائیں تو انکو کھلوانے پر کیا خرچہ آتا ہے ؟ کبھی کسی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں آکسیجن ماسک لگے مریض سے پوچھ کر دیکھئے گا ایک سانس کا کیا مول ہے !

بھائیو! گھر کی راحت اور زندگی کا سکون کتنی بڑی نعمت ہے !بچوں کی فرمائش پوری کرنا آپ کے بس میں ہوتو خوشی سے انکا چہکنا اور بے خودی میں انکا اچھلنا دل کو کتنا بھلا لگتا ہے۔ گھر کا دروازہ کھلتے ہی دہلیز میں بچے آپ سے لپٹ جاتے ہیں تو دنیا کتنی خوبصورت ہوجاتی ہے !ایک خوشیوں سے بھرے قہقہو ں سے گونجتے گھر کا بولو کیا مول لگاتے ہو ۔ دوستوں اور عزیزوں کے فرا ق میں دل کو کھینچ کیسے پڑتی ہے پھر طویل جدائی پر یہ وارفتگی سے لپٹ جانا کیا ہے ۔ کسی پیارے کا جنازہ اٹھاتے ہو تو گویا دل نکل جاتا ہے۔ یہ بیٹوں اور عزیزوں کی محبت آخر کیا چیز ہے او رکس نے یہ الفت گوشت پوست کے لوتھڑوں میں بے حساب بھر دی ہے پاک ہے وہ ذات جس نے مٹی کو رشتوں کی پہچان سکھائی اور محبت کا سلیقہ بخشا ۔ بھائیو پھر اس محبت پر کیا صر ف مٹی کا حق ہے اسکے خالق کا حق مقدم نہ ہو!؟؟

بہنو! تم اپنے سہاگ کا کیا مول لگاتی ہو !؟اپنے نونہالوں کے سر پر باپ کا سایہ سلامت رہنے کی کیا قیمت دیتی ہو؟اوس پڑوس کے کسی گھر سے تم نے کبھی یتیم بچوں کی معصوم چیخیں اور کسی جوان بیوہ کے دل چیر دینے والے نوحے ضرور سنے ہونگے ۔ آخر انکے ہاں سے کیا چلا جاتا ہے !؟ یایوں کہوانکے ہاں کیا رہ جاتا ہے !! تمہارا کنبہ سلامت ہے اور تمہاری خوشیاں آباد ۔ اور خدا کرے آبادرہیں ۔ تواس کو تم محض اتفاق سمجھتی ہو !اس حکیم اور خبیر کے کام ہوں اور پھر اتفاق !۔۔ اتنا بڑا ظلم !!!تمہارے آنگن میں کھیلنے والے یہ قہقہے اور تمہارے لعلوں کی یہ چہک کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ۔ دیکھو یہ تم پر تمہارے مالک کا یہ احسان ہے جوتمہارے گھر کو تمہارے لیے خوشیوں کا گہورا بنانے کے لیے صبح شام اپنا فضل کرتا ہے پھر تمہیں اپنی اس چھوٹی سی دنیا کو اسکی شکر گزاری اور بندگی کا نمونہ بنادینے میں آخر کیا تامل ہے ؟؟

بھائیو او ر بہنو! اپنی عقیدت اور شکرانہ پیش کرنے کےلئے اب کس’ لمحے‘ کا انتظار ہے!!؟

-----------------------------------------------------

ترمذی میں ہے ابوبرزہ ا سلمی سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول نے فرمایا (اﷲ کے سامنے ) کسی بندے کے قدم ہلنے بھی نہ پائیں گے جب تک وہ ان چیزوں کا جواب نہ دے لے

زندگی تھی وہ کس( مقصد ) میں گزاردی؟

علم تھا تو اسکا کیا کیا ؟

مال تھا تو وہ کہاں سے کمایا؟

اور کہاں خرچ کرتا رہا ؟

اور اپنے بدن کی (قوتوں اور صلاحیتوں ) کا کیا مصرف کیا ؟

ایک اور حدیث میں یہ سوال بھی آتا ہے ۔

جوانی تھی تو اس کا کیا بنایا ؟

صحیح مسلم میں ابو ھریرہ اور عائشہ کی روایات جمع کرنے سے کچھ یو ں مفہوم نکلتا ہے کہ۔

”جس صبح کا سورج بھی آدمی کو دیکھ لینا نصیب ہوجائے اس روز آدمی پر اپنے ایک ایک جوڑ کی صحت اور سلامتی کا صدقہ دینا ضروری ہوجاتا ہے وہ اﷲ کی تسبیح کرے۔ تکبیر کہے۔ اسکی حمد و تعریف کرے سب صدقہ ہے یہ صدقہ اﷲ کی توحید کے بار بار اقرار (تہلیل )سے ادا ہوسکتا ہے امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم دے کر ہوسکتا ہے نہی عن المنکر یعنی برائی سے روک کر کیا جاسکتا ہے مخلوق میں عد ل و انصاف کرادینا صدقہ ہے مشکل میں کسی کے کام آنا صدقہ ہے راستے سے رکاوٹ اور تکلیف کا سبب دور کردینا صدقہ ہے منہ سے اچھی بات کہہ دینا صدقہ ہے نما ز کی طرف اٹھایا جانے والا ایک ایک قدم صدقہ ہے انسان کے کل تین سوساٹھ جوڑ بنتے ہیں پس جو آدمی شام پڑنے تک صدقوں کی اتنی ہی تعداد پوری کرلے (اپنے ایک ایک جوڑ کی عافیت کا صدقہ نکال لے) تو وہ سمجھے بس اس نے کھینچ تان کر اپنا آپ جہنم کی آگ سے بچا ہی لیا“

دیکھا آپ نے خواتین و حضرات !صبح کا سورج چڑھتا ہے تو ساتھ کتنے پیغام لاتا ہے جس کے شام تک ہمیں جواب تیار کرنے ہوتے ہیں ۔ لکھنے والے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے آموجود ہوتے ہیں سورج غروب ہونے سے پہلے وہ اپنا کام مکمل کرلیتے ہیں اور ڈیوٹیاں تک بدل کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے دن کا آغاز اور اختتام خوشگوار بنانے کے لیے روزانہ فجر اور عصر کی نمازو ں میں زندہ انداز کی شرکت بروقت اور یقینی بنالیجئے۔ آفتا ب کے طلوع اور غروب سے پہلے اور شفق کی سیاہی ، یہ ایسے اوقات ہیں کہ زمین پر ہونے والے سجدے اور حمد و تسبیح کے مناظر آسمانوں پر بطور خاص دیکھے جاتے ہیں ۔ شکر گزاروں کی تلاش بس یہیں ہوتی ہے!!۔

الذی یراک حین تقوم و تقلبک فی الساجدین انہ ھوالسمیع العلیم (الشعراء٢١٨۔٢٢٠)

"وہ جو تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم (اسکی بندگی کرنے کو) کھڑے ہوتے ہو ۔ اور سجدے کرنے والوں میں تمہاری نقل و حرکت بھی وہ دیکھتا رہتا ہے ۔ وہ تو ہے ہی سمیع اور بصیر"



بھائیو اور بہنو !

شکر گزاروں میں نام لکھوانے کی خواہش ہے تو آئیے اپنی اپنی دنیا منعم کی مرضی اور چاہت کے مطابق تبدیل کرلیں سب سے پہلے تو دل کی دنیا ہے اپنی اس دنیا پر بادشاہت ہر آدمی خود کرتا ہے اس میں کون کس حیثیت میں رہے اور کون اس سے بے دخل ٹھہرے ۔ یہ طے کرنے کا اختیار آدمی کے اپنے پاس رہتا ہے ۔ اور دنیاؤں کا تو اس کو اختیار ہو، یا نہ مگر یہاں ضرور اسکی اپنی چلتی ہے۔ اس لیے شکرمندی کا فیصلہ بھی بس اسی پر ہوجاتا ہے ہاں تو بھائی دل کی اس دنیا میں کون بستا ہے جہاں صرف تمہاری فرمانروائی ہے ؟ یہاں اس ذات کو کیا مقام حاصل ہے جس کی رحمت سے تمہار ا وجود ہے ! جس سےتم نے ساری زندگی اپنی ہر چاہت ہر ارمان پورا کرایا! وہ ذات جو برسوں سے وقت پہ کھلاتی رہی طر ح طرح کے مشروب سے تمہاری پیاس بجھاتی رہی جس نے آج تک تمہار ا تن ڈھانپا ، اوروں سے تمہارا ننگ چھپایا اور اب بھی یہ اسی نے چھپا رکھا ہے جس نے ’اوروں‘ میں ہمیشہ تمہاری عزت اور حیثیت کا بھرم رکھا۔ ہاں اس ذات کا تمہارے اس دل میں کیا مقام ہے...اس دل میں جس کی ایک ایک دھڑکن اب بھی اسی کے اذن اور اشارے کی محتاج ہے ؟یہاں اگر سب سے بلند حیثیت اسکو نہیں بلکہ’ اوروں‘ کو حاصل ہے اور تم اپنی اس قلمرو میں اپنے مالک کو دوسرے درجے کی شہریت دے کر رکھنا چاہتے تو تم اس کی بردباری او راپنی کم ظرفی کا بس یہیں حساب کرلو!بھائی تم نے اس کو غلط جانا ۔ وہ پاک ہے صرف پاک چیز قبول کرتاہے اور پاک جگہ ہی اس کے لائق ہے!بہتر ہے اسکے لیے اس دل کو پاک کرلو۔’ اوروں‘ کی محبت او ر وارفتگی اس سے نکال دو۔ غیروں کی خفگی کے اندیشے کھرچ دو ۔ سب سے بڑھ کر یہاں ایک اسی کی چاہت رکھو اور ایک اسی کی نظر التفات پھر جانے کا خوف۔ کبھی دل پر بس نہ چلے تو مدد بھی بے شک اسی سے لے لو۔ پریہ دنیا چھوڑنے سے پہلے اسکو ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ دل ضرور پیش کردو۔ بھئی کہیں اور اس کا نام بلند نہیں کرسکتے اس دل میں تو کرسکتے ہو کیا اس میں بھی کوئی اور اس سے اونچا رہے ؟ آدمی کابس ایک دل ہی تودیکھا جاتا ہے!!! ۔

ولا تحزنی یوم یبعثون۔ یوم لا ینفع مال ولا بنون۔ الا من ا تی اﷲ بقلب سلیم (الشعراء٨٧۔٨٩)

"خدایا بس اس روز کی رسوائی سے مجھے بچائیو ۔ جب قبروں سے انسان برآمد کر لیے جانے ہیں جس رو ز مال کام آئے گا نہ لخت جگر بچے گا ایک وہی جو اﷲ کے پاس پہنچا تو قلب سلیم پاس رکھتا ہوا"

بھائیو اور بہنو !قلب اور اعضاءجوارح کے ساتھ ساتھ آدمی پر اپنی اجتماعی اور سماجی زندگی میں بھی مالک کا شکر گزار اور احسان مند رہنا لازم ہے۔ یہ میدان ایک تو وسیع بہت ہے دوسر ا ہر آدمی کے فرائض اس میں ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں تیسرا ان فرائض کو عملی شکل دینے کی صورتیں بے شمار ہیں جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد اور تنوع کی بھی اتنی ہی گنجائش ہے پھر یہ تو عین ممکن ہے کہ آپ اس فرض کی بجاآوری کی بہت اچھی صورت پہلے سے اپنے پاس رکھتے ہوں(اس صورت میں ایقاظ کے یہ صفحات بھی آپکی تحریر کے منتظر ہیں) تاہم اس فرض پر عمل کی چند ایک صورتیں فی الحال آپ کے گوش گزار کی جاتی ہیں انکی افادیت یا انکو بہتر بنانے کی بابت اپنی دلچسپی اور خیالات سے ہمیں مطلع فرمائیے گا! ۔

-------------------------------------------------

عشاءکے وقت سب لوگ عموماً کام کاج سے فارغ ہوتے ہیں دن میں اﷲ کے فضل کی تلاش خوب کرلی اب اور طرح کا فضل مطلوب ہونا چاہیے !سنت یہ ہے کہ رات کا کھانا بھی نماز سے پہلے کھالیا جائے ۔ عشاءکی نماز توآپ انشااﷲ مسجد میں باجماعت پڑھیں گے ہی کوشش یہ کریں کہ فراغت کے اسوقت میں اذان ہوتے ہی مسجد میں پہنچیں اور تحیہ المسجد اور نماز کے انتظار کا ثواب لیں۔ یہ مسجد میں بیٹھ کر نماز کھڑی ہونے کا انتظار کیا ہے بس اﷲ کی مجاورت ہے !مگر یہ مجاورت جسم کے ساتھ دل کی بھی ہونی چاہیے۔ اس کو دراصل ہمارے جسم سے زیادہ ہمارے دل کی بندگی مطلوب ہے۔

عشاء سے فراغت کے بعد ۔اور اگر سنتیں وغیر ہ مسجد میں ادا کرنی ہوں تو ان سے بھی فراغت کے بعد ۔ مسجد میں ایسے مسلمان بھائیوں کے ساتھ دائرے میں بیٹھ جائیے جو ذکر و تذکیر کے اس عمل میں آپ سے تعاون پر آمادہ ہوں ۔قرآن مجید کھول لیجئے (ہر آدمی کے پاس قرآن ہونا چاہیے) قرآن کی پچیس تیس آیات ۔ یعنی کوئی ڈیرھ دو صفحے ۔ پہلے سے منتخب ہوں باری باری ہر آدمی یہ آیات تلاوت کرے اور باقی غور اور عقید ت سے سنیں ۔ (بالکل ان پڑھ کو چھوڑکر) جس آدمی کو جیسا بھی پڑھنا آتا ہو پڑھے ضرور (حلقے کی تعداد پانچ سات آدمیوں سے تجاوزکرجائے تو اسے دویا زیادہ ٹولیوں میں بانٹ لیا جائے تاکہ ہر آدمی قرآن پڑھ لے اور وقت زیادہ صرف نہ ہو) پھر حلقہ ایک کرلیجئے اور یہی آیات دو بار کسی بہت اچھا پڑھنے والے ساتھی کے ساتھ ملکر سب لوگ دہرائیں۔ کوئی بہت اچھا پڑھنے والا میسر نہ ہو ٹیپ ریکارڈ ، یا کمپیوٹر سی ڈی کی مدد لیں اور اسکی آواز سے آواز ملا کر پڑھیں (حصری ،منشاوی یا حذیفی کی آواز اچھی رہ سکتی ہے ویسے جو بھی آپ پسند کریں اچھا پڑھنے والا۔ ساتھی اگر آپکو میسر ہو تب بھی تنوع پید ا کرنے کی خاطر آپ ان آلات سے مدد لے سکتے ہیں) اب آپ میں سے کوئی اچھے اردو تلفظ والا ساتھی قرآن کا کوئی اردو ترجمہ لے (تفہیم القرآن کا ترجمہ بہتر رہے گا) اور ان آیات کا ترجمہ اوپر دیکھ کر بلند آواز سے سب کو سنائے (مضمون کی روانی قائم رکھنے کے لیے آیات کی عربی عبارت اس وقت نہ پڑھے) جہاں ضرورت محسوس کرے وہا ں ترجمہ آیات متعدد بار دہرائے ( خیال رہے کہ قرآن مجید ، ناظرہ یا ترجمہ سبقاً پڑھنا لازم ضرور ہے مگر یہ کام اس وقت نہیں کسی اور وقت کیا جائے)

اب کچھ لمحے رک جائیے قرآن کے ان مفہومات پر ذرا غور کر لیجئے اور کوئی سوال ذہن میں آئے تو سامنے لائیے۔ سوال کا جواب مجلس میں نسبتاً زیادہ علم رکھنے والا ساتھی دے ۔ جو علم ہو وہ بتائے ورنہ تکلف سے کام نہ لے ۔ حاضرین کا ذہنی معیار پیش نظر رکھے اور زیادہ علمی نکات سے گریز ہی کرے ۔ یہ تفسیر کا سبق بہرحال نہیں تذکیر کا حلقہ ہے۔

آئیندہ تین ماہ میں صرف ان چار سورتوں کی تذکیر پر اکتفا کریں ، المعارج، الرحمن ، الواقعہ، حٰم السجدہ۔ انکو اسی ترتیب سے پڑھیں ایک بار ختم ہوجائیں تو پھر یہی شروع کردیں تین ماہ تک یہی سورتیں دہراتے رہیں)۔

پھر ایک ساتھی ریاض الصالحین سے ایک حدیث پڑھے اسکا ترجمہ سب لوگوں کو واضح کرکے سنائے اور اسکا مختصر معنی و مفہوم بیان کردے۔ (ان تین ماہ کے لیے باب الاخلاص ، باب التوبہ اور باب الصبر پڑھیں ۔ ختم ہوجائیں تو انہی کو دہرائیں)۔

پھر کوئی ایک مسنون دعا یا نماز کے اذکار یا صبح شام اور اوقات عام کے مسنون اذکار میں سے کوئی ایک ذکر منتخب کرلیں اور کوئی ساتھی اسکا عربی تلفظ اور اردو مفہوم متعدد بار دہرائے باقی لو گ سیکھنے کے لیے عربی الفاظ اس کے ساتھ مل کر بھی ادا کرسکتے ہیں ۔ یہ ذکر یا دعا چھوٹی ہو تو پور ا ہفتہ اسی ایک کو دہرایا جائے اور اگر بڑی ہو تو دو یا تین ہفتے اسکا اعادہ کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں ریاض الصالحین کتاب الدعوات سے مد دلی جاسکتی ہے ایقاظ کے دونوں شماروں میں سے بھی کچھ اذکار اور دعائیں سلیس اردو مفہوم کے ساتھ مل سکتی ہیں یاد کی ہوئی دعائیں اور اذکار عملاً کرتے رہنے کے لیے ایک دوسرے کو تاکید اور یاد دہانی بھی کرائی جاتی رہے۔

اسکے بعد کبھی (ہمیشہ نہیں) کچھ وقت بچالیا جائے تو زندگی کے مقصد کی تذکیر اور یاد دہانی کے موضوع پر کچھ منتخب عبارتیں مل کر پڑھی جاسکتی ہیں جس کا طریقہ یہ ہو کہ ایک آدمی مؤثر انداز میں پڑھے اور دوسرے سنیں ۔

ہفتے میں ایک آدھ بار کوئی اچھی سی کیسٹ یا اسکا کچھ حصہ سن لیا جائے (مفید کیسٹیں آپ خود منتخب کرسکتے ہیں البتہ اس سہ ماہی کے لیے ادارہ کی جانب سے کیسٹوں کا ایک سیٹ جاری کیا جارہا ہے جو آپ ادارہ ایقاظ سے طلب فرماسکتے ہیں )۔

آخر میں کوئی مفید اور توجہ طلب بات ہو تو کرلی جائے اور کفارہ المجلس کی دعا کے ساتھ مجلس برخاست کردی جائے سونے سے پہلے شب کے اذکار کرلیے جائیں (کسی محلے میں اگر مسجد قریب نہ ہو وہاں کسی ساتھی کا گھر منتخب کرلیا جائے۔)

خواتین کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی مذکورہ بالا اندا ز کی ایسی ہی مجلس کا انعقاد کرلیا کریں ہو سکے تو عشاءکی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں پھر مسجد میں کوئی مستو ر حصہ ہوتو وہاں اکٹھی بیٹھ جائیں اور اگر مسجد میں ایسی جگہ نہ ہو یا جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے انکی آواز یں باہر آنے کا اندیشہ ہو تو وہاں نما ز اداکرنے کے بعد محلے کے کسی مناسب گھر میں اکٹھی ہوجائیں ، تاہم اگر مسجد میں خواتین کا اس وقت جانا ہی کسی وجہ سے غیر مناسب ہو تو نماز بھی محلے کے کسی گھر میں اکٹھی مل کر اداکرلیں اور اسکے بعد تعلیم و تعلم کی وہ نشست رکھ لیں خواتین میں کوئی ایک جماعت کراسکتی ہے البتہ ان کے لیے اذان او ر اقامت کا حکم نہیں نما ز پڑھانے والی مردوں کی طرح صف کے آگے نہیں صف کے درمیان کھڑی ہوگی دین کا شوق رکھنے والی کوئی بھی بہن اپنے محلے میں تھوڑی سی محنت سے ایسا حلقہ بناسکتی ہے۔

خواتین پردے اور حیاءکے حفاظت کے علاوہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ مل کر نماز پڑھنا اور دین سیکھنا انکے گھر سے باہر رہنے یا دیر تک بیٹھنے کا بہانہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ انکا یہ وقت ۔ خصوصاً شام یا رات کو ۔ سب سے زیادہ انکے گھر والوں کا حق ہے !حلقے کی ذمہ دار خواتین اس طرف خصوصی دھیان دیں ۔ ورنہ اوروں کا بوجھ وہ اٹھائیں گی ۔ ان ذمہ دار خواتین کو یہ بھی چاہئے کہ آیات یا احادیث یا اذکار عبارتوں اور کتابوں و کیسٹوں کے انتخاب کے معاملے میں اپنے مردوں وغیرہ کے ذریعے ایسے مرد و حضرات سے مدد لے لیا کریں جو ایسے امور کا بہتر علم رکھتے ہوں اور تیار ی کرکے حلقہ میں بیٹھیں۔

پھر صبح کا آغاز کم از کم بھی فجر کی باجماعت نماز سے کریں گھر کے سب بالغ افراد کو نماز سے پہلے بیدار کریں ۔ آدمی یا عورت جس میں بھی ہمت ہو دوسروں کو بیدار کرنے کی نیکی لے اور دین میں سبقت لے جانے کا یہ کام کرے ۔ مہاجرین و انصار کی عورتوں اور بچوں کا مسجد نبوی کے اندر فجر اور عشاءکی نمازوں میں شریک ہونا بے شمار احادیث سے ملتا ہے اس میں ہمارے لیے اپنی اورا پنے اہل خانہ کی تربیت کا بہترین نکتہ ہے ہوسکے تو اس امر کا اہتمام ضرور کیجئے ۔

فجر کے بعد آپ کے گھر سے قرآن پڑھنے کی آوازیں سنی جانی چاہیں۔ یہ آپکے لیے ویسی ہی سعادت ہونی چاہئے جیسے دنیا داروں کے ہاں صبح سویرے کسی گھر کی چمنی سے دھواں اٹھنا وہاں زندگی کے آثار پر دلالت کرتاہے !

تلاوت قرآن کے بعد کوئی مناسب وقت مقرر کرلیجئے جہاں گھر کے چھوٹے بڑے سب افراد پندرہ بیس منٹ کے لیے اکٹھے ہوجائیں ۔ رات عشاءکے بعد مردوں نے اپنے حلقے میں اور عورتوں نے اپنے حلقے میں جو اسباق پڑھے تھے یہاں وہ اسکا اعادہ کرلیں(عربی عبارتوں کو چھوڑ دیں صرف اردو میں مفہومات دہرالیں ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ گھر میں بھی ہونا چاہیے ) اگر رات کسی مرد یاعورت نے کوئی کام کی بات سمجھی یا نوٹ کی تو وہ بھی گھر کے باقی افراد کے سامنے رکھے ۔ وقت ہوتو اردو کی کوئی اچھی اور مفید تحریر مل کر پڑھی جاسکتی ہے

دن کے دوران جب مرد تلاش روزگار اور عورتیں گھر گرہستی کے کاموں میں مصروف ہوتی ہیں ۔ آپ اپنے وقت اور کام کی آسانی دیکھتے ہوئی اپنی دکان ، دفتر ، گاڑی یا گھر کے کسی حصے یا باورچی خانے میں مذکورہ سورتوں کی تلاوت یا اچھی تقاریر پر مبنی کیسٹ وقتاً فوقتاً لگا سکتے ہیں ۔ اچھی بات کان میں پڑتی رہے تو بیٹھے بٹھائے اجر مل جاتا ہے اور دل بھی خالق کی طرف متوجہ رہتا ہے ۔ اﷲ کا ذکر کسی وقت بھی نہیں بھولنا چاہیے۔

--------------------------------------------

یہ تو ہوئی وقت کی زکوہ آدمی اپنے مال میں بھی آزمایا جاتا ہے ، کیا خیال ہے کہ آپ اگر اپنے گھر میں کوئی جگہ مقرر کرلیں یا کوئی ڈبہ یا گلہ نما چیز کہیں دھرلیں جس میں چھوٹے بڑے سب حسب توفیق پیسے ڈالتے رہیں چونیاں ، اٹھنیاں تو گھر میں یونہی بکھری رہتی ہیں بلکہ اب تو روپوں کا یہی حشر ہوتا ہے اتنی معمولی چیزانفاق کرتے ہوئے ویسے توآدمی جھجکتا ہے۔ حالانکہ اﷲ کے لیے دی جانے والی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی حقیر نہیں جاننا چاہیے البتہ اس گلے میں کچھ بھی ڈالتے ہوئے شرم نہیں آنی چاہیے بس ریز گاری تو سمجھئے اسکی ہے۔ گھرو ں میں دکھ سکھ کے چھوٹے موٹے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ صدقہ شکر کے لیے بھی ہوتا ہے اور صبر کے لیے بھی۔ دعا کی قبولیت بھی ہوتا ہے اور دفع بلاکے لیے بھی ۔ ایسے موقعوں کچھ نہ کچھ ا س میں بھی ڈال دیا ۔ اور ہاں ڈالتے وقت وجہ اﷲ کی چاہت دل میں ضرور پیدا کرلیں۔ ہر مہینے اسے کھولیں ! جو نکلے اسکے دو حصے کرلیں ۔ ایک حصہ غریبوں ، ناداروں ، یتیموں اور بیوائوں کے لیے مختص کردیں اور دوسرا دعو ت اور دین کی اقامت کے لیے۔

جہاں تک پہلی مد کا تعلق ہے تو معاشرے میں مفلس اور نادار تو اتنے ہیں کہ ہر کسی کو تو آپ دینے سے رہے ظاہر ہے ان میں سے کچھ ہی کو منتخب کیا جاسکتا ہے مگر اس انتخاب کی بنیاد کیا ہو۔ یہ کہ کوئی آپکی خوشامد اچھی کرلیتا ہے یا اپنی ضرورت زیادہ اچھی طرح بیان کرنا جانتا ہے یا پھر آپ کے کسی عزیز کی اس سے شناسائی ہے ! جبکہ اس سے زیادہ صالح انسان اسی شہر میں خالی ہاتھ رہے !! غریبوں کو دیتے وقت بھی آپکو اصل غرض اس بات سے ہونی چاہیے کہ کیسے آدمی کو دینے سے اﷲ کے دین کا فائدہ زیادہ ہے۔

اور جہاں تک انفاق کی دوسری مد کا تعلق ہے یعنی دعوت اور اقامت دین تو فی الحال اسکے چھوٹے چھوٹے مصرف جان لینا مناسب ہے ۔ یہ مد ضروری نہیں بیکسوں او رناداروں تک محددو ہوآپ کسی بھی شخص کو اچھی کتاب ، رسالہ ، مجلہ یا کیسٹ تحفہ دے سکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ کو امید ہو کہ وہ استفادہ کی بجائے اسے رکھ نہیں چھوڑے گا کسی کتاب یارسالے سے کوئی اچھی عبارت، احادیث یا دعا کا ترجمہ نکالیں اور اسکی کئی ساری کاپیا ں کرواکے عزیز رشتہ داروں میں یا دفتر ، بازار یا محلے کے اندر سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں میں تقسیم کریں یا دور رہنے والے عزیزوں یا دوستوں کو پوسٹ کردیں کبھی ملاقات ہونے پر یا عمداً ملاقات کرکے ان سے پوچھ بھی لیں کہ اس سے انہوں نے کیا سمجھا ۔ ویسے اس مد کا کچھ حصہ کسی ایسے اجتماعی فنڈ میں بھی دیں جہاں آپ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والے لوگ اس کا بہتر مصرف کرنا جانتے ہوں۔

------------------------------------------------

ان تمام گزارشات اور تجاویز کے سلسلے میں آپ خط کے ذریعے ہمیں اپنے تاثرات یااپنی کارگزاری کی روداد سنانا چاہیں تو ہمیں خوشی ہوگی۔ خصوصاً کوئی بھائی یا بہن اپنے محلے یا علاقے میں ایسا حلقہ قائم کریں تو براہ کرم ہمیں مطلع کرنے میں حرج محسوس نہ کریں ۔ عین ممکن ہے اس سلسلے میں باہمی تعاون کی بہتر راہ نکل آئے۔ اپنا خط و کتابت کا پتہ ضرور تحریر کریں۔

علاوہ ازیں آپ خط کے ذریعے ایقاظ کے لکھنے والوں سے ہی نہیں پڑھنے والوں سے بھی مخاطب ہوسکتے ہیں آپ کے پاس ہمیں یا ہمارے قارئین کو کہنے کے لیے کچھ بھی ہے تو بخل سے کام مت لیجئے مفید اور منتخب قسم کے خطوط ایقاظ میں شائع ہوسکتے ہیں۔

اپنی دعائوں میں ہمیں خصوصی طور پر یاد رکھئے گا

والسلام
Reply

Login/Register to hide ads. Scroll down for more posts
AnonyMouse~
02-22-2009, 05:13 AM
ufff mujhe tau poora saal lage isko parne main :P
Reply

K.Venugopal
02-22-2009, 11:44 AM
format_quote Originally Posted by Amnuh
ufff mujhe tau poora saal lage isko parne main :P
What Amnuh says in romanised Urdu is, it will take him a year to read it (the OP article). Alas, I won't ever be able to read it because I do not know the Arabic script. Is Roman Urdu popular in this Urdu section?
Reply

justahumane
02-22-2009, 01:07 PM
format_quote Originally Posted by K.Venugopal
What Amnuh says in romanised Urdu is, it will take him a year to read it (the OP article). Alas, I won't ever be able to read it because I do not know the Arabic script. Is Roman Urdu popular in this Urdu section?

Ya it is, U can read other posts, a lot of them are in roman urdu. enjoy.
Reply

Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, you can participate in the discussions and share your thoughts. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and make new friends.
Sign Up

Similar Threads

British Wholesales - Certified Wholesale Linen & Towels | Holiday in the Maldives

IslamicBoard

Experience a richer experience on our mobile app!