بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
Tuesday, 16 March 2010
Quran-Sura-6 Aya-101,102
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
وہی آسمانوں اور زمینوں کا مُوجِد ہے، بھلا اس کی اولاد کیونکر ہو سکتی ہے حالانکہ اس کی بیوی (ہی) نہیں ہے، اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،
یہی (اﷲ) تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، (وہی) ہر چیز کا خالق ہے پس تم اسی کی عبادت کیا کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے،
Originator of the heavens and the earth! How should He have a son when there is for Him no spouse? And He hath created everything and He is Knower of everything.
Such isAllah, your Lord! L ilha illa Huwa (none has the right to be worshipped but He), the Creator of all things. So worship Him (Alone), and He is the Wakl (Trustee, Disposer of affairs, Guardian, etc.) over all things.
TAFSEER
٣ ف کیونکہ انسان اگر اپنے پاؤں تلے بچھے ہوئے زمین کے اس عظیم الشان فرش اور بچھونے میں اور اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کے اس عظیم الشان و بےمثال چھت ہی میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے لے۔ اور سوچے کہ کون ہے وہ جس نے زمین و آسمان کی حکمتوں بھری اس کائنات کو بطن عدم سے نکال کر خلعت وجود سے نوازا ہے۔ اور اس کو ان گنت ولاتعداد نعمتوں، حکمتوں، اور عظیم الشان نشانیوں سے بھر دیا؟ سو وہی ہے اللہ وحدہ، لاشریک، خالق کل اور مالک مطلق، جس نے آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کو بغیر کسی نمونہ و مثال کے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے پیدا فرمایا ہے اور اس کو وجود بخشا ہے، اور جب اس کو پیدا کرنے، وجود بخشنے، اور اس کو چلانے، اور باقی رکھنے میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں، تو پھر اسکے حقِ عبادت وبندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے؟ پس وہی ہے معبودِ برحق اور ہر قسم کی عبادت وبندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ
ہماری آنکھیں اور اللہ جل شانہ
جس کے یہ اوصاف ہیں یہی تمہارا اللہ ہے ، یہی تمہارا پالنہار ہے، یہی سب کا خالق ہے تم اسی ایک کی عبادت کرو، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو ۔ اس کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھو ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کے ماں باپ نہیں، اس کی بیوی نہیں، اس کی برابری کا اس جیسا کوئی نہیں، وہ ہر چیز کا حافظ نگہبان اور وکیل ہے ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے سب کی روزیاں اسی کے ذمہ ہیں ، ہر ایک کی ہر وقت وہی حفاظت کرتا ہے ۔ سلف کہتے ہیں دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ہاں قیامت کے دن مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا ، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ جو کہے کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ ابن عباس سے اس کے بر خلاف مروی ہے انہوں نے روایت کو مطلق رکھا ہے اور فرماتے ہیں اپنے دل سے حضور نے دو مرتبہ اللہ کو دیکھا سور نجم میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے بیان ہو گا انشاء اللہ تعالٰی ، اسمعیل بن علی فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور حضرات فرماتے ہیں یہ تو عام طور پر بیان ہوا ہے پھر اس میں سے قیامت کے دن مومنوں کا اللہ کو دیکھنا مخصوص کر لیا ہے ہاں معتزلہ کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کہیں بھی اللہ کا دیدار نہ ہو گا ۔ اس میں انہوں نے اہلسنت کی مخالفت کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نادانی برتی ، کتاب اللہ میں موجود ہے آیت(وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ) یعنی اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے اور فرمان ہے آیت(کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) یعنی کفار قیامت والے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومنوں کے لیے اللہ تعالٰی کا حجاب نہیں ہو گا متواتر احادیث سے بھی یہی ثابت ہے ۔ حضرت ابو سعید ابوہریرہ انس جریج صہیب بلال وغیرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن اللہ تبارک و تعالٰی کو قیامت کے میدانوں میں جنت کے باغوں میں دیکھیں گے ۔ اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی انہیں میں سے کرے آمین! یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں یعنی عقلیں ، لیکن یہ قول بہت دور کا ہے اور ظاہر کے خلاف ہے اور گویا کہ ادراک کو اس نے رؤیت کے معنی میں سمجھا ، واللہ اعلم، اور حضرات دیدار کے دیکھنے کو ثابت شدہ مانتے ہوئے لیکن ادراک کے انکار کے بھی مخالف نہیں اس لئے کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو لازم نہیں ہوتی ۔ اب جس ادراک کی یہاں نفی کی گئی ہے یہ ادراک کیا ہے اور کس قسم کا ہے اس میں کئی قول ہیں مثلاً معرفت حقیقت پس حقیقت کا عالم بجز اللہ کے اور کوئی نہیں گو مومن دیدار کریں گے لیکن حقیقت اور چیز ہے چاند کو لوگ دیکھتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اس کی ذات اس کی ساخت تک کس کی رسائی ہوتی ہے ؟ پس اللہ تعالٰی تو بےمثل ہے ابن علی فرماتے ہیں نہ دیکھنا دنیا کی آنکھوں کے ساتھ مخصوص ہے ، بعض کہتے ہیں ادراک اخص ہے رؤیت سے کیونکہ ادراک کہتے ہیں احاطہ کر لینے کو اور عدم احاطہ سے عدم رؤیت لازم نہیں آتی جیسے علم کا احاطہ نہ ہونے سے مطلق علم کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ احاطہ علم کا نہ ہونا اس آیت سے ثابت ہے کہ آیت(ولا یحیطون بہ علما) صحیح مسلم میں ہے حدیث(لا احصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک) یعنی اے اللہ میں تیری ثنا کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد مطلق ثنا کا نہ کرنا نہیں ، ابن عباس کا قول ہے کہ کسی کی نگاہ مالک الملک کو گھیر نہیں سکتی ۔ حضرت عکرمہ سے کہا گیا کہ آیت(لا تدرکہ الابصار) تو آپ نے فرمایا کیا تو آسمان کو نہیں دیکھ رہا؟ اس نے کہا ہاں فرمایا پھر سب دیکھ چکا ہے ؟ قتادہ فرماتے ہیں اللہ اس سے بہت بڑا ہے کہ اسے آنکھیں ادراک کر لیں ۔ چنانچہ ابن جرید میں آیت(وجوہ یومئذ ناضرۃ) کی تفسیر میں ہے کہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ان کی نگاہیں اس کی عظمت کے باعث احاطہ نہ کر سکیں گی اور اس کی نگاہ ان سب کو گھیرے ہوئے ہو گی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث میں ہے اگر انسان جن شیطان فرشتے سب کے سب ایک صف باندھ لیں اور شروع سے لے کر آخر تک کے سب موجودہ ہوں تاہم نا ممکن ہے کہ کبھی بھی وہ اللہ کا احاطہ کر سکیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اس کی اس کے سوا کوئی سند نہیں نہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم حضرت عکرمہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالٰی کو دیکھا تو میں نے کہا کیا اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کو آنکھیں نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو گھیر لیتا ہے ، تو آپ نے مجھے فرمایا یہ اللہ کا نور ہے اور وہ جو اس کا ذاتی نور ہے جب وہ اپنی تجلی کرے تو اس کا ادراک کوئی نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ، اسی جواب کے مترادف معنی وہ حدیث ہے جو بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ تعالٰی سوتا نہیں نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اٹھاتا ہے اس کی طرف دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے چڑھ جاتے ہیں اس کا حجاب نور ہے یا نار ہے اگر وہ ہٹ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہر اس چیز کو جلا دیں جو اس کی نگاہوں تلے ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اللہ تعالٰی سے دیدار دیکھنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ اے موسیٰ جو زندہ مجھے دیکھے گا وہ مر جائے گا اور جو خشک مجھے دیکھ لے گا وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا، خود قرآن میں ہے کہ جب تیرے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے افاقہ کے بعد کہنے لگے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں ۔ یاد رہے کہ اس خاص ادراک کے انکار سے قیامت کے دن مومنوں کے اپنے رب کے دیکھنے سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ اس کی کیفیت کا علم اسی کو ہے ۔ ہاں بیشک اس کی حقیقی عظمت جلالت قدرت بزرگی وغیرہ جیسی ہے وہ بھلا کہاں کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟ حضرت عائشہ فرماتی ہیں آخرت میں دیدار ہو گا اور دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس جس ادراک کی نفی کی ہے وہ معنی میں عظمت و جلال کی روایت کے ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ یہ تو انسان کیا فرشتوں کے لئے بھی نا ممکن ہے ہاں وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے جب وہ خالق ہے تو عالم کیوں نہ ہو گا جیسے فرمان ہے آیت(الا یعلم من خلق) الخ، کیا وہ نہیں جانے گا جو پیدا کرتا ہے جو لطف و کرم والا اور بڑی خبرداری والا ہے اور ہو سکتا ہے کہ نگاہ سے مراد نگاہ ولا ہو یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ ہر ایک کو نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی جگہ سے خبیر ہے واللہ اعلم جیسے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وعظ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا اگر کوئی بھلائی یا برائی رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو خواہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اسے لائے گا اللہ تعالٰی بڑا باریک بین اور خبردار ہے ۔
HADEES MUBARAK
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2954 حدیث مرفوع مکررات 5متفق علیہ
ابوکریب محمد بن علاء بن کریب، ابواسامہ، ہشام، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میرے برتن میں سوائے تھوڑے سے جو کے کھانے کے لیے اور کچھ نہیں تھا میں اسی برتن میں بہت دنوں تک کھاتی رہی میں نے اس برتن کو ناپا تو اس میں سے جو ختم ہو گئے۔
Volume 1, Book 3, Number 63:
Narrated Anas bin Malik:
While we were sitting with the Prophet in the mosque, a man came riding on a camel. He
made his camel kneel down in the mosque, tied its foreleg and then said: "Who amongst you
is Muhammad?" At that time the Prophet was sitting amongst us (his companions) leaning on
his arm. We replied, "This white man reclining on his arm." The an then addressed him, "O
Son of 'Abdul Muttalib."
The Prophet said, "I am here to answer your questions." The man said to the Prophet, "I want
to ask you something and will be hard in questioning. So do not get angry." The Prophet said,
"Ask whatever you want." The man said, "I ask you by your Lord, and the Lord of those who
were before you, has Allah sent you as an Apostle to all the mankind?" The Prophet replied,
"By Allah, yes." The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to offer
five prayers in a day and night (24 hours).? He replied, "By Allah, Yes." The man further
said, "I ask you by Allah! Has Allah ordered you to observe fasts during this month of the
year (i.e. Ramadan)?" He replied, "By Allah, Yes." The man further said, "I ask you by Allah.
Has Allah ordered you to take Zakat (obligatory charity) from our rich people and distribute
it amongst our poor people?" The Prophet replied, "By Allah, yes." Thereupon that man said,
"I have believed in all that with which you have been sent, and I have been sent by my people
as a messenger, and I am Dimam bin Tha'laba from the brothers of Bani Sa'd bin Bakr."
Muhammad Iqbal Kuwait
اللھم صل علی سيدنا محمد وعلی آل سيدنا محمد
اس عاجز بندے کو دعاؤں ميں ياد رکھيں