/* */

PDA

View Full Version : بچوں کی دینی تعلیم کیلئے تحقیق کی ضرورت



غزالی
03-25-2012, 09:00 AM
دینی تعلیم اور پھر اس کے لیے مدارس کا قیام ،معاشرے کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ؟ اس سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے ۔حقیقت میں مدرسہ ہی وہ سب سے بڑی کار گاہ ہے،جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے ،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتےہیں ،مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر(پاؤر ہاؤس)ہے،جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں ایمانی بجلی تقسیم ہوتی ہے، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہےکہ اگر یہ مدرسے نہ رہے تو ہماری نسلوں کا دین بدل جائے گا، ان اداروں نے کام چھوڑ دیا تو ہماری آنے والی نسلوں کا دین کیا ہوگا وہ کس مذہب سے وابستہ ہونگی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہندوپاک میں موجودہ دینی فضا اور دیانت داری کی ساری شکلیں انہی مدارس اور علمأ کی مرہونِ منت ہیں۔بحمداللہ! مدارس کی اس کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ یہاں دینی مراکز قائم ہیں‘مساجد و مدارس آباد ہیں‘ لوگوں کے چہروں پر سنت رسول کی شادابی ہے‘ خواتین ستروحجاب سے مزین ہیں‘ دینی اسکول اور حفظِ قرآن کے مدارس میں لاکھوں مسلمان بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اسی کو دیکھتے ہوئے شروع سے ہمارے دین کے دشمنوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ ہر طرف سے پراپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کوانکی دینی درسگاہوں ایسے دور کرددیا جائے کہ جس کے بعد ان پر اپنی تعلیم و تہذیب مسلط کرنا آسان ہوجائے گا۔عالمی اور ملکی سطح پردین ِ اسلام ،قرآن کریم اورمدارس دینیہ کے خلاف جس قدر طوفان بدتمیزی برپا ہوتا چلا گیا ہے یہ شاید اسی کا ردعمل ہے کہ اسی تیزی سے دین سے وابستگی ،مدارس کی طرف رجوع اور حفظ قرآن کریم کے رجحان میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ صرف بی بی سی کے مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق ان مدارس میں مجموعی طور پر رواں سال کے لیے ایک لاکھ پچپن ہزار سے زائد طلباء و طالبات کا اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں پہلے پہل یہ تاثر تھاکہ جو بچے بالکل غریب وناد ار ہوتے ہیں ،جسمانی طور پر کمزور یا معذور ہوتے ہیں انہیں ہی مدارس میں بھیجا جاتا ہے،لیکن اب ایک عرصے سے یہ ”ٹرینڈ“ بالکل تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب الحمد للہ بہت باصلاحیت ،ذہین وفطین اورکھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کی بڑی تعداد حفظ قرآن کی سعادت حاصل کر رہی ہے ۔اب تو فكر آخرت ركھنے والے باشعورلوگوں كى اكثريت اپنے بچوں كو دونوں طرح كى تعليم خود دلا رہی ہے ۔ ایک دو نسلیں پہلے قوم سے کوتاہی ہوئی کہ اچھے اور ذہین گھرانوں کے لوگوں نے اپنے بچے اتنی تعداد میں مدارس میں نہیں بھیجے جتنی تعداد میں بھیجنے چاہیے تھے، لوگوں کا رویہ کچھ ایسا رہا کہ جو بچہ سکول میں پڑھ نہیں پاتاتھا یا کسی طرح سے جسمانی نقص والا ہوتا ، اسے حافظ قران بنانے کے لیے مدرسہ میں ڈال دیتے ، یوں ہمارے ملک کی کریم یعنی بہترین ذہن رکھنے والے طلبا انگلش میڈیم سکولوں میں چلے جاتے ہے۔بحرحال اس کے نتیجے میں مدارس میں پھر ہر طبقہ کے لوگ آئے، ہر نوعیت کے ادارے بن گئے، پھر اس میں ہر قسم کی تربیت لے کر لوگ فارغ بھی ہوگئے، اس نتیجے میں کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت کمی رہ گئی اور جب یہ لوگ گلی محلوں میں اساتذہ کی شکل میں سامنے آئے تو انہوں نے اپنی نفسیات کے مطابق کارنامے بھی کیے۔ اورکچھ تلخ حوصلہ شکن واقعات بھی سامنے آئے۔ یہ واقعات مدارس کے ساتھ خاص نہیں سکولوں میں بھی ایسے واقعات کی بازگشت عام سنائی دیتی رہتی ہے، چند دن پہلے اسی طرح کی ایک خبر نظر سے گزری جس میں نویں جماعت کی طالبہ کے ساتھ سکول کے پرنسپل کی جنسی ذیادتی کرنے کی کوشش کا تذکرہ تھا ، اس طرح کے اور کئی واقعات اخباروں میں آتے رہتے ہیں۔ یہ آج میرا موضوع نہیں۔ میں آج مدرسے سے متعلق اپنے ایک دوست کے سنائے گئے ایک اسی طرح کے واقعہ کو بطور مثال پیش کرکے اس پر بات کروں گا۔

ایک پاکستانی بھائی چھ ماہ پہلے بچوں کی "اسلامی تربیت" کی خاطر جاپانی بیوی بچوں کو لیکر پاکستان چلے گئے ،چند دن بعد معلوم پڑا واپس جاپان آگئے ہیں ، ہم نے ان سے وجہ پوچھی تو بولے ہم نے یہیں مرنے کا ارادہ کر لیا،ہم لوگ تو چھ ماہ پاکستان رہے کافی تنگ تھے لیکن بچوں کیلئے ہم میاں بیوی نے یہی سوچا کہ برداشت کرتے ہیں،اور جیسا بھی ہے پاکستان میں رہتے ہیں،آٹھ سالہ بچے کو قریبی مسجد میں قرآن پڑھانے بھیجنا شروع کردیا۔بچہ بنچ پر سپارہ رکھ کر پڑھتا تھا اور قاری صاحب نیچے سے بچے کی پیشاب والی جگہ کو ہاتھ میں لے لیتے ۔جاپا نی بچہ تھا، اس نے گھر میں آکر بتا دیا کہ مولوی صاحب ایسا کرتے ہیں اس لئے میں یہاں نہیں پڑھوں گا۔بچے کے باپ کو غصہ آیا قاری صاحب سے دست گریبان ہوئے لیکن قاری صاحب نے قرآن ہاتھ میں اٹھا لیا اور بچے کو جھوٹا کہہ دیا۔جاپانی آٹھ سالہ بچہ اور جھوٹا۔۔ یہ تو ناممکن تھا۔بحر حال لوگوں کو جمع کیا گیا اور جب دوسرے بچوں سے تصدیق کی گئی تو کچھ نے شرماتے شرماتے بتا دیا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔جتنی دیر میں بچوں سے تصدیق کی جارہی تھی قاری صاحب اتنی دیر میں رفو چکر ہو گئے۔ان میاں بیوی کو ایسا شاک لگا کہ یہ بھی بوریا بسترا گول کرکے جاپان واپس آگئے۔

یہ واقعہ سن کر مجھے بھی بہت افسوس ہوا۔ واقعہ ہے ہی قابل افسوس۔ اس کو تحریر کرتے ہوئے بھی شرم آئی لیکن جس مقصد کے لیے اس کو لکھا اسکو میں بہت ضروری سمجھتا ہوں اس لیے تحریر کررہا ہوں۔
یہ سب ہمارے سامنے ہے کہ آج کل جس طرح گلى گلى جعلى يونيورسٹیاں ،سكول، كالج ،نرسريز اور آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ بنے ہوئے ہيں اسی طرح گلی محلوں میں کچھ ایسی مساجد بھی ہیں جہاں مسجد کے ساتھ مدرسہ کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے دو تین ہزار تنخواہ پر ایک قاری نما آدمی کو بٹھا دیا جاتا ہے،اور اس بات کی تحقیق نہ مسجد کی انتظامیہ کرتی ہے اور نہ اپنے بچوں کو اس مولوی کے پاس بھیجنے والے والدیں کرتے ہیں کہ آیا یہ بندہ مکمل قاری بھی ہے؟ کسی اچھے مدرسے سے فارغ التحصیل بھی ہے،؟اسکا کریکٹر کیسا ہے؟کہیں جرائم پیشہ تو نہیں؟کہاں سے تعلق رکھتا ہے؟کدھر سے آیا ہے؟۔ مسجد کمیٹی والوں کو ایک داڑھی والا آدمی چاہیے ہوتا ہے جو کچھ صورتیں اچھے لہجے میں پڑھ سکے اور اس بندے کو شہر میں ٹھکانہ ۔ دونوں کا کام چل جاتا ہے ۔ یہاں سے پھر بدبختی ان لوگوں کی آجاتی ہے جو اپنے بچوں کو نیک نیتی کے ساتھ قرآن پڑھانے کے لیے اس کے پاس بٹھا دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے پہلے ایک تھریڈ میں لکھا کہ محلے کی مسجد کی کمیٹیوں کے صدر اور ذمہ دار ذیادہ تر گورنمنٹ اداروں کے منشی ، آفسر ریٹائرڈ ہوتے ہیں ، وہ عام طور پر اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ محلے کی دینی ضروریات کو سمجھ سکیں اور پھر اسکے مطابق انتظا م کرسکیں ، انکی اپنی نمازیں ، قرآن تک ٹھیک نہیں ہوتا، انکا کام بس یہی ہوتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد جمع شدہ چندے کے پیسے گننا یا مسجد کے خادم کے پیچھے لگے رہنا کہ تم نے موٹر کیوں نہیں چلائی، مسجد کی صفائی صحیح کیوں نہیں کی ، اذان وقت پر کیوں نہیں دی، وہ مدرسے اور تعلیم و تربیت کے کاموں میں دلچسپی لیتے ہی نہیں ۔ اکثروبیشتر تمام تر ذمہ داری اپنی مرضی سے منتخب کردہ اسی نیم مولوی ،حافظ پر ڈال دیتے ہیں۔ پھر جب اس ایک آدمی کے ہاتھ میں سارا انتظام و انصرام آ جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنی خواہش سے سپیکر کو بھی استعمال کرتا ہے ، اسی انداز میں اپنے طالب علموں کی تربیت بھی کرتا ہے اور اسکی ساری تقریریں بھی اسکی ذاتی سائیکی کے گرد گھوم رہی ہوتی ہیں ، یہاں پھر خرابیوں کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محلے داروں اوراچھے مدارس کے معلمین کے کمبی نیشن سے ادارے چلائے جائیں اور مدرسے کے کام کو دینی فریضہ سمجھ کر باہمی مشاورت سےسرانجام دیا جائے۔ مساجد میں موجود مدارس کے آئمہ کی تنخواہیں اچھی رکھی جائیں ۔ دینی تعلیم کے لیے اچھے سے اچھے عالم ، قاری کو رکھا جائے ، اس کےلیے اچھے مدارس سے رجوع کیا جائے وہ اپنی ذمہ داری پر ایسے بندے کو بھیجیں جس کی زبان پر ہی نہیں دل میں بھی قرآن ہو اور وہ خوف خدا بھی رکھتا اور بچوں کی دینی تربیت کا طریقہ بھی جانتا ہو۔مساجد کے آئمہ کے لیے عالم یا مفتی ہونا لازم قرار پانا چاہیے ، صرف حافظ کو امام بنا دینا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے بلکل بھی درست نہیں ۔محلے کی مسجد کے امام اور مدرس کے لیے شادی شدہ ہونا بھی ایک شرط ہونا چاہیے ، کیونکہ اُنکو زیادہ تر امرد بچوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے اور شیطان سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ۔امام کے لیے ضروری ہو کہ وہ نہ صرف کسی شیخ سے بیعت ہو بلکہ خود بھی مسجد میں ہفتہ وار اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔
دوسری طرف والدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کم ازکم بچہ کو مدرسے میں داخل كروانے سے پہلے اس بات کی تحقیق كر لیں کہ آیا ادارہ رجسٹرڈ بھی ہے يا مدرسے کے كسى بورڈ سے الحاق شدہ بھی ہے یا نہیں۔ اس کے اساتذہ کا اخلاق کیسا ہے ؟ وہ کہاں سے پڑھ کر آئے ہیں ؟ ان کا رکھ رکھاؤ کیسا ہے ۔؟ یہ فتنہ کا دور ہے ہمیں اس اندھے اعتماد کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمارے لوگ اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لیے تو اپنے دوستوں سے ارد گرد کے لوگوں سے شہر کے سکولوں کے متعلق مشورے کرتے ہیں کہ بچہ بڑا ہورہا ہے اسکو کس سکول میں داخل کرایا جائے ؟ پھر پوری تحقیق کے بعد شہر کے اچھے سے اچھے سکول کا انتخاب کرتے ہیں ،فیسیں بھی دیتے ہیں، ٹیوشن کے لیے بھی اچھے سے اچھا ٹیوٹر ڈھونڈ کر گھر ٹیوشن لگا کردیتے ہیں اور دینی تعلیم کے لیے اتنی لاپرواہی برتے ہیں کہ اپنی گلی کی مسجد کے مفت پڑھانے والے نیم مولوی کے پاس بٹھا دیتے ہیں اور پھر بعد میں شکوہ بھی کرتے ہیں ۔ ۔ ضروری ہے کہ دینی تعلیم کے لیےبھی مدرسہ اور استاد کے انتخاب میں مناسب تحقیق کی جائے۔جس طرح اوپر بیان کیے گئے واقعہ میں ہم نے یہ دیکھا ان جاپان سے آنے والے صاحب نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کے لیے ملک ، نوکری، آسائش سب کچھ چھوڑ دیا اور پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک میں آبسے ۔ اب جس چیز کے لیے اتنی قربانی دی اس کے حصول میں بعد میں اتنے لاپرواہ ہوگئے کہ بغیر کسی تحقیق کے اندھا اعتبار کرتے ہوئے اپنے بچے کو کسی مولوی نما بھیڑے کے پاس پڑھنے بٹھا دیا ۔ پھر اسی لاپرواہی کے نتیجے میں جو واقعہ ہوا ، اسکے بعد بھی کسی سے کوئی مشورہ نہیں کیا ، بلکہ سارے مدارس کو بھی اس طرح کا سمجھ کر جذبات میں دوبارہ واپس چلے گئے۔ ایک اچھی بات جو اس واقعہ میں نظر آئی وہ یہ کہ والدین کو اپنے بچوں کی اپنے طور پربھی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو بھی تو بچے شرما کر بات چھپائیں نہیں بلکہ اس بچے کی طرح والدین کو بتائیں تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔
جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہماری اجتماعی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے واقعات شاذوناذر ہوجاتے ہیں، لیکن ہمارے میڈیا کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ کہیں پیش آجائے اس کو اچھالا اس طرح جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہی مدارس کا روزمرہ کا معمول ہے، ہمارے روشن خیال مبصرین ، کالم نگار حضرات ان کالی بھیڑیوں کی مثالیں دیتے ہوئے سارے مدارس کو ہی قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں ، جب ہمارے ہاں جعلى كلينكوں اور عطائى ڈاكٹروں كا نام لے كر ميڈيكل پروفيشن كو لعن طعن كرنا درست نہيں سمجھا جاتا پھر ان چند واقعات كو لے كر سب دينى مدارس و جامعات كى محنت پر پانى پھيرنا کہاں کا انصاف ہے ۔؟ہمارے ہاں جعلی ڈاکٹروں نے کیا کیا کارنامے کیے ہیں وہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی آج تک ان عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے کسی نے سپیشلسٹ ڈاکٹر کو برا نہیں کہا، کسی فٹ پاتھ بیٹھے جراح کے غلط ہڈی جوڑنے کی وجہ سے آج تک کسی نے یہ نںجا کہا کہ میڈیکل کالج بند کردیئے جائیں۔ کچھ کمی ہمارے لوگوں میں اس سلسلے میں بھی ہے کہ وہ دیندار لوگوں پر اندھا اعتماد رکھتے ہوئے ہر مولوی نما آدمی کو ولی اللہ سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ دین کے نام پر دو نمبریوں کے واقعات بھی ہمارے اسی معاشرے میں عام ہیں ، کئی لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں جو صرف اپنی کسی ذاتی غرض یا سیاست کے لیے نیک نامی حاصل کرنے کے لیے داڑھی رکھ لیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد ان کا شمار بھی دینی لحاظ سے اچھے ناموں میں ہونے لگتا ہے، اس طرح کئی بد عورتیں برقعہ پہن کر اپنا دھندا کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ اب انکو دیکھ کر کوئی سارے دیندار لوگوں اور برقعہ پہننے والی عورتوں کو غلط سمجھنےلگ جائے ، یہ ایسے ہی جیسے ایک بندہ کسی ڈاکٹر جیسا حلیہ بنا لے اورلوگوں کا علاج کرتا پھرے پھر بعد میں ہم اسکے گناہ یہ کہہ کر اس سپیشلسٹ ڈاکٹر پر ڈال دیں کہ اسکی شکل تم سے ملتی ہے وہ جو کچھ کرے گا تم بھی اس کے ذمہ دار ہوگے۔ یہ کہاں انصاف کی بات ہوگی ۔
source : http://bunyadparast.blogspot.com
Reply

Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.

When you create an account, you can participate in the discussions and share your thoughts. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and make new friends.
Sign Up
British Wholesales - Certified Wholesale Linen & Towels | Holiday in the Maldives

IslamicBoard

Experience a richer experience on our mobile app!