MohammadRafique
Elite Member
- Messages
- 270
- Reaction score
- 10
- Gender
- Male
- Religion
- Islam
یہ موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ ہے کہ بہترین دوست کیسے تلاش کیا جائے؟
دوست کئی طرح کے ہوتے ہیں اور یاری دوستی بھی کئی لوگوں سے ہوتی ہے اسلئے ہر شخص فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ کو ئی اسکا دوست ہو۔
کیونکہ جس کا کوئی دوست نہیں وہ خود کو تنہا اور ویران محسوس کرتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک ایسے دوست کی تلاش میں رہتا ہے جو مخلص ہو، دیانت دار اور بے لوث ہو اور اپنے دوست کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو۔
اور اگر خوش قسمتی سے کسی کو ایسا دوست مل جائے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک بہار آگئی، جیسے کلیاں پھوٹتی ہیں، پھول کھلتے ہیں اور قوس قزح کے رنگ ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ فی زمانہ کیا ایسا دوست ملنا ممکن ہے؟ اگرچہ یہ ناممکن نہیں مگر مشکل ضرورہے کیونکہ عام طور پر ایسے خود غرض دوست ملتے ہیں جواپنے دوستوں کی جڑیں کاٹتے ہیں اور اپنا مطلب پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن، ا س خود غرضی کے حالات میں انسان کا ایک سچا دوست بھی ہے جو اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہتا ہے۔
وہ جو نظر تو نہیں آتا لیکن اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے،جو طاقتور ہے با اختیار ہے اور اپنے حکم کو پورا کر نا خوب جانتا ہے۔
جی ہاں یہ دوست اللہ تعالی ہے! جو مالک و خالق، کائنات کا بادشاہ اور انسان کا سچا دوست ہے۔
قرآن پاک میں اس کا بیان ہے، ”اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ جوان کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے نور کی طرف لاتا ہے“ (2.257)۔ اور فرمایا'' کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے دوست بنالئے ہیں؟ درحقیقت اللہ ہی حفاظت کرنے والا دوست ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ (الشوریٰ: 09)
اور فرمایا”اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا دوست ہے، بڑا کارساز، بڑا مددگار ہے۔“ (الانفال:38)۔
سوال یہ ہے کہ دوستی کی صحیح تعریف کیا ہے اور دوستی کسے کہتے ہیں؟ تو دوست وہ ہے جو یہ کہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ میرا نہیں بلکہ میرے دوست کا ہے ہے میرا دوست جس وقت بھی اور جو جو چیز بھی مجھ سے مانگے گا تو میں فورا حاضر کر دوں گا جب بھی وہ اسے طلب کرے.....
جی ہاں، دوستی کی اصل تعریف تو یہی ہے لیکن اس میں ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ دوستی کی حد عقل اور شریعت کے دائرے کے اندر ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ دوستی کی تعریف وہ ہے جس کی اجازت شریعت نے دی ہے کہ ایک دوست اپنے دوست سے وہی چیز طلب کرے گا جس کی اجازت اسے شریعت اور عقل نے دی ہے یعنی اگر اس کا دوست امیر ادمی ہے تو دوسرا دوست اگر غریب ہے تو وہ اس سے یہ نہ کہے کہ بھئی اتنے پیسے مجھے دے دو یگا یا اگر اس کا دوست کنوارا ہے تو اپنے دوست سے یہ نہ کہے کہ بھائی مجھے اپنی بیٹی یا بہن میرے نکاح میں دے دو لہذا شریعت اور عقل کے دائرے کے اندر دوستی کی حد ہے
اللہ تبارک و تعالی جو ایک زبردست حکمران بادشاہ اور بلا شرکت غیر اس کائنات کا حکمران ہے اس کی طاقتوں اس کا اختیار اور وہ کیا کچھ کر سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا انسانی عقل سے باہر ہے انسان اللہ تبارک و تعالی کی قوت طاقت شان و شوکت اور اس کا زبردست اختیار اور اس کا حکم جو انسان پر چلتا ہے اس کا وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتا جیسا کہ قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہو کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے) اور فرمایا Al-(Imran (The Family of Imran) 3:26 9 وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ﴿۲۲﴾ وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے ﴿۲۳﴾ وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے (The Gathering) 59:23
اللہ تبارک و تعالی کی عظمت بلندی جاہ و جلال جبروت لامحدود قوتوں اور قدرتوں کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک چیز اللہ تبارک و تعالی کے پاس نہیں ہے اور وہ انسان کے پاس ہے اور اللہ تبارک و تعالی اس سے اس کا طلب گار بھی ہےاور وہ ہے اور رونا اور گڑگڑاناگڑگڑانا بندگی اور فریاد کرنا اپنی بے اختیاری لاچاری اور مجبوری کا اظہار کرنا اور اس کے اگے سجدہ ریز ہو جانا اور اسے پکارنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اپ ہی سب کچھ ہیں اور میں کچھ نہیں ہوں اگر اپ چاہیں گے تو سب کچھ ہوگا اگر اپ نے چاہیں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگااور ہر وقت اس چیز کا دھیان دل میں رکھنامگر یہ تمام چیزیں بھی انسان کا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ یہ بھی اسی کی عطا کردہ ہیں تاکہ اگر انسان اللہ تبارک و تعالی سے دوستی لگانا چاہے تو وہ ان کا استعمال کرے اور حق کے دوست ادا کر سکےاور اگر انسان ان تمام چیزوں کو استعمال کر کے اللہ تبارک و تعالی سے دوستی لگائے گا تو وہ یعنی اس کا دوست اسے وہ کچھ عطا کرے گا جو نہ تو اس کی انکھوں نے اج تک دیکھا ہے اور نہ ہی ان کے کانوں نے اس کے کانوں نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی نہ ہی ان عظیم نعمتوں کا اس کے ذہن میں تصور بھی ایا ہےیعنی ایک عظیم الشان اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی اور دائمی اور ابدی کامیابی اور لامحدود نعمتیں اور وہ سب کچھ جس کے بارے میں سوچنا انسان کے بس کی بات نہیں قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے ان پر فرشتے اُتریں گے (اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ ﴿۳۰﴾ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق ہیں) ۔ اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو (ملے گی) اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لئے (موجود ہوگی) ﴿۳۱﴾ (یہ) بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہےحٰمٓ السجدة30
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس کو ایک اچھا دوست نہ ملنے کی شکایت ہے وہ دراصل خود ہی اچھا دوست نہیں
دوست کئی طرح کے ہوتے ہیں اور یاری دوستی بھی کئی لوگوں سے ہوتی ہے اسلئے ہر شخص فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ کو ئی اسکا دوست ہو۔
کیونکہ جس کا کوئی دوست نہیں وہ خود کو تنہا اور ویران محسوس کرتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک ایسے دوست کی تلاش میں رہتا ہے جو مخلص ہو، دیانت دار اور بے لوث ہو اور اپنے دوست کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو۔
اور اگر خوش قسمتی سے کسی کو ایسا دوست مل جائے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں ایک بہار آگئی، جیسے کلیاں پھوٹتی ہیں، پھول کھلتے ہیں اور قوس قزح کے رنگ ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ فی زمانہ کیا ایسا دوست ملنا ممکن ہے؟ اگرچہ یہ ناممکن نہیں مگر مشکل ضرورہے کیونکہ عام طور پر ایسے خود غرض دوست ملتے ہیں جواپنے دوستوں کی جڑیں کاٹتے ہیں اور اپنا مطلب پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن، ا س خود غرضی کے حالات میں انسان کا ایک سچا دوست بھی ہے جو اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہتا ہے۔
وہ جو نظر تو نہیں آتا لیکن اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے،جو طاقتور ہے با اختیار ہے اور اپنے حکم کو پورا کر نا خوب جانتا ہے۔
جی ہاں یہ دوست اللہ تعالی ہے! جو مالک و خالق، کائنات کا بادشاہ اور انسان کا سچا دوست ہے۔
قرآن پاک میں اس کا بیان ہے، ”اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ جوان کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے نور کی طرف لاتا ہے“ (2.257)۔ اور فرمایا'' کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے دوست بنالئے ہیں؟ درحقیقت اللہ ہی حفاظت کرنے والا دوست ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ (الشوریٰ: 09)
اور فرمایا”اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا دوست ہے، بڑا کارساز، بڑا مددگار ہے۔“ (الانفال:38)۔
سوال یہ ہے کہ دوستی کی صحیح تعریف کیا ہے اور دوستی کسے کہتے ہیں؟ تو دوست وہ ہے جو یہ کہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ میرا نہیں بلکہ میرے دوست کا ہے ہے میرا دوست جس وقت بھی اور جو جو چیز بھی مجھ سے مانگے گا تو میں فورا حاضر کر دوں گا جب بھی وہ اسے طلب کرے.....
جی ہاں، دوستی کی اصل تعریف تو یہی ہے لیکن اس میں ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ دوستی کی حد عقل اور شریعت کے دائرے کے اندر ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ دوستی کی تعریف وہ ہے جس کی اجازت شریعت نے دی ہے کہ ایک دوست اپنے دوست سے وہی چیز طلب کرے گا جس کی اجازت اسے شریعت اور عقل نے دی ہے یعنی اگر اس کا دوست امیر ادمی ہے تو دوسرا دوست اگر غریب ہے تو وہ اس سے یہ نہ کہے کہ بھئی اتنے پیسے مجھے دے دو یگا یا اگر اس کا دوست کنوارا ہے تو اپنے دوست سے یہ نہ کہے کہ بھائی مجھے اپنی بیٹی یا بہن میرے نکاح میں دے دو لہذا شریعت اور عقل کے دائرے کے اندر دوستی کی حد ہے
اللہ تبارک و تعالی جو ایک زبردست حکمران بادشاہ اور بلا شرکت غیر اس کائنات کا حکمران ہے اس کی طاقتوں اس کا اختیار اور وہ کیا کچھ کر سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا انسانی عقل سے باہر ہے انسان اللہ تبارک و تعالی کی قوت طاقت شان و شوکت اور اس کا زبردست اختیار اور اس کا حکم جو انسان پر چلتا ہے اس کا وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتا جیسا کہ قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہو کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے) اور فرمایا Al-(Imran (The Family of Imran) 3:26 9 وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ﴿۲۲﴾ وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے ﴿۲۳﴾ وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے (The Gathering) 59:23
اللہ تبارک و تعالی کی عظمت بلندی جاہ و جلال جبروت لامحدود قوتوں اور قدرتوں کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک چیز اللہ تبارک و تعالی کے پاس نہیں ہے اور وہ انسان کے پاس ہے اور اللہ تبارک و تعالی اس سے اس کا طلب گار بھی ہےاور وہ ہے اور رونا اور گڑگڑاناگڑگڑانا بندگی اور فریاد کرنا اپنی بے اختیاری لاچاری اور مجبوری کا اظہار کرنا اور اس کے اگے سجدہ ریز ہو جانا اور اسے پکارنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اپ ہی سب کچھ ہیں اور میں کچھ نہیں ہوں اگر اپ چاہیں گے تو سب کچھ ہوگا اگر اپ نے چاہیں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگااور ہر وقت اس چیز کا دھیان دل میں رکھنامگر یہ تمام چیزیں بھی انسان کا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ یہ بھی اسی کی عطا کردہ ہیں تاکہ اگر انسان اللہ تبارک و تعالی سے دوستی لگانا چاہے تو وہ ان کا استعمال کرے اور حق کے دوست ادا کر سکےاور اگر انسان ان تمام چیزوں کو استعمال کر کے اللہ تبارک و تعالی سے دوستی لگائے گا تو وہ یعنی اس کا دوست اسے وہ کچھ عطا کرے گا جو نہ تو اس کی انکھوں نے اج تک دیکھا ہے اور نہ ہی ان کے کانوں نے اس کے کانوں نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی نہ ہی ان عظیم نعمتوں کا اس کے ذہن میں تصور بھی ایا ہےیعنی ایک عظیم الشان اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی اور دائمی اور ابدی کامیابی اور لامحدود نعمتیں اور وہ سب کچھ جس کے بارے میں سوچنا انسان کے بس کی بات نہیں قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے ان پر فرشتے اُتریں گے (اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ ﴿۳۰﴾ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق ہیں) ۔ اور وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو (ملے گی) اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لئے (موجود ہوگی) ﴿۳۱﴾ (یہ) بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہےحٰمٓ السجدة30
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس کو ایک اچھا دوست نہ ملنے کی شکایت ہے وہ دراصل خود ہی اچھا دوست نہیں