jalismirza
Rising Member
- Messages
- 13
- Reaction score
- 0
- Gender
- Male
- Religion
- Islam
.لاؤڈ اسپیکر… رمضان آمان
ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
جلیل القدر تابعی اور عرب سرداراحنف بن قیس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ علم اور حِلم میں بے مثال ہیں ،رواداری، بردباری اور تحمل مزاجی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے ،بدگوئی سے دور بھاگتے ہیں اور نرم گوئی سے دلوں میں گھر کرتے ہیں… یار دوستوں نے تو بارہا چاہا مگر اُنہیں کبھی غصہ نہیں آیا، سخت سے سخت بات بھی اُنہیں اشتعال کی سرحدوں کی طرف دھکیلنے میں ہمیشہ ناکام رہی اور وہ اُکسانے والوں پر اکثر مسکراتے ہی رہے…اُن کی یہ تمام صفات اہلِ عرب میں کسی ضرب المثل کی طرح عام تھیں اور والدین اپنے بچوں کے درمیان احنف کا ذکر فخر سے کیا کرتے تھے…پھر ہوا یوں کہ ایک دن اُن کے کچھ ”دوست“ ایک جگہ جمع ہوئے اور اُن میں اِس بات پر شرط لگ گئی کہ کسی طرح احنف کو غصہ دلایا جائے اور اُنہیں اِس حد تک مشتعل کر دیا جائے کہ لوگ اُن سے دور بھاگنے لگیں لہٰذا اُن سب نے مل کر ایک نوجوان کو تیار کیا اور اُسے احنف کے گھر بھیج دیا…وہ نوجوان ڈھٹائی کے خمیر سے مرصع ایک ایسا وجود تھا کہ جس پر ایک نظر پڑتے ہی انسان اُلجھ کر رہ جائے چنانچہ وہ لبوں پر ایک مکروہ مگر معنی خیز مسکراہٹ سجائے احنف کے سامنے جابیٹھا…احنف نے نوجوان کو بغور دیکھنے کے بعد اُس سے سوال کیا کہ ”کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے“…نوجوان نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ”کام تو بہت خاص ہے ،اگرآپ کو گراں نہ گزرے تو عرض کروں“…احنف نے جواباً خوش دلی سے کہا کہ ”ضرور فرمائیے“ …اب اُس کے ہونٹوں پر کسی طوائف کی طرح رقص کرتی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور اُس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا کہ ”بات دراصل یہ ہے کہ میں تمہاری ماں سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہی پیغام لے کر میں تمہارے پاس آیا ہوں“…اُسے یقین تھا کہ یہ بے ہودہ بات سننے کے بعد احنف غصے سے آگ بگولہ ہو جائیں گے اور اُسے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیں گے مگر ہوا اِس کے برعکس!…احنف نے نہایت پُرسکون لہجے میں اُس سے کہا کہ ”بھائی! ہمیں تو آپ کے ساتھ سسرالی رشتہ جوڑنے میں کوئی عار نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کا حسب و نسب انتہائی محترم و معزز ہو گا جب ہی تو آپ نے یہ زحمت فرمائی،مگر کیاکروں کہ میری والدہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکی ہیں،70برس کی ایک خاتون کسی نوجوان سے بیاہتے ہوئے اچھی نہیں لگیں گی اور نوجوان بھی ایسا کہ جسے ایک سے بڑھ کر ایک اچھی اور کم عمر لڑکیاں بھی مل جائیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ آپ کسی ایسی خاتون سے عقد فرمائیے جو نہ صرف آپ کی ہم عمر ہوں بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والی بھی ہوں اور ساتھ ساتھ اِس قابل بھی ہوں کہ آپ کے بچوں کی ماں بن سکیں،میری والدہ کا کیا ہے؟ وہ شاید کچھ دن اور جی لیں لیکن آپ کو بچوں کا سکھ نہیں دے سکیں گی“…اور پھر کچھ لمحوں کے توقف کے بعد احنف نے یہ آخری جملہ کہا کہ ”جن لوگوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے اُنہیں جاکر یہ بھی بتا دیجئے گا کہ آپ مجھے غصہ دلانے میں ناکام رہے“۔
میں یقینا اِس بات سے بے خبر ہوں کہ احنف کے دور میں ایسے پُر فتن افراد کتنی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن اپنے وطن میں کم از کم ایک ایسے شخص سے بلاشبہ واقف ہوں جسے دیکھتے ہی انسان مٹھیاں بھینچ لے،احترام کرنے کو جی نہ چاہے،ہونٹ خود بخود سکڑ جائیں،پیشانی شکن گفتہ بن کر احتجاج کرے، رُواں رُواں استقبالِ جلال کے لئے کھڑا ہوجائے اور نگاہیں آنکھوں کو یہ کہہ کر کوسیں کہ اگر تم چند لمحوں کے لئے بے نیاز ہوجاتیں تو ہم اُس پر پڑنے سے تو بچ جاتیں…ایسی مخلوق کو تو دیکھنے کے لئے ہی بڑا دل گردہ چاہئے چہ جائیکہ کوئی اُن سے تنہائی میں ملاقات کرے، اُنہیں بہت دیر تک اپنے سامنے دیکھے اور محسوس کرے،صحرا کی ریت کی طرح چبھنے والی اُن کی مسکراہٹ کا جواب اپنے تبسم سے دے، رُتبے کا احساس کرتے ہوئے اُن کی بے تکی باتوں پر سر ہلائے،بار بار گھڑی کی جانب یہ سوچ کر نظر دوڑائے کہ رخصت کی گھڑی کب آئے گی؟جب کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ وہ جس انسان کے سامنے بیٹھا ہے اُس سے ملک کے کروڑوں انسان نجات کی دعائیں مانگتے ہیں، ہزاروں بے گناہوں کا قتل اُس کی گردن پر ہے ، لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکا عرشِ الٰہی کا مسلسل طواف کر رہی ہے، غریب اِسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں،ستم رسیدہ ، مزاراتِ اولیاء پر اِس سے آزادی کی منتیں مانگتے ہیں، کہنے والے اِس کے لئے بھلا نہیں کہتے اور لکھنے والے اِس پر اچھا نہیں لکھتے،یہ قو م کے لئے بیک وقت غم او ر صدمے کا باعث ہے ، کبھی اِسے دیکھ کر غصہ آتا ہے اور کبھی اپنے ہی اعمال پر رونا…لیکن کیا کیجئے کہ اِن سب حقیقتوں کے باوجود وہ ایک حقیقت ہے ، ایک ایسا سچ کہ جس پر سوائے شرمندگی کے کوئی اور تبصرہ ممکن ہی نہیں ہے …خیر! یہ ساری تلخیاں اپنی جگہ مگر شیرینی تو یہ ہے کہ احنف بن قیس کی طرح اُس سے ملنے والے ”ملاقاتی“ کو بھی غصہ نہ آیا حالانکہ اُس نے بانچھوں سے کِھلا اپنا چہرہ کئی بار ”ملاقاتی“ کے سامنے اِس سبب سے کیا کہ وہ اُس کی مسکراہٹ کو تمسخر سمجھے اور اُس کی اُٹھی ہوئی بھنووں کو طنز، وہ چاہتا تھا کہ ”ملاقاتی“ یا تو شیر کی طرح بپھر جائے یاپھر اُس کے سامنے بکھر جائے، وہ اُس کے چہرے سے اطمینان چھین لینا چاہتا تھا ،اُس کی خواہش تھی کہ ”ملاقاتی“ کے ردعمل کی کھڑکی پر لگا قفل اُس کے جملوں کے تیروں سے ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں گرے اور پھر انتقام کی دھوپ اُسی کھڑکی سے نمودار ہوجائے…مگر یہ ہونہ سکا…احنف بن قیس کے قدموں کے نشان پر جم کے قدم رکھنے والا بڑے دنوں سے جما ہوا تھا،اُسے بھی غصہ نہیں آیا، اُس نے اپنے ماضی سے صرف سیکھا نہیں ہے بلکہ آنے والے مستقبل کو ایک اچھے اُستاد کی طرح سکھا بھی رہا ہے ، پہلے وہ خامیوں پر حامیوں کی مدد سے قابو پاتا تھا اور اب ہر کمی کو اپنے دل کی نمی سے پیار کے ساتھ مٹا دیتا ہے …ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے،سختیوں نے جس فطرت کو تھپکیاں دے کر سلایا ہے کہیں وہ پھر سے جاگ نہ جائے…میں کیا کروں لیکن مجھے ڈر تو لگتا ہے ، سنگھاسن پر بیٹھنے سے قبل اور براجمان ہونے کے بعد تاریخ کے اوراق تو یہی کہتے ہیں کہ روپ عموماً مختلف ہوتے ہیں…اللہ کرے کہ اِس وقت جو روپ ہے وہ اقتدار کی دھوپ میں موم کی طرح پگھل نہ جائے کیونکہ یہ موم جس سانچے پر چڑھا ہے وہ بہرحال اصل ہے اور میں اُسی اصل کے ظاہر ہونے سے خوف کھاتا ہوں، فی الوقت تو چال میں توازن اور انداز میں ٹھہراؤ ہے، فیصلے بزرگ اور اُن پر عمل جوان ہے اور اِسی بنا پر میں اپنے اردگرد اُمید کے درجنوں دیے جلائے بیٹھا ہوں، مخالفت کی آندھی تو شاید اُنہیں بجھا نہ سکے لیکن اگر منافقت نے جینے کے لئے ایک بھی سانس اندر کھینچ لی تو میرے سارے دیے سرد ہوجائیں گے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے میرے یقین کو بری طرح جکڑ رکھا ہے …!
اچھی خبریں سنانے والے کہتے ہیں کہ ”ملاقاتی“ جس سے ملا تھا شاید اب وہ بہت جلد چلا جائے گا مگر میں تو صرف یہی سوچتا ہوں کہ اُس کے رہتے ہوئے جو اتنا کچھ بگڑا ہے وہ کیا سب دوبارہ بن پائے گا؟ ہر آج کو یقینا بیتا کل بننا ہے لیکن آنے والے کل کے لئے گزرے کل کو بھی تو یاد رکھنا ہے !وہ شخص شجر کو پھلوں سے ہی نہیں بلکہ پتوں سے بھی محروم کرچکا ہے،شاخیں سہمی سہمی سی ہیں اور دائمی خزاں کے وہم نے اُن کی نشو ونما کی عادت کو بدشگونی کے پنجرے میں مقید کردیا ہے…ایسے میں جڑوں کو پانی دینے والے پر بھی اب اُسے اعتماد نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ نئی کونپلیں پھر کسی لٹیرے کے لئے پھوٹیں، پھر کوئی پھلوں کو توڑ کر نہیں بلکہ بھنبھوڑ کر کھائے، مفاہمت کے کلہاڑے نے اُس کی ٹہنیوں کو رُسوا کر دیا ہے اور اب وہ خوفزدہ ہے کہ ”مصلحت کے خنجر“ سے کہیں اُس کے تنے کو اُنہی ناموں سے دوبارہ نہ گودا جائے جنہوں نے اِس کی چھاؤں تک کو بیچ ڈالاتھا…تبدیلی تو نہیں آسکی لیکن مالی یقینا تبدیل ہونے جارہا ہے …یاد رکھئے کہ لوگ نہیں بدلتے چاہے کوئی اُنہیں بہترین راستہ ہی کیوں نہ دکھادے، وہ توصرف اُسی وقت تبدیل ہوتے ہیں جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کوئی راستہ باقی ہی نہیں بچا…!!!!
جلیل القدر تابعی اور عرب سرداراحنف بن قیس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ علم اور حِلم میں بے مثال ہیں ،رواداری، بردباری اور تحمل مزاجی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے ،بدگوئی سے دور بھاگتے ہیں اور نرم گوئی سے دلوں میں گھر کرتے ہیں… یار دوستوں نے تو بارہا چاہا مگر اُنہیں کبھی غصہ نہیں آیا، سخت سے سخت بات بھی اُنہیں اشتعال کی سرحدوں کی طرف دھکیلنے میں ہمیشہ ناکام رہی اور وہ اُکسانے والوں پر اکثر مسکراتے ہی رہے…اُن کی یہ تمام صفات اہلِ عرب میں کسی ضرب المثل کی طرح عام تھیں اور والدین اپنے بچوں کے درمیان احنف کا ذکر فخر سے کیا کرتے تھے…پھر ہوا یوں کہ ایک دن اُن کے کچھ ”دوست“ ایک جگہ جمع ہوئے اور اُن میں اِس بات پر شرط لگ گئی کہ کسی طرح احنف کو غصہ دلایا جائے اور اُنہیں اِس حد تک مشتعل کر دیا جائے کہ لوگ اُن سے دور بھاگنے لگیں لہٰذا اُن سب نے مل کر ایک نوجوان کو تیار کیا اور اُسے احنف کے گھر بھیج دیا…وہ نوجوان ڈھٹائی کے خمیر سے مرصع ایک ایسا وجود تھا کہ جس پر ایک نظر پڑتے ہی انسان اُلجھ کر رہ جائے چنانچہ وہ لبوں پر ایک مکروہ مگر معنی خیز مسکراہٹ سجائے احنف کے سامنے جابیٹھا…احنف نے نوجوان کو بغور دیکھنے کے بعد اُس سے سوال کیا کہ ”کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے“…نوجوان نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ”کام تو بہت خاص ہے ،اگرآپ کو گراں نہ گزرے تو عرض کروں“…احنف نے جواباً خوش دلی سے کہا کہ ”ضرور فرمائیے“ …اب اُس کے ہونٹوں پر کسی طوائف کی طرح رقص کرتی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور اُس نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا کہ ”بات دراصل یہ ہے کہ میں تمہاری ماں سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہی پیغام لے کر میں تمہارے پاس آیا ہوں“…اُسے یقین تھا کہ یہ بے ہودہ بات سننے کے بعد احنف غصے سے آگ بگولہ ہو جائیں گے اور اُسے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیں گے مگر ہوا اِس کے برعکس!…احنف نے نہایت پُرسکون لہجے میں اُس سے کہا کہ ”بھائی! ہمیں تو آپ کے ساتھ سسرالی رشتہ جوڑنے میں کوئی عار نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کا حسب و نسب انتہائی محترم و معزز ہو گا جب ہی تو آپ نے یہ زحمت فرمائی،مگر کیاکروں کہ میری والدہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکی ہیں،70برس کی ایک خاتون کسی نوجوان سے بیاہتے ہوئے اچھی نہیں لگیں گی اور نوجوان بھی ایسا کہ جسے ایک سے بڑھ کر ایک اچھی اور کم عمر لڑکیاں بھی مل جائیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ آپ کسی ایسی خاتون سے عقد فرمائیے جو نہ صرف آپ کی ہم عمر ہوں بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والی بھی ہوں اور ساتھ ساتھ اِس قابل بھی ہوں کہ آپ کے بچوں کی ماں بن سکیں،میری والدہ کا کیا ہے؟ وہ شاید کچھ دن اور جی لیں لیکن آپ کو بچوں کا سکھ نہیں دے سکیں گی“…اور پھر کچھ لمحوں کے توقف کے بعد احنف نے یہ آخری جملہ کہا کہ ”جن لوگوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے اُنہیں جاکر یہ بھی بتا دیجئے گا کہ آپ مجھے غصہ دلانے میں ناکام رہے“۔
میں یقینا اِس بات سے بے خبر ہوں کہ احنف کے دور میں ایسے پُر فتن افراد کتنی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن اپنے وطن میں کم از کم ایک ایسے شخص سے بلاشبہ واقف ہوں جسے دیکھتے ہی انسان مٹھیاں بھینچ لے،احترام کرنے کو جی نہ چاہے،ہونٹ خود بخود سکڑ جائیں،پیشانی شکن گفتہ بن کر احتجاج کرے، رُواں رُواں استقبالِ جلال کے لئے کھڑا ہوجائے اور نگاہیں آنکھوں کو یہ کہہ کر کوسیں کہ اگر تم چند لمحوں کے لئے بے نیاز ہوجاتیں تو ہم اُس پر پڑنے سے تو بچ جاتیں…ایسی مخلوق کو تو دیکھنے کے لئے ہی بڑا دل گردہ چاہئے چہ جائیکہ کوئی اُن سے تنہائی میں ملاقات کرے، اُنہیں بہت دیر تک اپنے سامنے دیکھے اور محسوس کرے،صحرا کی ریت کی طرح چبھنے والی اُن کی مسکراہٹ کا جواب اپنے تبسم سے دے، رُتبے کا احساس کرتے ہوئے اُن کی بے تکی باتوں پر سر ہلائے،بار بار گھڑی کی جانب یہ سوچ کر نظر دوڑائے کہ رخصت کی گھڑی کب آئے گی؟جب کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ وہ جس انسان کے سامنے بیٹھا ہے اُس سے ملک کے کروڑوں انسان نجات کی دعائیں مانگتے ہیں، ہزاروں بے گناہوں کا قتل اُس کی گردن پر ہے ، لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکا عرشِ الٰہی کا مسلسل طواف کر رہی ہے، غریب اِسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں،ستم رسیدہ ، مزاراتِ اولیاء پر اِس سے آزادی کی منتیں مانگتے ہیں، کہنے والے اِس کے لئے بھلا نہیں کہتے اور لکھنے والے اِس پر اچھا نہیں لکھتے،یہ قو م کے لئے بیک وقت غم او ر صدمے کا باعث ہے ، کبھی اِسے دیکھ کر غصہ آتا ہے اور کبھی اپنے ہی اعمال پر رونا…لیکن کیا کیجئے کہ اِن سب حقیقتوں کے باوجود وہ ایک حقیقت ہے ، ایک ایسا سچ کہ جس پر سوائے شرمندگی کے کوئی اور تبصرہ ممکن ہی نہیں ہے …خیر! یہ ساری تلخیاں اپنی جگہ مگر شیرینی تو یہ ہے کہ احنف بن قیس کی طرح اُس سے ملنے والے ”ملاقاتی“ کو بھی غصہ نہ آیا حالانکہ اُس نے بانچھوں سے کِھلا اپنا چہرہ کئی بار ”ملاقاتی“ کے سامنے اِس سبب سے کیا کہ وہ اُس کی مسکراہٹ کو تمسخر سمجھے اور اُس کی اُٹھی ہوئی بھنووں کو طنز، وہ چاہتا تھا کہ ”ملاقاتی“ یا تو شیر کی طرح بپھر جائے یاپھر اُس کے سامنے بکھر جائے، وہ اُس کے چہرے سے اطمینان چھین لینا چاہتا تھا ،اُس کی خواہش تھی کہ ”ملاقاتی“ کے ردعمل کی کھڑکی پر لگا قفل اُس کے جملوں کے تیروں سے ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں گرے اور پھر انتقام کی دھوپ اُسی کھڑکی سے نمودار ہوجائے…مگر یہ ہونہ سکا…احنف بن قیس کے قدموں کے نشان پر جم کے قدم رکھنے والا بڑے دنوں سے جما ہوا تھا،اُسے بھی غصہ نہیں آیا، اُس نے اپنے ماضی سے صرف سیکھا نہیں ہے بلکہ آنے والے مستقبل کو ایک اچھے اُستاد کی طرح سکھا بھی رہا ہے ، پہلے وہ خامیوں پر حامیوں کی مدد سے قابو پاتا تھا اور اب ہر کمی کو اپنے دل کی نمی سے پیار کے ساتھ مٹا دیتا ہے …ڈر ہے کہ نظر نہ لگ جائے،سختیوں نے جس فطرت کو تھپکیاں دے کر سلایا ہے کہیں وہ پھر سے جاگ نہ جائے…میں کیا کروں لیکن مجھے ڈر تو لگتا ہے ، سنگھاسن پر بیٹھنے سے قبل اور براجمان ہونے کے بعد تاریخ کے اوراق تو یہی کہتے ہیں کہ روپ عموماً مختلف ہوتے ہیں…اللہ کرے کہ اِس وقت جو روپ ہے وہ اقتدار کی دھوپ میں موم کی طرح پگھل نہ جائے کیونکہ یہ موم جس سانچے پر چڑھا ہے وہ بہرحال اصل ہے اور میں اُسی اصل کے ظاہر ہونے سے خوف کھاتا ہوں، فی الوقت تو چال میں توازن اور انداز میں ٹھہراؤ ہے، فیصلے بزرگ اور اُن پر عمل جوان ہے اور اِسی بنا پر میں اپنے اردگرد اُمید کے درجنوں دیے جلائے بیٹھا ہوں، مخالفت کی آندھی تو شاید اُنہیں بجھا نہ سکے لیکن اگر منافقت نے جینے کے لئے ایک بھی سانس اندر کھینچ لی تو میرے سارے دیے سرد ہوجائیں گے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے میرے یقین کو بری طرح جکڑ رکھا ہے …!
اچھی خبریں سنانے والے کہتے ہیں کہ ”ملاقاتی“ جس سے ملا تھا شاید اب وہ بہت جلد چلا جائے گا مگر میں تو صرف یہی سوچتا ہوں کہ اُس کے رہتے ہوئے جو اتنا کچھ بگڑا ہے وہ کیا سب دوبارہ بن پائے گا؟ ہر آج کو یقینا بیتا کل بننا ہے لیکن آنے والے کل کے لئے گزرے کل کو بھی تو یاد رکھنا ہے !وہ شخص شجر کو پھلوں سے ہی نہیں بلکہ پتوں سے بھی محروم کرچکا ہے،شاخیں سہمی سہمی سی ہیں اور دائمی خزاں کے وہم نے اُن کی نشو ونما کی عادت کو بدشگونی کے پنجرے میں مقید کردیا ہے…ایسے میں جڑوں کو پانی دینے والے پر بھی اب اُسے اعتماد نہیں، وہ نہیں چاہتا کہ نئی کونپلیں پھر کسی لٹیرے کے لئے پھوٹیں، پھر کوئی پھلوں کو توڑ کر نہیں بلکہ بھنبھوڑ کر کھائے، مفاہمت کے کلہاڑے نے اُس کی ٹہنیوں کو رُسوا کر دیا ہے اور اب وہ خوفزدہ ہے کہ ”مصلحت کے خنجر“ سے کہیں اُس کے تنے کو اُنہی ناموں سے دوبارہ نہ گودا جائے جنہوں نے اِس کی چھاؤں تک کو بیچ ڈالاتھا…تبدیلی تو نہیں آسکی لیکن مالی یقینا تبدیل ہونے جارہا ہے …یاد رکھئے کہ لوگ نہیں بدلتے چاہے کوئی اُنہیں بہترین راستہ ہی کیوں نہ دکھادے، وہ توصرف اُسی وقت تبدیل ہوتے ہیں جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب کوئی راستہ باقی ہی نہیں بچا…!!!!