Kartos Khan
Active member
- Messages
- 34
- Reaction score
- 9
سات منٹ
رنگ و نور۔
رنگ و نور۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئے جو عمل کیا جائے.... وہی عمل انسان کے کام آتا ہے.... اور وہی عمل انسان کے کام آئے گا.... تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کریں اور سوچیں.... میرے پاس ایسے اعمال کتنے ہیں جو میں نے خالص اللہ تعالیٰ کےلئے کیے ہیں.... ہمیں سب کچھ اللہ تعالیٰ دیتا ہے.... اور آئندہ جو کچھ ملے گا وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی دے گا.... پھر اگر ہمارا ہر عمل بھی اسی کے لئے ہو تو کتنا مزہ آجائے.... اللہ اکبر کتنا مزہ آجائے.... ہاں بے شک وفاداری اور محبت میں بہت مزہ ہے.... اچھا ہم سب آنکھیں بند کرتے ہیں.... اور ایک بار خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کہتے ہیں.... سبحان اللہ.... دیکھا آپ نے کتنا سکون ملا.... اور زمین سے آسمان تک نور ہی نور بھر گیا.... یہ نور ہمارا ہوگیا اب قیامت کے اندھیرے میں کام آئے گا.... قرآن پاک نے بتایا ہے .... قیامت کے دن ایمان والوں کا نور ان کے آگے اور دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا.... اللہ اکبر کتنا مزہ آئے گا.... اللہ پاک ہم سب کو نور عطاءفرمائے.... دراصل دل کی دنیا کچھ اور ہے.... اچھا آج آپ ایک کام ضرور کریں.... تھوڑی دیر کیلئے سب سے الگ بیٹھ جائیں.... کسی مصلے پر، کسی کرسی پریا جہاں دل چاہے.... مگر ہوں بالکل اکیلے.... پھر دماغ سے سارے خیالات نکال کر اپنی پوری توجہ اپنے سانس پر کرلیں.... اور آنکھیں بند کرکے اپنے سانس کی نگرانی کریں.... سانس اندر جا رہا ہے، سانس باہر آرہا ہے.... یاد رکھیں آپ کا ذہن ادھر ادھر بھٹکے گا مگر آج ہمت کریں اور ذہن کو واپس لے آئیں.... اور اپنے سانس کی نگرانی کریں.... وہ سانس اندر جارہا ہے سانس باہر آرہا ہے.... تھوڑی دیر کی نگرانی سے معلوم ہے کیا ہوگا؟ آپ کو اپنے اندر کی دنیا نظر آنے لگے گی.... دل کی دنیا، روح کی دنیا، ایک نئی دنیا، ایک بڑی دنیا.... جی ہاں ہمارے اندر بھی ایک دنیا قائم ہے.... ہمیں اس دنیا کا بھی خیال رکھنا چاہئے.... جس طرح ہم جسم کی دنیا کا خیال رکھتے ہیں.... ہم پیٹ بھرنے کیلئے کھانا کھاتے ہیں.... اور معلوم نہیں کتنی چیزیں کھاتے ہیں.... جسم میں بیماری ہوجائے تو ڈاکٹر اور حکیم کے پاس جاتے ہیں.... اور بہت سی دوائیاں کھاتے ہیں.... جسم کی کھال خراب ہوجائے تو کریمیں اور لوشن لگاتے ہیں.... جسم کی خاطر بیت الخلاءجاتے ہیں .... اور معلوم نہیں کیا کیا کرتے ہیں.... الغرض چوبیس گھنٹے ہم اپنے جسم کی خدمت میں لگے رہتے ہیں.... ہمیں چاہئے کہ اپنی روح اور اپنے دل کیلئے بھی کچھ کریں.... دل سفید بھی ہوتا ہے اور بیمار ہو کر کالا بھی ہوجاتا ہے.... حدیث پاک میں آیا ہے کہ گناہ کی وجہ سے دل پر سیاہ نقطے لگ جاتے ہیں.... اور اگر توبہ نہ کی جائے تو وہ پورے دل کو کالا کردیتے ہیں.... اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ جس طرح آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں.... اسی طرح اپنے دل کو بھی دیکھا کریں.... آئینے میں نظر آئے کہ چہرے پر کالک لگی ہے تو منہ دھوتے ہیں.... ایسے ہی دل کی بھی نگرانی کرنی چاہئے.... اچھا آج تھوڑا سا وقت اپنے اندر جھانکنے کے لئے تو نکال لیں.... اللہ کی قسم ہمارے اندر والا انسان جاگے گا اور مسلمان ہوگا تو دنیا میں حالات اچھے ہوجائیں گے.... ہمارے سینے میں دائیں طرف ہماری روح ہے.... اور بائیں طرف ہمارا دل.... آنکھیں بند کرکے سر جھکائیں اور دائیں طرف سینے میں اپنی روح کو تلاش کریں.... ہاں شروع میں وہ نظر نہیں آتی.... کھانے، چائے سموسے، کوکاکولا اور گیس نے روح بیچاری کو چھپادیا ہے.... روح تو بھوکا رہنے سے خوش ہوتی ہے.... جسم تھکتا ہے دین کے کام میں تو روح کو تازگی محسوس ہوتی ہے.... جسم بھوک برداشت کرتا ہے اللہ پاک کی خاطر تو روح طاقتور ہوجاتی ہے.... اپنی روح کو ڈھونڈ کر دیکھیں کہ بے چاری کس حال میںہے؟....
کہیں زخمی تو نہیں، بیمار تو نہیں، میلی کچیلی تو نہیں.... اور دیکھیں کہ انسانی شکل کی ہے یا (نعوذباللہ) جانور بن چکی ہے؟.... اپنی روح سے پوچھیں کہ کیاحال ہے؟.... کیا تو مسلمان ہے؟.... ہاں اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی روح کی نگرانی، دیکھ بھال اور خدمت کرنی ہوگی.... اور ہمارے سینے میں بائیں طرف دل ہے.... اسے دیکھیں وہ کیا کر رہا ہے؟.... کہیں اس پر کالک اور میل تو نہیں لگی ہوئی؟ .... وہ کس کو یاد کر رہا ہے؟.... دل دنیا کا سب سے بڑا عاشق ہے.... ہر وقت کسی کے عشق میں لگا رہتا ہے.... اس لےے حکم دیا گیا کہ اسے.... اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق سے بھردو.... ہاں آنکھیں بند کریں.... اور دل کو دیکھیں.... پھر اسے پیار سے کہیں.... اے دل! اس کا نام لے جس نے تجھے پیدا کیا .... اللہ اللہ.... اے دل! اس کو یاد کر جس کے پاس جانا ہے.... اللہ اللہ....اے دل! اس سے پیار کر جس نے پیار کو پیدا کیا.... اے دل! اس سے محبت کر جس نے محبت کو پیدا کیا.... اللہ اللہ .... اپنے دل کو اللہ اللہ پر لگادیں.... اور سوچتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا حسین نور میرے دل میں آرہا ہے.... اللہ اللہ....
چند دن اپنے سانس کی نگرانی کریں، صرف دو منٹ.... چند دن اپنی روح کو ڈھونڈیں اور دیکھیں صرف دو منٹ.... چند دن اپنے دل کو دیکھیں اور اس کی نگرانی کریں اور اسے ذکر میں لگائیں صرف تین منٹ....
کیا ہم اپنے اندر کی دنیا کو آباد کرنے کیلئے روزانہ سات منٹ دے سکتے ہیں؟.... ناشتے، دو پہر کے کھانے اور رات کے کھانے پر کتنا وقت لگتا ہے؟.... ہم ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں.... اور بعض اوقات یہ آنکھیں اللہ تعالیٰ کو ناراض بھی کردیتی ہیں.... تو کیا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے سات منٹ اپنی آنکھیں بند کرنا مشکل ہے؟.... میرے شیخ، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو اپنی رحمت اور سکون سے بھر دے، فرمایا کرتے تھے.... قرب قیامت کا دور ہے اب صرف دل والا اسلام چلے گا عقل والا نہیں.... حضرت کی یہ بات اب کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہے کیونکہ.... دنیا جس رخ پر چل پڑی ہے اس میں عقل جلد گمراہ ہوجاتی ہے.... اور کہتی ہے ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے.... ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے.... اب اگر دل میں دین ہو تو ایمان بچ سکتا ہے ورنہ بہت مشکل ہے.... مجھے امیر المؤمنین ملا محمد عمر سے الحمداللہ بہت محبت ہے.... میں نے انہیں دیکھا کہ وہ اپنے فیصلے عقل سے نہیں ”دل“ سے کیا کرتے ہیں.... ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم نے ایسے دل والے انسان کی زیارت کی ہے.... اللہ پاک ان کی حفاظت فرمائے اور ان کے فیض سے امت مسلمہ کو سیراب فرمائے.... آج کل ”جمہوری سیاست“ کا دور ہے.... اسلامی جماعتیں بھی اسلام نافذ نہیں کرسکتیں.... ملا محمد عمر مدظلہ کا دل زندہ تھا انہوں نے اسلام کے احکامات کو نافذ کردیا.... ان کی حکومت نہیں رہی تو کیا ہوا؟.... اور بھی تو سب کی ختم ہوجائے گی.... انسان کو زندگی اور حکومت ایک دن کی ملے یا سو سال کی.... سوال اس پر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر کتنا عمل کیا....بالغ ہونے کے بعد زندگی ایک دن کی ملی تو پانچ نمازوں کا سوال ہوگا.... اور اگر دس دن کی ملی تو پچاس نمازوں کا.... صرف اس لےے اسلام نافذ نہ کرنا کہ دینداروں کی حکومت ختم نہ ہوجائے یہ تو دل والی بات نہیں ہے.... اگر بددین بھی موسیقی بجائیں اور دیندار بھی تو پھر.... دینداروں کا حکومت پر بیٹھنا خود ان کیلئے قیامت کا سوال ہوگا.... عقل اس بات کو نہیں سمجھ سکتی.... مگر دل والے امیر المؤمنین نے یہ بات سمجھ لی.... اور اپنی حکومت کو نہیں اسلام کے نفاذ کو مقصد بنالیا.... ان کے دور حکومت میں ریڈیو چلتا تھا مگر اس پر ساز گانے نہیں بجتے تھے.... انہوں نے نماز کا نظام قائم کیا.... انہوں نے حدود وقصاص کو نافذ کیا.... انہوں نے اسلامی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور روس کو ناراض کرکے چیچنیا کی حکو مت کو تسلیم کیا.... انہوں نے امریکہ کو ناراض کرکے اسامہ بن لادن کو پناہ دی.... انہوں نے انڈیا کو ناراض کرکے بھارتی طیارے کے اغواءکرنے والے مجاہدین کو باحفاظت اپنے ملک سے گزارا.... یہ سب کچھ صرف وہی انسان کرسکتا ہے جس کا دل زندہ ہو.... جس کا دل مسلمان ہو.... ان میں سے کوئی کام بھی آسان نہیں تھا.... بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے بہت بڑی پیشکش کی تھی کہ اس شرط پر کہ.... طالبان طیارہ اغواءکرنے والے پانچ اور رہا ہونے والے تین مجاہدین کو پکڑ کر انڈیا کے حوالے کردیں.... جسونت سنگھ کو جو جواب امیرالمؤمنین کی طرف سے ملا.... اس پر آسمان بھی خوشی سے جھوم اٹھا ہوگا.... ہاں مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کو بیچا نہیں کرتے.... پھر بامیان کے دوہزار سالہ بت ایک اشارے میں بارود کا لقمہ بن گئے.... ٹھیک ہے ملا عمر صاحب کی حکومت ساڑھے چھ سال رہی.... مگر اس عرصے کے کارنامے صدیوں پر محیط ہےں.... حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکومت تو ڈھائی سال رہی تھی.... مگر دنیا آج تک ان کو یاد کرتی ہے اور انہیں روئے زمین کے کامیاب ترین حکمرانوں میں شمار کرتی ہے.... باقی عقل کے ساتھ حکومت کرنے والے ساڑھے چھ سال بھی رہتے ہیں یا نہیں؟.... اور جاتے وقت اپنی جھولی میں کیا لے جاتے ہیں.... ملا محمد عمر کی جھولی تو عظیم کارناموں سے بھری ہوئی ہے.... ہاں ان کے پاس دل والا اسلام تھا.... اور میرے شیخ نے فرمایا کہ اب صرف دل والا اسلام ہی کام آئے گا.... قرآن پاک بار بار مسلمانوں کو غزوہ بدر یاد دلاتا ہے.... غزوہ بدر کے ایک ایک منظر کو یاد دلاتا ہے.... اگر جہاد صرف قوت سے ہی ہوتا تو قرآن پاک غزوہ بدر کو بطور مثال پیش نہ کرتا.... کل میں تفسیر مدارک دیکھ رہا تھا.... سورة انفال کی آیت ۲۴ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان جنگ کا نقشہ بیان فرمایا ہے.... امام نسفیؒ لکھتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو میدان کا نقشہ معلوم تھا.... پھر قرآن پاک نے اس کا ذکر کیوں چھیڑا؟.... دراصل یہ سبق یاد دلانا مقصود ہے کہ فتح اسباب سے نہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ملتی ہے.... میدان جنگ میں مسلمانوں کی صورتحال کمزور تھی.... وہ میدان کے اس حصے میں تھے جو جنگ کے لئے موزوں نہیں تھا جبکہ مشرکین بہترین جگہ پر تھے.... یہی بات امام زاریؒ نے بھی لکھی ہے.... غزوہ بدر کی ہر ادا کو قرآن پاک نے محفوظ رکھا.... اور بار بار یاد دلایا کہ مسلمان جب بھی غزوہ بدر کی ترتیب زندہ کریں گے.... وہ فتح پائیں گے.... غزوہ بدر کی فتح دل والے ایمان کی بدولت نصیب ہوئی.... عقل کے مطابق تین سو تیرہ خالی ہاتھ افراد کا ایک ہزار مسلح جنگجو لشکر سے ٹکراجانا.... مصلحت کے خلاف اور کھلی ہلاکت ہے.... مگر قرآن پاک تو باقاعدہ منظر کشی کرتا ہے.... نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکلنا.... راستے میں آپ کا صحابہ کرام سے مشاورت کرنا، اچانک دونوں لشکروں کا آمنے سامنے آجانا.... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانا.... آسمان سے بارش کا برسنا، اس خوفناک ماحول میں صحابہ کرام کا نیند سے جھومنا اور آرام پانا.... فرشتوں کا اترنا.... فرشتوں کی تربیت.... مال غنیمت کے معاملات، قیدیوں کے معاملات.... الغرض ہر بات قرآن پاک نے لکھ دی اور خاک کی اس مٹھی تک کا تذکرہ کر ڈالا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی طرف پھینکی تھی.... یہ سب کچھ کیا ہے؟.... قرآن نے طاقت کے توازن کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا؟.... اور بار بار بدر کے واقعات کیوں سنائے.... چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی فتح حاصل کی بدر کی ترتیب پر حاصل کی.... قوت کے توازن پر نہیں.... مسلمان جب بھی دل سے مسلمان ہوئے تو اللہ پاک نے ان پر اپنے راستے کھول دئےے.... قرآن پاک بتاتا ہے کہ صحابہ کرام کو غزوہ بدر میں دشمنان اسلام کا لشکر.... کم تعداد میں نظر آتا تھا.... گویا اللہ پاک نے آنکھوں کا نظام بھی ان دل والوں کیلئے بدل دیا .... آنکھ ایک کو ایک اور دو کو دو دیکھتی ہے.... مگر جہادی برکت سے صحابہ کرام کو ایک ہزار مشرک ستر یا سو نظر آرہے تھے.... بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جس مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ہو اسے اسلام کے دشمن کمزور اور حقیر وذلیل نظر آتے ہیں.... امام احمد بن حنبلؒ کو گرفتار کرکے طرسوس لایا گیا ان پر ابراہیم بن مصعب نامی کوتوال مقرر تھا اس نے چند دن امام صاحب کو دیکھا تو کہنے لگا:
”میں نے کسی انسان کو بادشاہوں کے آگے احمد بن حنبل سے بڑھ کر بے خوف نہیں پایا۔ یومئذٍ ما نحن فی عینیہ الا کامثال الذباب۔ یعنی ہم حکومت کے افسر ان کی نظر میں مکھیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے....
جہاد کیلئے جنگی قوت ضرور بنانی چاہئے یہ قرآن پاک کا حکم ہے.... مگر غزوہ بدر کو یاد رکھنا چاہئے اور گھر بیٹھ کر قوت نہ ہونے کو جہاد کے راستے کی رکاوٹ قرار نہیں دینا چاہئے.... بات کچھ دور نکل گئی.... آج کا سبق ہم سب کیلئے بہت اہم ہے.... اللہ پاک کی رضا کیلئے ہم تمام اعمال کرنے والے بن جائیں.... ہمارا ایمان، ہماری نماز، ہمارا جہاد.... اور ہماری ہر محنت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو.... ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے لئے خالص اعمال کا ذخیرہ ہو.... اس لےے کہ قبر منہ کھول کر ہمارا انتظار کررہی ہے.... اخلاص پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو ٹھیک کرنا ہوگا.... اندر کی دنیا تک پہنچنے کے لئے اور وہاں کی صفائی اور ستھرائی کے لئے.... سات منٹ کا نصاب عرض کیا ہے.... مجھے معلوم ہے کہ.... کھانے اور سونے پر دس گھنٹے خرچ کرنا آسان ہے.... مگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے سات منٹ کا عمل مشکل ہے....
نفس کہے گا.... یہ عمل کل سے شروع کریں گے.... پھر یہ کل دور ہوتی جائے گی.... اور شیطان کہے گا ان چیزوں سے کیا ہوتا ہے کام کرو کام.... آپ اور ہم نہ شیطان کی مانیں.... اور نہ نفس امّارہ کی.... یہ دونوں ہمارے دشمن ہیں.... اس لےے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، چپکے سے آج ہی سات منٹ کا عمل شروع کردیں.... اور دل والا مسلمان بننے کی.... اللہ تعالیٰ سے دعاءکریں