غزالی
Elite Member
- Messages
- 260
- Reaction score
- 77
- Gender
- Male
- Religion
- Islam
وکی لیکس جیسی خبروں کے متعلق ہمارا نقطہ نظ
یہ دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج کا منظر پیش کر رہی ہے ایک ایسا ولیج جس کے لوگ ایک ساتھ سوچتے ہیں ایک ساتھ چلتے ہیں ایک ساتھ محسوس کرتے ہیں اختلافات ایک الگ بات ہیں لیکن جس طرح آج ہو رہا ہے کہ پوری دنیا میں کسی ایک مسئلے کسی ایک بات کا چرچا ہو جاتا ہے اور وہ بات وہ مسئلہ پوری دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا نہ ہوتا تھا آخر کیوں ؟ آخر ایسا کیوں ہے کیا پہلے دنیا کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے ؟ کیا پہلے انسان کچھ اور تھے اب کچھ الگ ہیں ؟ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ بات وکی لیکس کی چل رہی ہے اور میں کیا لیکر بیٹھ گیا ہوں لیکن بات یہ ہے کہ وکی لیکس کو سمجھنے سے پہلے کچھ اور سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ ابھی تو آپ نے ایک وکی لیکس دیکھا ہے آگے اس طلسم ہوشربا میں اور بہت کچھ ایسا ہونے والا ہے جس سے عقلیں حیران ہو جائیں گی نظریات بدل جائیں گے افکار اپنی جگہ سے ہلا دیے جائیں گے پورے عالم کی سوچ و فکر پر غاصبانہ قبضہ کیا جائے گا اور قبضہ بھی ایسا جسے راضی خوشی دنیا قبول کرے گی آئیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا گلوبل ولیج کیوں ہے اور اس کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں ہم جب تک اس بات کو نہیں سمجھیں گے نہ حقائق کا ادراک ہوگا نہ پروپیگنڈے کے مکر و فریب پہچان پائیں گے.
گلوبل ولیج
گلوبل ولیج ایک اصطلاح ہے مراد اس سے یہ ہے کہ اب دنیا ایک گاؤں کی طرح ہے گاؤں کس طرح ہوتے ہیں کہ ان کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے بارے میں تمام معلومات ہوتی ہیں کیوں کہ آبادی بہت کم ہوتی ہے فاصلے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اس لئے گاؤں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے احوال بخوبی معلوم ہوتے ہیں گلوبل ولیج کا مختصر ترین مفہوم یہی ہے یعنی دنیا کے فاصلے سمٹ گئے ہیں اب یہ دنیا ایک بین الاقوامی گاؤں کا منظر پیش کر رہی ہے لیکن ہم یہاں یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا واقعی اسی طرح کا ایک گلوبل ولیج ہے جس طرح سیدھے سادے سے عام قسم کے گاؤں ہوتے ہیں؟ تو قارئین حقیقت یہی ہے کہ دنیا اس طرح کا گلوبل ولیج ہرگز نہیں ہے جس طرح گاؤں کے چوہدری وڈیرے ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیا کے چوہدری وڈیرے بھی ہیں بس فرق یہ ہے کہ گلوبل ولیج کے چوہدری وڈیرے ریاستیں ہیں گاؤں کے چوہدری وڈیرے لوگوں کے جسموں پر قبضہ کرتے ہیں لیکن اذہان و افکار پر نہیں لیکن آج کی جدید دنیا کے چوہدری وڈیرے لوگوں کو ذہنی غلام بناتے ہیں جسم سے نہیں کھیلتے روح سے کھیلتے ہیں آپ کے بدن کو غلام نہیں بناتے نظریات کو جکڑتے ہیں مائنڈ کنٹرول ہپناٹزم اسی چیز کے الگ الگ نام ہیں ان سب کے اسباب الگ الگ ہیں اسکول کالجوں کا نصاب ، ٹی.وی ، ریڈیو ، نیوز چینل ، پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات رسائل و جرائد وغیرہ سیاسی جلسے جلوس اور کتابیں ، ڈائجسٹ ، ناول ، پمفلٹ اور پوسٹرز ، فلمیں ، آرٹس شو ، ڈرامے ، اسٹیج شو اور سائنسی خود ساختہ اور گمراہ کن نظریات تھیوریاں ، نت نئے انکشافات، یہ تمام چیزیں بطور ہتھیار استمعال کی جاتی ہیں انسان کو ذہنی غلام بنانے کے لیے اس کے افکار کی جکڑبندی کے لیے یہ تمام چیزیں کارآمد ہیں آپ سوچیں گے کہ پھر تو دنیا میں کوئی بھی چیز قابل اعتبار نہ رہی کس قسم کی معلومات پر یقین کیا جائے اور یہ کیسے جانچا اور پرکھا جائے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ؟ دیکھیں ایک سچے مومن میں اور فاسق و کافر میں زمین آسمان کا بنیادی فرق ہے یہ بالکل ایسا ہے کہ ایک اجالا ہے ایک اندھیرا ہے ایک کے پاس نور ہے دوسرے کے پاس تاریکی جس طرح یہ دونون مساوی نہیں ہیں اسی طرح ان دونوں کے ساتھ معاملہ بھی مساوی نہیں ہے مومن کبھی جھوٹ نہیں کہتا لیکن ایک فاسق یا کافر سے کچھ بعید نہیں ہے کافر کا تو کفر ہی سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن فاسق کو اس لیے لے آیا کیوں کہ فاسق بھی ناقابل بھروسہ ہوتا ہے بس فاسق نے ابھی تک کفر نہیں کیا ہے لیکن وہ جن گناہوں کے راستوں پر چل رہا ہے ان کا انجام کفر ہی ہوتا ہے الله ہمیں محفوظ رکھے آمین، مقصد یہ ہے کہ ایک مومن کی دی ہوئی خبر اور ایک فاسق یا کافر کی دی ہوئی خبر برابر نہیں ہوتی، آئیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معلومات اور خبروں کا تجزیہ کیسے کیا جائے انھیں کس تناظر میں لیا جائے اور معلومات و خبروں کے جو غلط زرائع ہیں ان کے مفاسد سے بچاؤ کیسے ممکن ہو ؟.
دجل و فریب کا طوفان
آج کل میڈیا کا دور ہے اطلاعات کا طوفان ہے معلومات اور خبروں کا سیلاب ہے دجل و فریب عام ہے جس کے پاس کھرے کھوٹے کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ نہ ہوگا اسے یہ طوفان برباد بھی کر سکتا ہے یہ سیلاب اسے بہا لے جا سکتا ہے اور یہ تباہی و بربادی جسم کی تباہی سے زیادہ خطرناک ہے انجام کار اس کا بھی پورے جسم کی تباہی ہے کیوں کہ اگر ذہن کو تباہ کر دیا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور ذہن و جسم فرد واحد کا نہیں پوری کی پوری قوم کا جس کا خمیازہ نسلیں بھگتیں گی.
آپ نے اکثر سنا ہوگا کسی نہ کسی سے یہ جملہ کہ میڈیا جھوٹ ہے پھر آپ سوچتے ہوں گے کہ ہم اکثر سچی خبریں بھی سنتے ہیں درست معلومات بھی ملتی ہیں تو یہ بات سچ کیسے ہو سکتی ہے کہ میڈیا پورے کا پورا جھوٹا ہو اس پر سچ آتا ہی نہ ہو ؟ بلکل ٹھیک آپ نے جو سوچا صحیح سوچا لیکن آپ نے نتیجہ صحیح نہ نکالا کیوں کہ یہ بات درست ہے کہ میڈیا پر سب کچھ جھوٹ نہیں ہوتا لیکن یہ بات غلط ہے کہ آپ وہ سچ سن کے درست نتیجہ اخذ کریں گے یعنی درست تجزیہ کرنا درست نتیجہ نکالنا اور کسی چیز کو حقیقی اور درست تناظر میں لینا ایک الگ بات ہے دراصل معلومات اور اطلاعات کے طوفان میں سچ اور جھوٹ کی ایسی کھچڑی پکائی جاتی ہے ترتیب اس طرح رکھی جاتی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے نتیجہ وہی نکالتے ہیں جو نتیجہ یا جو منظر کشی کرنا میڈیا کا مقصود ہوتا ہے بس میڈیا یہ کرتا ہے کہ ایسی اطلاعات اور خبریں جن کا تعلق حق و باطل کے ٹکراؤ سے نہیں ہوتا وہ پوری کی پوری آپ کے سامنے سچائی سے لاتا ہے اور ان کے درمیان ہی حق و باطل سے متعلق معلومات و خبریں اس طرز پر پیش کرتا ہے اور سچ و جھوٹ کا ایسا ملاپ کرتا ہے کہ اپنا مقصد پا لیتا ہے وہ جیسا آپ کو دکھانا چاہتا ہے آپ ویسا ہی دیکھتے ہیں جسے آپ کو سمجھانا چاہتا ہے ویسے ہی آپ سمجھتے ہیں اور جس طرح آپ کو محسوس کروانا چاہتا ہے اسی طرح آپ محسوس کرتے ہیں، بعض نکتوں پر بعض معاملات پر چاہے آپ ان سے اختلاف بھی کر لیں لیکن جو غرض و غایت انکی ہوتی ہے وہ غیر محسوس طور پر پوری ہو جاتی ہے یہ بہت ہی خطرناک تکنیک ہے اور صہیونیوں کے شیطانی دماغوں نے برسوں میں یہ منصوبے یہ سازشیں اور یہ طریقہ کار تشکیل دیے ہیں، آپ فرض کریں کہ اگر وہ ہر بات مکمل جھوٹی ہی کریں عوام کے رحجانات سے بالکل ہٹ کر چلیں معاشرے کی سوچ و فکر پر ذرا سی بھی نظر نہ رکھیں تو ان کی مقبولیت کیا خاک کسی جگہ ہو پائے گی جب مقبولیت ہی نہ ہوگی تو وہ اپنا کام کیسے کر پائیں گے آپ کے ذہنوں میں اپنی فکر کیسے داخل کریں گے یا جو ان کا ٹارگیٹ ہے اسے وہ کیسے پورا کر پائیں گے ان کا تو انداز ہی ایسا ہے کہ آپ انہیں سننا چاہیں دیکھنا چاہیں سوچنا چاہیں سمجھنا چاہیں وہ دلنشیں دلچسپ انداز لے کر آپ کے پاس آئیں گے آپ بیشک اپنے پیروں پر کبھی کلہاڑی مارنا نہیں چاہیں گے لیکن آپ پھر بھی ماریں گے آپ کو پتا تک نہ ہوگا نتیجہ ان کے حسب منشا ہو گا، کسی جنگی ماہر کا قول ہے کہ جنگ میں فتح اس کی یقینی ہے جو دشمن کے دماغ میں گھس جائے دشمن کو وہی سوچنے پر مجبور کر دے جیسا وہ سوچتا ہے دشمن کو وہی چاہنے پر مجبور کر دے جیسا وہ چاہتا ہے
جاری ہے
وکی لیکس جیسی خبروں کے متعلق ہمارا نقطہ نظر کیا ہونا چاہئے
پروپیگنڈہ دجالی ہتھیار
وکی لیکس کی حقیقت
یہ دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج کا منظر پیش کر رہی ہے ایک ایسا ولیج جس کے لوگ ایک ساتھ سوچتے ہیں ایک ساتھ چلتے ہیں ایک ساتھ محسوس کرتے ہیں اختلافات ایک الگ بات ہیں لیکن جس طرح آج ہو رہا ہے کہ پوری دنیا میں کسی ایک مسئلے کسی ایک بات کا چرچا ہو جاتا ہے اور وہ بات وہ مسئلہ پوری دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا نہ ہوتا تھا آخر کیوں ؟ آخر ایسا کیوں ہے کیا پہلے دنیا کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے ؟ کیا پہلے انسان کچھ اور تھے اب کچھ الگ ہیں ؟ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ بات وکی لیکس کی چل رہی ہے اور میں کیا لیکر بیٹھ گیا ہوں لیکن بات یہ ہے کہ وکی لیکس کو سمجھنے سے پہلے کچھ اور سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ ابھی تو آپ نے ایک وکی لیکس دیکھا ہے آگے اس طلسم ہوشربا میں اور بہت کچھ ایسا ہونے والا ہے جس سے عقلیں حیران ہو جائیں گی نظریات بدل جائیں گے افکار اپنی جگہ سے ہلا دیے جائیں گے پورے عالم کی سوچ و فکر پر غاصبانہ قبضہ کیا جائے گا اور قبضہ بھی ایسا جسے راضی خوشی دنیا قبول کرے گی آئیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا گلوبل ولیج کیوں ہے اور اس کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں ہم جب تک اس بات کو نہیں سمجھیں گے نہ حقائق کا ادراک ہوگا نہ پروپیگنڈے کے مکر و فریب پہچان پائیں گے.
گلوبل ولیج
گلوبل ولیج ایک اصطلاح ہے مراد اس سے یہ ہے کہ اب دنیا ایک گاؤں کی طرح ہے گاؤں کس طرح ہوتے ہیں کہ ان کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے بارے میں تمام معلومات ہوتی ہیں کیوں کہ آبادی بہت کم ہوتی ہے فاصلے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اس لئے گاؤں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے احوال بخوبی معلوم ہوتے ہیں گلوبل ولیج کا مختصر ترین مفہوم یہی ہے یعنی دنیا کے فاصلے سمٹ گئے ہیں اب یہ دنیا ایک بین الاقوامی گاؤں کا منظر پیش کر رہی ہے لیکن ہم یہاں یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا واقعی اسی طرح کا ایک گلوبل ولیج ہے جس طرح سیدھے سادے سے عام قسم کے گاؤں ہوتے ہیں؟ تو قارئین حقیقت یہی ہے کہ دنیا اس طرح کا گلوبل ولیج ہرگز نہیں ہے جس طرح گاؤں کے چوہدری وڈیرے ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیا کے چوہدری وڈیرے بھی ہیں بس فرق یہ ہے کہ گلوبل ولیج کے چوہدری وڈیرے ریاستیں ہیں گاؤں کے چوہدری وڈیرے لوگوں کے جسموں پر قبضہ کرتے ہیں لیکن اذہان و افکار پر نہیں لیکن آج کی جدید دنیا کے چوہدری وڈیرے لوگوں کو ذہنی غلام بناتے ہیں جسم سے نہیں کھیلتے روح سے کھیلتے ہیں آپ کے بدن کو غلام نہیں بناتے نظریات کو جکڑتے ہیں مائنڈ کنٹرول ہپناٹزم اسی چیز کے الگ الگ نام ہیں ان سب کے اسباب الگ الگ ہیں اسکول کالجوں کا نصاب ، ٹی.وی ، ریڈیو ، نیوز چینل ، پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات رسائل و جرائد وغیرہ سیاسی جلسے جلوس اور کتابیں ، ڈائجسٹ ، ناول ، پمفلٹ اور پوسٹرز ، فلمیں ، آرٹس شو ، ڈرامے ، اسٹیج شو اور سائنسی خود ساختہ اور گمراہ کن نظریات تھیوریاں ، نت نئے انکشافات، یہ تمام چیزیں بطور ہتھیار استمعال کی جاتی ہیں انسان کو ذہنی غلام بنانے کے لیے اس کے افکار کی جکڑبندی کے لیے یہ تمام چیزیں کارآمد ہیں آپ سوچیں گے کہ پھر تو دنیا میں کوئی بھی چیز قابل اعتبار نہ رہی کس قسم کی معلومات پر یقین کیا جائے اور یہ کیسے جانچا اور پرکھا جائے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ؟ دیکھیں ایک سچے مومن میں اور فاسق و کافر میں زمین آسمان کا بنیادی فرق ہے یہ بالکل ایسا ہے کہ ایک اجالا ہے ایک اندھیرا ہے ایک کے پاس نور ہے دوسرے کے پاس تاریکی جس طرح یہ دونون مساوی نہیں ہیں اسی طرح ان دونوں کے ساتھ معاملہ بھی مساوی نہیں ہے مومن کبھی جھوٹ نہیں کہتا لیکن ایک فاسق یا کافر سے کچھ بعید نہیں ہے کافر کا تو کفر ہی سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن فاسق کو اس لیے لے آیا کیوں کہ فاسق بھی ناقابل بھروسہ ہوتا ہے بس فاسق نے ابھی تک کفر نہیں کیا ہے لیکن وہ جن گناہوں کے راستوں پر چل رہا ہے ان کا انجام کفر ہی ہوتا ہے الله ہمیں محفوظ رکھے آمین، مقصد یہ ہے کہ ایک مومن کی دی ہوئی خبر اور ایک فاسق یا کافر کی دی ہوئی خبر برابر نہیں ہوتی، آئیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معلومات اور خبروں کا تجزیہ کیسے کیا جائے انھیں کس تناظر میں لیا جائے اور معلومات و خبروں کے جو غلط زرائع ہیں ان کے مفاسد سے بچاؤ کیسے ممکن ہو ؟.
دجل و فریب کا طوفان
آج کل میڈیا کا دور ہے اطلاعات کا طوفان ہے معلومات اور خبروں کا سیلاب ہے دجل و فریب عام ہے جس کے پاس کھرے کھوٹے کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ نہ ہوگا اسے یہ طوفان برباد بھی کر سکتا ہے یہ سیلاب اسے بہا لے جا سکتا ہے اور یہ تباہی و بربادی جسم کی تباہی سے زیادہ خطرناک ہے انجام کار اس کا بھی پورے جسم کی تباہی ہے کیوں کہ اگر ذہن کو تباہ کر دیا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور ذہن و جسم فرد واحد کا نہیں پوری کی پوری قوم کا جس کا خمیازہ نسلیں بھگتیں گی.
آپ نے اکثر سنا ہوگا کسی نہ کسی سے یہ جملہ کہ میڈیا جھوٹ ہے پھر آپ سوچتے ہوں گے کہ ہم اکثر سچی خبریں بھی سنتے ہیں درست معلومات بھی ملتی ہیں تو یہ بات سچ کیسے ہو سکتی ہے کہ میڈیا پورے کا پورا جھوٹا ہو اس پر سچ آتا ہی نہ ہو ؟ بلکل ٹھیک آپ نے جو سوچا صحیح سوچا لیکن آپ نے نتیجہ صحیح نہ نکالا کیوں کہ یہ بات درست ہے کہ میڈیا پر سب کچھ جھوٹ نہیں ہوتا لیکن یہ بات غلط ہے کہ آپ وہ سچ سن کے درست نتیجہ اخذ کریں گے یعنی درست تجزیہ کرنا درست نتیجہ نکالنا اور کسی چیز کو حقیقی اور درست تناظر میں لینا ایک الگ بات ہے دراصل معلومات اور اطلاعات کے طوفان میں سچ اور جھوٹ کی ایسی کھچڑی پکائی جاتی ہے ترتیب اس طرح رکھی جاتی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے نتیجہ وہی نکالتے ہیں جو نتیجہ یا جو منظر کشی کرنا میڈیا کا مقصود ہوتا ہے بس میڈیا یہ کرتا ہے کہ ایسی اطلاعات اور خبریں جن کا تعلق حق و باطل کے ٹکراؤ سے نہیں ہوتا وہ پوری کی پوری آپ کے سامنے سچائی سے لاتا ہے اور ان کے درمیان ہی حق و باطل سے متعلق معلومات و خبریں اس طرز پر پیش کرتا ہے اور سچ و جھوٹ کا ایسا ملاپ کرتا ہے کہ اپنا مقصد پا لیتا ہے وہ جیسا آپ کو دکھانا چاہتا ہے آپ ویسا ہی دیکھتے ہیں جسے آپ کو سمجھانا چاہتا ہے ویسے ہی آپ سمجھتے ہیں اور جس طرح آپ کو محسوس کروانا چاہتا ہے اسی طرح آپ محسوس کرتے ہیں، بعض نکتوں پر بعض معاملات پر چاہے آپ ان سے اختلاف بھی کر لیں لیکن جو غرض و غایت انکی ہوتی ہے وہ غیر محسوس طور پر پوری ہو جاتی ہے یہ بہت ہی خطرناک تکنیک ہے اور صہیونیوں کے شیطانی دماغوں نے برسوں میں یہ منصوبے یہ سازشیں اور یہ طریقہ کار تشکیل دیے ہیں، آپ فرض کریں کہ اگر وہ ہر بات مکمل جھوٹی ہی کریں عوام کے رحجانات سے بالکل ہٹ کر چلیں معاشرے کی سوچ و فکر پر ذرا سی بھی نظر نہ رکھیں تو ان کی مقبولیت کیا خاک کسی جگہ ہو پائے گی جب مقبولیت ہی نہ ہوگی تو وہ اپنا کام کیسے کر پائیں گے آپ کے ذہنوں میں اپنی فکر کیسے داخل کریں گے یا جو ان کا ٹارگیٹ ہے اسے وہ کیسے پورا کر پائیں گے ان کا تو انداز ہی ایسا ہے کہ آپ انہیں سننا چاہیں دیکھنا چاہیں سوچنا چاہیں سمجھنا چاہیں وہ دلنشیں دلچسپ انداز لے کر آپ کے پاس آئیں گے آپ بیشک اپنے پیروں پر کبھی کلہاڑی مارنا نہیں چاہیں گے لیکن آپ پھر بھی ماریں گے آپ کو پتا تک نہ ہوگا نتیجہ ان کے حسب منشا ہو گا، کسی جنگی ماہر کا قول ہے کہ جنگ میں فتح اس کی یقینی ہے جو دشمن کے دماغ میں گھس جائے دشمن کو وہی سوچنے پر مجبور کر دے جیسا وہ سوچتا ہے دشمن کو وہی چاہنے پر مجبور کر دے جیسا وہ چاہتا ہے
جاری ہے
Last edited: