صحیح البخاری وہ کتاب ہے جس کی نظیر عالم اسلام میں نہیں، جو طبقات کتب حدیث میں اول طبقہ کی کتاب ہے اور جسے صحاح ستہ میں بھی اول نمبر حاصل ہے اور جسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، امام محمد بن اسماعیل بخاری کی تصنیف ہے، جس کی تصنیف کا آغاز مسجد الحرام میں بیٹھ کر کیا اور سولہ برس میں مسودہ تیار ہوا، مبیضہ مدینہ منورہ میں منبر مبارک اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بیٹھ کر کیا۔
کتاب کااصل موضوع احادیث صحیحہ کا جمع کرنا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ فقہی استنباطات و فوائد کا بھی اس میں ذکر کر دیا گیا ہے۔ امام رحمة اللہ علیہ ہر ترجمہ کے لیے دو رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ حدیث کے اس سدا بہار گلشن میں مکررات کو شمار کرک کے احادیث کی تعداد سات ہزار دوسو پچھتر ہےں۔ اصل کتاب عربی زبان میں اور دنیا کی تقریباتمام اہم زبانوں میں اس کے تراجم اور شروحات شائع ہو چکی ہیں۔ خود اردو زبان میں اس کے متعدد تراجم اور شروح شائع ہوئی ہیں، زیر نظر ترجمہ مولانا ظہور الباری اعظمی کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔ جس میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطمینان بخش ترجمانی، عام فہم شرح، اور مسائل حاضرہ سے کامل انطباق کا خصوصیت کے ساتھ التزام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بخاری شریف کے لطائف و خصوصیات کی کامل رعایت کرتے ہوئے قدیم و جدید شارحین کی گراں قدر تحقیقات سے پوری کتاب کو آراستہ ومزین کیا گیا ہے۔ مکمل ترجمہ تین جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔
Sahih-ul-Bukhari Vol 01 (صحیح البخاری جلد اول)
زیر نظر جلد اول کتاب الوحی، کتاب الایمان، کتاب العلم، کتاب الوضوئ، کتاب الغسل، کتاب الحیض، کتاب التیمم، کتاب الصلوة، کتاب مواقیت الصلوة، کتاب الاذان، کتاب الجمعة، کتاب العیدین، ابواب الوتر، ابواب الاستسقائ، ابواب الکسوف، ابواب تقصیر صلوة، کتاب الجنائز، کتاب الزکوة، کتاب المناسک، ابواب العمرة اور کتاب الصوم ، کتاب البیوع، کتاب السلم، کتاب الشفعة، کتاب الاجارہ، کتاب الحوالہ، کتاب الوکالة، کتاب المساقاة، کتاب فی الخصومات، کتاب فی اللقطہ، کتاب الہبة، کتاب الرہن، کبات المکاتب، کتاب الشہاداة، کتاب الصلح، کتاب الشروط، کتاب فی المظالم والغضب پر مشتمل ہے۔
زیر نظر جلد سوم کتاب التفسیر، کتاب النکاح، کتاب الطلاق، کتاب الاطعمة، کتاب الحقیقہ، کتاب الذبائع، کتاب الضاحی، کتاب الاشربہ، کتاب الطب، کتاب اللباس، کتاب الادب، کتاب الاستیذان، کتاب الدعوات، کتاب الرقاق، کتاب التقدیر، کتاب الایمان، کتاب النذور، کتاب الفرائض، کتاب الحدود، کتاب الدیات، کتاب الاکراہ، کتاب الحیل، کتاب التعبیر، کتاب الفتن، کتاب الاحکام، کتاب التمنی، کتاب التوحید، کتاب الاعتصام بالکتب والسنة، کتاب الستتابہ المرتدین پر مبنی ہے۔
سیرت طیبہ نبویہ علی صاحبھا الصلوہ والتحیہ کے باب میں تصانیف اور مقالات کی اب کمی نہیں اور اگر یہ کہا جاءے تو بالکل مبالغہ نہ ہوگا کہ آج تک کسی علمی؛ تاریخی یا ادبی موضوع پر اتنی کتابیں تصنیف نہیں کی گءی جتنی کہ ”سیرت محمدی” اور اس کی متعلقات پر چھپ چکی ہیں۔ الحمد للہ پیش نظر کتاب ان چند مستشنیات میں سے ہیں جو اختصار کے باوجود ”سیرت نبویہ” کے تمام قابل غور پہلووں پر حاوی ہے بلکہ جن پہلووں کو سطح بین دنیا نے قابل غور نہیں سمجھا ان کو بھی اس کتاب میں ”قابل غور” بناکر پیش کیا گیا ہے جیسا کہ ان کا حق تھا۔اس کتاب کا مقصد سوانح نبویہ کی تدوین نہیں بلکہ مصنف کا مطمع نظر تبلیغ اور دعوت الی الحق ہے جو اس کتاب کا طرہ امتیاز ہے۔
رحمة للعلمین، خاتم النبیین، سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر دنیا کی تقریبا ہر زبان میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور قیامت تک انشاءاللہ لکھا جاتا رہیگا ۔ ہر دور میں عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف نقطہ نگاہ سے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو قلمبند کیا گیا ہے اور کیا جاتا رہیگا۔زیر نظر تصنیف بھی اپنے اندر کئی منفرد خصوصیات لیے ہوئے سیرت طیبہ سے متعلق مواد کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی مثال اردو زبان میں تو درکنار دیگر زبانوں میں بھی نہیں ملتی۔ مولف نے اخذ روایات میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیا اور رطب و یابس یا موضوع روایات جمع کرنے کے بجائے صحت و ثقاہت کا خیال رکھا ہے۔ تاریخی روایات پر حسب ضرورت نقد و درایت سے کام لیا ہے۔ نیز اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف کے ذوق کے مطابق سوانح اور واقعات کے ساتھ غیر مذاہب کے اعتراضات کے جوابات اور دوسرے صحف آسمانی کے ساتھ موازنہ اور خصوصیت سے یہود و نصاری کے دعاوی کا ابطال بھی اس میں جا بجا ہے۔ انہی خصوصیات کی بناءپر رحمة للعلمین برصغیر کی جملہ کتب سیرت سے منفرد مقام و مرتبہ کی حامل ٹھہری۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف مرحوم کو رضائے الہی کی بہشت جاوید میں درجات عالیات نصیب ہوں اور ہمارے لیے بھی توشہ آخرت ثابت ہو۔آمین
الحمد للہ یہ شرف صرف امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوة و الف الف تحیة کو حاصل ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے ہر قول اور ہر فعل کو متصل اور مسلسل سند کے ساتھ پیش کرتی ہے، یہی اور صرف یہی ایک امت ہے کہ اپنے نبی سے متصل ہے۔مولف کتاب نے اس مختصر سیرت میں جہاں صحت ماخذ اور روایات کے معتبر اور مستند ہونے کا التزام کیا ہے وہاں سرار و حکم کا بھی کچھ اہتمام کیا ہے جو انشاءاللہ العزز نافع اور مفید ہوگا۔ جس طرح غیر مستند اور غیر معتبر روایات سے پرہیزکیا گیا ہے ، بالکل اسی طرح کسی ڈاکٹر یا فلاسفر یا کسی یورپی مستشرق سے گھبرا کر نہ کسی روایت کو چھپایا ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں ان کی خاطر سے کوئی تاویل کی ہے، اور نہ راویوں پر جرح کر کے اس حدیث کو غیر معتبر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ مختصر مجموعہ حضرات محدثین کے علمی سرمایہ اور ذخیرہ کا ترجمان ہے ، مولف نے جو حضرات محدثین کے یک کمترین خادم اور غلام ہے ،نے محدثین حضرات کے علمی جواہرات اور موتیوں کو سلیقہ اور ترتیب دے کر علم کے شائقین کے سامنے پیش کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے پروردگار عالم تو ناچیز مولف کی اس ناچیز خدمت کو قبول فرما اور مولف ، ناشرین، اور اشاعت میں تعاون کرنے والے حضرات کے حق میں اس کو خیر جاری اور توشہ آخرت بنا۔آمین ثم آمین
درج ذیل کتاب علوم قرآنی پر مولف کی عمدہ تصنیف ہے جو ضرورة القرآن (یعنی نوع انسانی کے لیے وحی الہی اور قرآن کی ضرورت پر عقلی و فلسفی دلائل)، صداقة القرآن (یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے اور معجز ہونے کی عقلی دلائل اور مستشرقین یورپ کی تردید)، تنزیل القرآن و تدوینہ(یعنی نزول قرآن و جمع قرآن کی تحقیق)، محفوظیة القرآن( یعنی قرآن کی محفوظیت کے دلائل اور مستشرقین کے شبہات کی تردید) اور مہمات القرآن(یعنی قرآن کے اہم مقامات کا حل اور ان کے حکم و اسرار اور ازالہ شبہات) پر مشتمل ہے۔مولف نے زیر نظر کتاب میں تعبیرات میں اصطلاحی تعبیرات سے کم کام لیا ہے اور زیادہ تر جدید مذاق کے مطابق رکھا ہے، نیز مطالب قرآن کے تعین میں اسلاف امت سے انحراف نہ ہو اور جو کچھ معارف و حقائق بیان ہوں وہ اپنے اندر مسلک سلف کی تائیدی شان رکھتے ہوں نہ تحریفی۔اس کے علاوہ دورحاضر چونکہ دور عقلیت و فلسفیت کا لہٰذا مقاصد شرعیہ نقلیہ کو عقل اور فلسفہ کے رنگ میں بیان کیا اور مغرب زدہ طبقہ کے لئے سامان ہدایت بن جائے۔
”علوم القرآن” ایک وسیع علم ہے جس پر عربی میں ضخیم کتابیں موجود ہیں اور اردو میں بھی کءی کتابیں آچکی ہیں؛ لیکن اس موضوں پر ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں جدید نسل کی رہنماءی کے لیے جدید انداز میں قرآنی حقاءق کو واشگاف کیا جاءے؛ جس مں وحی اور نزول قرآن؛ ترتیب نزول؛ قرا ءات سبعہ؛ اعجاز قرآنی وغیرہ وغیرہ ؛ حقاءق قرآنی کے ابحاث اس طرح بصیرت افروز انداز سے آجاءیں جس میں مستشرقین کے اوہام و وساوس اور خرافات یا معاندانہ شکوک و شبہات کا تشفی کن مواد آجاءے اور مستشرقین کی قیادت میں مستغربین)مغرب زدہ طبقہ( کے مزعومات کا بھی جواب آجاءے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مذکورہ کتاب وقت کی اس اہم ضرورت کو اچھی طرح پورا کیا گیا ہے اور اللہ تعالی سے امید ہے کہ اگر اس کتاب کو حق طلبی اور انصاف پسندی کے جذبے کے ساتھ پڑھا گیا تو انشاء اللہ اس سے علم تفصیر میں بصیرت بھی حاصل ہوگی اور اس راہ میں جو غلط فہمیاں ؛ شکوک شبہات اور گمراہیاں ؛ مستشرقین کی تلبیسات اور عام لوگوں کی ناواقفیت سے عموما ذہنوں میں پیدا ہوتی ہیں ان کا بھی تشفی بخش حل مل جاءے گا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مصنف کو عافیت کاملہ عطا فرماویں اور اس تصنیف کو اپنے فضل سے قبول فرماکر ان کے لیے اور سب کے لیے ذریعہ نجات بناءیں اور مسلمانوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ نفع پہونچاءیں۔واللہ المستعان وعلیہ التکلان
اجتہاد و تقلید کے مسئلہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، اور مولف کتاب کو اس بحث و مناظرہ میں الجھنا پسند نہیں، لہٰذا یہ کو ئی بحث و مناظرہ کی کتاب نہیں، بلکہ مسئلہ تقلید کی علمی تحقیق ہے اور اس کا مقصد امت مسلمہ کی اس عظیم اکثریت کا موقف واضح کرنا ہے جو تقریباً ہر دور میں ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتی آئی ہے، نیز تقلید کے مسئلے میں افراط و تفریط سے ہٹ کر اس راہ اعتدال کی نشاندہی کرنا مقصود ہے جس پر اہل سنت علماءکی بھاری اکثریت گامزن رہی ہے، لہٰذا اس کو بحث و مناظرہ کے جذبہ سے نہیںبلکہ علمی حیثیت ہی میں دیکھا اور پڑھا جائے۔ تقلید کے خلاف پروپیگنڈہ آجکل متجددین اور اباحیت پسندوں کی طرف سے بھی شدو مد کے ساتھ ہو رہا ہے، امید ہے کہ انشاءاﷲ یہ رسالہ ان شبہات کو دور کرنے میں بھی معاون ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ناچیز کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے، اور یہ مسلمانوں کے لئے نافع اور مفید ثابت ہو۔ آمین
پردہ کا موضوع انتہائی اہم موضوع ہے اور اس سلسلہ میں کوتاہیاں بھی بہت زیادہ کی جاتی ہے۔ عوام الناس تو درکنار دیندار اور اہل علم گھرانوں میں بھی اس معاملہ میں شدید تساہل اور غفلت برتی جاتی ہے ، اسلیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حساس موضوع کو اجاگر کر کے مسلمانوں کو شرعی پردہ اور اس کے احکام کے بارے میں باخبر کر دیا جائے۔ مولف رسالہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور بہت سی مفید باتیں اس کتابچہ میں نقل فرمائی ہیں، امید ہے کہ اس سے قارئین کو دینی فائدہ پہنچے گا اور اس اہم مسئلہ پر عمل کرنے میں سہولت اور آسانی پیدا ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ اس کتابچہ کو نافع اور مقبول بنائے اور مولف محترم کے لیے دارین کا ذخیرہ بنائے۔آمین
اس کتاب میں حضرت امیر معاویہ پر ہونے والے سبائی و دیگر الزامات کا جواب دیا گیا ہے ۔ نیز آپ کی سیرت؛ آپکے فضاءل ومناقب؛آپکے عہد حکومت کے حالات اور آپ کے مخالفین کے تمام بے جا الزامات کا مدلل جواب دیا گیا ہے اور مشاجرات صحابہ کے مسئلہ میں اہل سنت کا معتدل موقف بھی دلا ئل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔
تفسیر معارف القرآن اردو زبان کی ایک مایہ ناز تفسیر ہے جو کہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کے قلم کا شاہکارہے۔
دورحاضر میں معارف القرآن کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں عام فہم انداز اختیار کیا گیا ہے اور عصر حاضر کے مسائل کا شرعی حل پیش کرتے ہوئے نئی نسل کی بھرپور راہنمائی کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔مفتی شفیع صاحب نے اس تفسیر میں جہاں تفسیری نکات و تشریحات درج کی ہیں وہاں جدید فقہی مسائل اور احکام کے قرآن مجید سے استنباط پر بھی خاص توجہ دی ہے، قرآن مجید کی تاریخی تحقیقات اور مذاہب باطلہ کا مدلل جواب اس پر مستزاد ہے،
آپ صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں ?
صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مسلمانوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اس کتاب میں سوال و جواب اور کوئزکی شکل میں صحابہ کے متعلق انفارمیشن دی گئی ہے۔ اور تقریبا تین سو سے زائد سوالوات اور جوابات کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا ہے۔
محرم کا مہینہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اس مہینہ میں عاشورہ کے دن کی بہت فضیلت احادیث میں مذکور ہے ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اللہ نے شہادت کا مرتبہ عاشورہ کے دن عطا فرمایا۔ واقع کربلا اور اس کے پس منظر پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت سے لوگوں نے محرم کی وجہ فضیلت واقعہ کربلا کا پیش آنا لکھا ہے اس واقعہ پر ایسی فرضی داستانیں گھڑی ہیں کہ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور ان کا مقصد اکابر صحابہ کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا کرنا ہے۔
اہل سنت والجماعت کے نمائندہ کئی علماء نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور کئی کتابیں،رسالے لکھے اور روایات صحیحہ کو بیان کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ ان گھڑی گئی داستانوں کی حقیقت بھی بیان کی۔اللہ جزائے خیر دے ان علماء کی جماعت کو جس نے امت کے سامنے اس مسلہ کو اس طرح واضح کیا ہے کہ اب عوام کے لیےان جھوٹے واعظوں کی گڑھی ہوئی روایات اور اصل واقعہ میں فرق کرنا کوئی مشکل نہیں۔
میں ان مستند کتابوں میں چند اہم کتابیں پوسٹ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ ان کتابوں میں نہ صرف واقعہ کربلا پر کو مستند روایات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے بلکہ اس واقعہ کےساتھ منسلک ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے اور معترضین کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔
۔زیر نظر رسالہ دراصل خارجیت کی تردید میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی تائید و ترویج کی ایک کاوش ہے جو دراصل حجة الاسلام استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا ایک مکتوب ہے۔حضرت نانوتوی قدس سرہ نے اس مکتوب گرامی میں شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر مجتہدانہ بحث فرمائی ہے اور یہ بھی ثابت فرمایا ہے کہ یزید کے کردار میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دامن بالکل پاک ہے اور ان پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا۔کچھ لوگ شیعیت کی تردید میں افراط و تفریط میں مبتلاہیں اور اہل سنت والجماعت کے اجماعی مسلک سے منحرف ہوئے ہے۔ حق تعالی ہم سب کو مذہب اہلسنت والجماعت کی اتباع، خدمت اور نصرت کی ہمیشہ توفیق عطا فرمائے آمین
URDU TRANSLATION OF THE ACTUAL DOCUMENT THAT WAS PREPARED & PRESENTED BY ULAMA IN THE PAKISTAN’S NATIONAL ASSEMBLY WHILE FIGHTING CASE AGAINST QADIYANIS, AFTER WHICH QADIYANIS WERE UNANIMOUSLY DECLARED A NON-MUSLIM MINORITY IN PAKISTAN.
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ جھوٹ سچ سے اور کھوٹا کھرے سے بالکل پیوست نظر آتا ہے۔جس طرح علم ظاہر کے حامل علمائے حق کی صفوں میں علمائے سوءداخل ہو چکے ہیں ، اسی طرح علم باطن کے حامل مشائخ حق پرست کے بھیس میں نفس پرست لوگ شامل ہو چکے ہیں۔ عوام الناس کی روحانی اور باطنی تنزلی کی انتہا یہاں تک ہو چکی کہ ایک طبقے نے بیعت طریقت کو لازم قرار دے کر فرائض کے ترک کرنے اور شریعت اور طریقت کو الگ الگ ثابت کرنے کا بہانہ بنا لیا ۔ ضلو ا فا ضلوا (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا)۔ دوسرے طبقے نے بیعت طریقت کو گمراہی سمجھ کر اس کی مخالف کا بیڑا اٹھا لیا۔ ویا اسفی
ان حالات میں اہل حق کیلئے افراط و تفریط کے شکار ان دونوں طبقوں سے چومکھی لڑائی لڑنے کے سوا چارہ نہیں۔ تاکہ احکام شریعت کو نکھار کر پیش کیا جائے اور حق و باطل کی حد فاصل کو واضح کیا جائے۔
زیر نظر کتاب میں مولف نے افراط و تفریط سے دامن بچائے ہوئے اہل سنت والجماعت کے حقیقی نقطہ نظر کو واضح کیا ہے۔علم تصوف، تصوف کیا ہے، لفظ صوفی کی تحقیق،بیعت طریقت کا شرعی ثبوت، ضرورت مرشد، آداب مرشد، خانقاہوں کا قیام، اعتقادات، اسباق تصوف، معمولات شب و روز، معارف و حقائق، اخلاق حمیدہ ، تصوف کے متعلق کیے جانے والے عمومی سوالات وغیرہ جیسے اہم ترین عنوانات پر تسکین بحث کی ہے۔رب کائنات سے دعا ہے کہ روز محشر اس ناچیز کوشش کو قبول فرما کر فقیر کو بخشش کئے ہوئے گنہگاروں کی قطار میں شامل فرمائے۔ آمین ثم آمین
صوفیاء کی بہت سی چیزوں پر لوگوں کو اعتراض ہے۔ حالانکہ بیعت صوفیاء کے یہاں لازم نہیں۔مگر اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہے۔حضرات صوفیاء کرام میں جو بیعت کا معمول ہے جس کا حاصل معاہدہ ہے التزام احکام و اہتمام اعمال ظاہری و باطنی کا جس کو ان کے عرف میں بیعت طریقت کہتے ہیں۔زیر نظر رسالہ اس سلسلے میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علیہ کی تقریر ہے۔ جس میں بیعت کی حقیقت پر روشنی ڈالی گءی ہے۔ اللہ اس رسالہ کے مولف ؛ مرتب؛ اور اشاعت و ترویج میں مدد دینے والوں کو صراط مستقیم پر استقام اور دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق عطا فرماءے اور ان کی اس سعی کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرماءے۔ آمین
اصول فقہ کے موضوع پر مجتہدین کے زمانہ سے اہل فقہ و فتاوی کتابیں لکھتے چلے آرہے ہیں، مذاہب حقہ میں سے ہر مسلک و مذہب کے اصول پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ فقہ حنفی کے مسلک اور امام ابو حنیفہ کے مذہب کو سامنے رکھتے ہوئے متعدد محققین احناف نے اصول فقہ پر تصنیف و تالیف کاکام کیا ہے ۔ متاخرین فقہاء کے مدون کردہ اصول فقہ کی دو قسمیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو وہ اصول فقہ جس میں الفاظ و معانی کے اعتبار سے مباحث ذکر کئے جاتے ہیں۔ اصول فقہ کا ایک حصہ اور بھی ہے جو اس سے کچھ مختلف ہے جس کے مضامین و مباحث اس سے جداگانہ ہوتے ہیں، جس میں عر رواج، تشبہ، عموم، بلوی، حیلہ، تاویل، تحریف، تداخل عبادتین، علت و حکمت وغیرہ اصولی مباحث ہوتے ہیں۔اصول فقہ کے پہلے جز پر اردو میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن دوسرے حصہ پر اردو میں کوئی کتاب نظر میں نہ آئی تھی، پیش نظر رسالہ میں حکیم الامت مجدد ملت کے گرانقدر ملفوظات بیش بہا مواعظ اور جملہ محققانہ تصانیف کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے اور اصول فقہ سے متعلق حضرت تھانوی کے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا ہے اور اصول فقہ سے متعلق حضرت تھانوی کے کلام میں جو بھی بات موجود تھی ان تمام شہ پاروں کو حسن ترتیب کے ساتھ چن چن کر اصول فقہ کی لڑی میں پرو دیا ہے۔اﷲسے دعا ہے کہ اس کتاب کو امت مسلمہ کے لئے نافع بنائے حضرت رحمہ اﷲاور ہم جملہ متوسلین کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین
برصغیر ہندو پاک کی تاریخ میں حضرت شاہ ولی اﷲکی شخصیت مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی سے پہلے بھی برصغیر میں ہر علم و فن کی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنے روشن کارناموں سے برصغیر کی عظمت میں چار چاند لگائے اور حضرت شاہ ولی اﷲکے بعد بھی بلند قامت شخصیتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں مسلمانوں پر برصغیر کی سرزمین سے اٹھنے اور یہاں پروان چڑھنے والی شخصیات کے احسانات رہے۔ لیکن حضرت شاہ ولی اﷲ کی جامعیت و آفاقیت ان کا اعتدال و توازن ان کے فکر کی گہرائی اور رسائی ان کی افراد سازی کی نظیر برصغیر کی تاریخ میں بہت مشکل سے ملے گی۔حضرت نے یہ بات محسوس کی کہ ایک طبقہ تقلید جامد میں غلو کر رہا ہے اور اس کے رد عمل میں امت میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہور ہا ہے جو سرے سے تقلید کا انکار کرتا ہے اور عامۃ الناس کے لیے بھی تقلید کو حرام کرتا ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ نے راہ اعتدال بتانے کی کوشش کی اور امت کے مختلف گروہوں کو علمی و فقہی طور پر ایکد وسرے سے قریب لانے اور ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن پیدا کرنے کے لیے اپنی علمی و فکری توانائیاں صرف کردیں۔ ہر طبقہ میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کی نشاندہی اور ہر طبقہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طبقہ نے اپنا انتساب حضر ت کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا اور جس راہ عمل کی نشاندہی کی تھی اس پر عمل کرنے کے بجائے حضرت کی شخصیت پرتنازعہ شروع کر دیا۔زیر نظر رسالہ میں اس کشمکش کو حل کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اللہ سے دعاہے کہ ہماری رہنمائی فرمائے ۔ آمین
زکوہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے؛ صاحب نصاب لوگوں کے لیے سالانہ ڈھاءی فیصد بطور زکوہ نکالنا فرض ہے؛ زکوہ نکالنے سے باقی ساڑھے ستانوے فیصد مال پاک ہو جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے اس مال کی حفاظت ہوتی ہے اور غریبوں کے گھر آبادرہتے ہیں۔مجتہدین کرام کو شریعت کی تدوین و تاسیس کا شرف حاصل ہے تو متاخرین کو تسہیل و ترتیب؛ تہذیب و تنقیح اور توسیع؛ تاکید و تلخیص کی فضیلت حاصل ہے۔ آج کے علماء کا امت پر بڑا احسان ہے کہ وہ اسلاف کے علمی جواہر پاروں کو امت کے سامنے ان کے مزاج اور ذوق کے مطابق پیش کردیں۔ اس خدمت کا احساس کرتے ہوءے محترم محمد انعام الحق صاحب نے زکوہ سے متعلق فقہی مساءل کو حروف تہجی کے حساب سے آسان اور سہل انداز میں ترتیب دیا ہے؛ جس کی وجہ سے عوام الناس کو انہیں تلاش کرنے میں آسانی ہوءی ہے۔اللہ تبارک وتعالی ان کی سعی کو قبول فرماءیں اور ہم سب کی نجات کا ذریعہ بناءے۔ آمین
زیر نظر کتاب میں مولف نے عصر حاضر کی اکثر بدعات کی محققانہ تردید کی ہے۔ نیز مبتدعین کے اعتراضات اور دلاءل کے جوابات نہایت عالمانہ اور دلکش انداز میں دیے گءے ہیں۔ بدعت شرعیہ کے حدود کو اس طرح متعین کرنا کہ امور انتظامیہ تعلیمیہ؛ اشغال صوفیہ؛ اور مباحات متجددہ ان سے خارج ہوں اور عقاءد و اہواء متحدثہ اور قربات و اعمال مختلفہ متعلقہ بالاموات وغیرہ ان میں داخل ہوں؛ ایک علمی اور دقیق مبحث ہے۔ اس کے مطالعہ سے بدعت و سنت کی حقیقت نمایاں طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس تالیف کو مقبول خاص و عام بناءے او رمولف کو جزاءے خیر عنایت کرے اور مخلوق ان کے فیض سے مستفید ہوتی رہے۔ آمین
Hey there! Looks like you're enjoying the discussion, but you're not signed up for an account.
When you create an account, we remember exactly what you've read, so you always come right back where you left off. You also get notifications, here and via email, whenever new posts are made. And you can like posts and share your thoughts.
Sign Up
Bookmarks