آنکھیں کھولئیے
آنکھیں کھولیئے
آنکھیں بند کرکے چلنا ایک شخص کے لئے جتنا مہلک ہوسکتا ہے اس سے بہت زیادہ مہلک ایک قوم کے لئے ہوتا ہے۔ آپ کھلے میدان میں بھی بند آنکھوں کے ساتھ چل کر ٹھوکر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ لیکن سڑک پر جہاں آمدورفت کا ہجوم ہو اور دو نوردوں کے درمیان کشمکش ہو رہی ہو اگر آپ آنکھیں بند کرکے چلیں گے تو یقینا آپ کو کسی مہلک حادثے سے دوچار ہونا پڑے گا ایسی ہی حالت ایک قوم کی سمجھ لیجئے۔
معمولی حالات میں جب فضا میں غیر معمولی ہنگامہ نہ ہو اس کے لئے آنکھیں جسمانی نہیں عقل و بصیرت کی آنکھیں بند کرکے چلنا محض نقصان اور مضرت کا موجب ہوتا ہے‘ مگر جب کوئی انقلاب درپیش ہو‘ جب قسمتوں کا فیصلہ ہو رہا ہو‘ جب زندگی و موت کا مسئلہ سامنے ہو ایسے وقت میں وہ آنکھیں بند کرکے چلے گی تو اسے تباہی اور ہلاکت سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جو لوگ خس و خاشاک کی طرح ہر رو پر بہنے کے لئے تیار ہیں اور جن کو خدا نے اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں دی ہے کہ اپنے لئے زندگی کا کوئی راستہ متعین کر سکیں اور ان کا ذکر فضول ہے۔ انہیں غفلت میں پڑا رہنے دیجئے۔ زمانے کا سیلاب جس رخ پر بہے گا وہ آپ سے ہی آپ اسی رخ پر بہہ جائیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں سے بھی قطع نظر کیجئے جو آنے والی انقلابی قوتوں پر سمجھ بوجھ کر ایمان لائے ہیں اور بلا ارادہ وہ اسی رخ پر جانا چاہتے ہیں جس پر زمانے کا طوفان دریا جارہا ہے۔ اب صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جو مسلمان ہیں‘ مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور تمنا رکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب زندہ رہے اور ہماری آئندہ نسلیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بتائی ہوئی راہ راست پر قائم رہیں۔ ان لوگوں کے لئے یہ وقت رواداری سے گزارنے کا نہیں بلکہ گہری سوچ اور غایت درجہ کی غور و فکر کا ہے۔ وہ اس نازک وقت میں غفلت اور لا پروائی سے کام لیں گے تو ایک جرم عظیم کا ارتکاب کریں گے اور اس جرم کی سزا صرف آخرت ہی میں نہ ملے گی بلکہ اسی نیا کی زندگی میں ان پر خوف چھا جائے گا۔ زمانے کا بے درد ہاتھ ان کی آنکھوں کے سامنے تہذیب اسلامی کے ایک ایک نشان کو مٹائے گا اور وہ بے بسی کے ساتھ اس کو دیکھا کریں گے۔ زمانہ ان کے قومی وجود کو ملیا میٹ کرے گا‘ ایک ایک کرکے ان امتیازی حدود کو ڈھائے گا۔ جس سے اسلام غیر اسلام سے ممیز ہوتا ہے‘ ہر اس خصوصیت کو فنا کر دے گا جس پر مسلمان دنیا میں فخر کرتا رہا ہے‘ وہ یہ سب کچھ دیکھیں گے اور کچھ نہ کرسکیں گے۔ ان کی آنکھیں خود اپنے گھروں میں اپنی نوخیز نسلوں کو خدا پرستی سے دور اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی اخلاقی سے عاری دیکھیں گی اور آنسو تک نہ بہا سکیں گے۔ ان کی اپنی اولاد اس فوج کی سپاہی بن کر اٹھے گی جسے اسلام اور اس کی تہذیب کے خلاف صف آرا کیا جائے گا اور اپنے جگر گوشوں کے ہاتھ سے تیر کھائیں گے اور جواب میں کوئی تیر نہ چلا سکیں گے۔
یہ انجام یقینی ہے اگر کام کے وقت کو غفلت میں کھو دیا گیا۔ انقلاب کا عمل شروع ہو چکا ہے اس کے آثار ہو چکے ہیں اور اب فکر کے لئے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے۔
آنکھیں بند کرکے چلنا ایک شخص کے لئے جتنا مہلک ہوسکتا ہے اس سے بہت زیادہ مہلک ایک قوم کے لئے ہوتا ہے۔ آپ کھلے میدان میں بھی بند آنکھوں کے ساتھ چل کر ٹھوکر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ لیکن سڑک پر جہاں آمدورفت کا ہجوم ہو اور دو نوردوں کے درمیان کشمکش ہو رہی ہو اگر آپ آنکھیں بند کرکے چلیں گے تو یقینا آپ کو کسی مہلک حادثے سے دوچار ہونا پڑے گا ایسی ہی حالت ایک قوم کی سمجھ لیجئے۔
معمولی حالات میں جب فضا میں غیر معمولی ہنگامہ نہ ہو اس کے لئے آنکھیں جسمانی نہیں عقل و بصیرت کی آنکھیں بند کرکے چلنا محض نقصان اور مضرت کا موجب ہوتا ہے‘ مگر جب کوئی انقلاب درپیش ہو‘ جب قسمتوں کا فیصلہ ہو رہا ہو‘ جب زندگی و موت کا مسئلہ سامنے ہو ایسے وقت میں وہ آنکھیں بند کرکے چلے گی تو اسے تباہی اور ہلاکت سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جو لوگ خس و خاشاک کی طرح ہر رو پر بہنے کے لئے تیار ہیں اور جن کو خدا نے اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں دی ہے کہ اپنے لئے زندگی کا کوئی راستہ متعین کر سکیں اور ان کا ذکر فضول ہے۔ انہیں غفلت میں پڑا رہنے دیجئے۔ زمانے کا سیلاب جس رخ پر بہے گا وہ آپ سے ہی آپ اسی رخ پر بہہ جائیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں سے بھی قطع نظر کیجئے جو آنے والی انقلابی قوتوں پر سمجھ بوجھ کر ایمان لائے ہیں اور بلا ارادہ وہ اسی رخ پر جانا چاہتے ہیں جس پر زمانے کا طوفان دریا جارہا ہے۔ اب صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جو مسلمان ہیں‘ مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور تمنا رکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب زندہ رہے اور ہماری آئندہ نسلیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بتائی ہوئی راہ راست پر قائم رہیں۔ ان لوگوں کے لئے یہ وقت رواداری سے گزارنے کا نہیں بلکہ گہری سوچ اور غایت درجہ کی غور و فکر کا ہے۔ وہ اس نازک وقت میں غفلت اور لا پروائی سے کام لیں گے تو ایک جرم عظیم کا ارتکاب کریں گے اور اس جرم کی سزا صرف آخرت ہی میں نہ ملے گی بلکہ اسی نیا کی زندگی میں ان پر خوف چھا جائے گا۔ زمانے کا بے درد ہاتھ ان کی آنکھوں کے سامنے تہذیب اسلامی کے ایک ایک نشان کو مٹائے گا اور وہ بے بسی کے ساتھ اس کو دیکھا کریں گے۔ زمانہ ان کے قومی وجود کو ملیا میٹ کرے گا‘ ایک ایک کرکے ان امتیازی حدود کو ڈھائے گا۔ جس سے اسلام غیر اسلام سے ممیز ہوتا ہے‘ ہر اس خصوصیت کو فنا کر دے گا جس پر مسلمان دنیا میں فخر کرتا رہا ہے‘ وہ یہ سب کچھ دیکھیں گے اور کچھ نہ کرسکیں گے۔ ان کی آنکھیں خود اپنے گھروں میں اپنی نوخیز نسلوں کو خدا پرستی سے دور اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی اخلاقی سے عاری دیکھیں گی اور آنسو تک نہ بہا سکیں گے۔ ان کی اپنی اولاد اس فوج کی سپاہی بن کر اٹھے گی جسے اسلام اور اس کی تہذیب کے خلاف صف آرا کیا جائے گا اور اپنے جگر گوشوں کے ہاتھ سے تیر کھائیں گے اور جواب میں کوئی تیر نہ چلا سکیں گے۔
یہ انجام یقینی ہے اگر کام کے وقت کو غفلت میں کھو دیا گیا۔ انقلاب کا عمل شروع ہو چکا ہے اس کے آثار ہو چکے ہیں اور اب فکر کے لئے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے۔