Malfoozat

  • Thread starter Thread starter azc
  • Start date Start date
  • Replies Replies 46
  • Views Views 10K
Koshish karo ki malumat mamulat ban jae (sh sulaima kattani ha)
 
Ta'alluq ma'a Allah hasil karne ki koshish karo (sh sulaiman kattani ha)
 
Fikr karo ki malumat mamulat me badal jaye. (sh sulaiman kattani ha)
 
[MENTION=40451]muqadas khan[/MENTION] :sl: it is not haraam for a man or woman to like a specific person whom he or she chooses to be a spouse, and feel love for that person and want to marry them if possible. Love has to do with the heart, and it may appear in a person’s heart for reasons known or unknown. But if it is because of mixing or looking or haraam conversations, then it is also haraam. If it is because of previous acquaintance, being related or because of hearing about that person, and one cannot ward it off, then there is nothing wrong with that love, so long as one adheres to the sacred limits set by Allaah
 
Last edited:
احمد تو عاشقی بمشیخیت ترا چہ کار
دیوانہ باش سلسلہ شد شد نشد نشد
)مجمع بڑھانے کی کوشش( فضول تو اسی درجہ میں ہے جب کہ
اس سےضروریات و معمولات میں خلل نہ ہو،
اگر اس کی بھی نوبت آنے لگے تو پھر سدراہ ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نیت تو مخلوق کی ہدایت ہے،
سو یاد رکھو کہ
اصل مقصود اپنا وصول الی اللہ ہے،
دوسروں کا ایصال بھی اسی لئے مطلوب ہے کہ
اس کے ذریعہ سے ہم کو بھی وصول تام ہو جاۓ،
حق تعالی راضی ہوجائیں۔
ورنہ ایصال خلق خود بالذات مطلوب نہیں،
خصوص جبکہ مخل وصول ہونے لگے۔
پس اصلی کوشش اپنے وصول کے لئے کرنا۔
البتہ بدون کاوش اور گھیر گھار کے کوئی طالب آجاۓ اور اس
کی طلب بھی محقق ہوجاۓ
تو اس کی خدمت کردینے کا بھی مضائقہ نہیں، بلکہ طاعت ہے۔
باقی یہ کیا واہیات ہے کہ ساری کوشش سلسلہ بڑھانے ہی
کے لئے کی جاتی ہے اور
اپنے وصول کی فکر نہیں۔
وعظ: الوصل وہلفصل، خطبات حکیم الامت رح، جلد 15/ص 192
 
مکتوب شریف حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی نقشبندی )وفات ۱۲۳۹ھ( رحمۃ اللہ علیہ، فرزند و جانشین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
یہ مکتوب آپ نے فرنگی کی نوکری کی وضاحت کے متعلق جضرت قطب الاقطاب شاہ غلام علی نقشبندی مجددی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا۔
زبان: فارسی

اردو ترجمہ: مولوی محمد سلیمان بدایونی و مولوی محمد جمیل الدین بدایونی

حوالہ: فضائل صحابہ و اہل بیت مع مکتوبات شاہ عبدالعزیز و شاہ رفیع الدین دہلوی، قومی کتب خانہ، لاہور، فروری ۱۹۶۷



شاہ صاحب عرفان مراتب، سلمکم اللہ تعالیٰ۔ بعد سلامِ مسنون معلوم ہو کہ آپ کا خط ملا جس میں آپ نے اس مدرسہ میں چند روز سے فرنگی کی نوکری عہدۂ مفتی قبول کرنے کی خبر سن کر متفکر ہونے کا حال لکھا ہے۔ کچھ خبر تو صحیح ہے اور کچھ صحیح نہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ مولوی رعایت علی، فرنگی کے مختارکار بہت امادہ ہیں اور بار بار مجھے لکھا کہ ایک عالم جو متدین ہو اور رشوت خور نہ ہو اور فقہی مسئلوں سے خوب واقف ہو میرے پاس بھیج دیجئے تاکہ میں ہر واقعہ اور حادثہ میں فقہ کے بموجب فیصلہ کر سکوں۔ یہاں سے یہ لکھا گیا کہ آپ فرنگی کے نوکر اور دبے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ خلافِ شریعت احکام کی تعمیل کا حکم دیں اور ایسی حالت میں اس شخص کو فرنگیوں سے ملنے کی ضرورت پڑے اور امورِ اسلام میں سستی کا باعث ہو۔ وہاں سے بڑی تاکیدوں کے ساتھ تحریر آئی کہ اس شخص کو فرنگیوں سے ملنے کی قطعاً ضرورت نہ ہوگی اور نہ انہیں خلافِ شرع حکم کی تکلیف دی جاوے گی، بلکہ شہر میں ایک علیٰحدہ مکان میں قیام کریں گے اور شرعِ محمدی کے مطابق بے کھٹکے حکم کریں۔ ان تحریرات کے موصول ہونے پر اس پر غور و فکر کیا گیا کہ کافروں کے ساتھ ایسا تعاونِ عمل جس سے شرعی احکام کا رواج متصور ہو شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ آیت دل میں:

قال الملك اجعلني …. اني حفيظ عليم )سورة يوسف(

بیضاوی نے کہا کہ اس آیت میں کافر سے ملازمت چاہنا اور اس کے متعلق مدد کرنا اور ملازمت کرنا جبکہ خلق پر اقامت حق اور سیاست کی کوئی راہ نہ ہو سوائے اس کے اس کے جواز کی دلیل ہے۔

یہ تو شریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ رہا طریقت کی بابت، تو ترک و تجرید اور فقر کا اختیار کرنا اور کسب کو چھوڑنا جملہ طریقوں میں اس شخص کے لئے ہے جو اپنے اختیار سے اس ترک کو اپنے اوپر لازم کر لے اور کسی کے ہاتھ پر اس عہد کی بیعت کرے۔ جب کوئی شخص ایسے فقر کا التزام اور اس پر عہد نہ کرے اور دنیاوی علائق سے تعلق اور ملازمت کرنے کے باوجود اسے مشغولی باطن ذکر و فکر کرنے سے اور مشاہدہ حاصل ہوتا ہے، بالجملہ کسبِ معاش اور تعلق کی اجازت ہے۔ یہ طریقت میں حرام نہیں ہیں، ورنہ قاضیوں اور دیگر اہل پیشہ کو طریقت کی تعلیم دینا جائز نہ ہوتا۔ حالانکہ اس فرقہ کے بہت اشخاص اولیائے اکابر ہوئے ہیں اور تکمیل اور کمال کے درجہ پر پہنچے ہیں۔ پھر ایک مبتدی کا کیا ذکر ہے۔

اس طریقت میں ترک اور تجرید قصد اور ارادے سے ہوتی ہے اور وہ بھی چند شرطوں کے ساتھ، یعنی بال بچے نہ ہوں اور والدین نہ ہوں، کیونکہ ان کی خدمت فرض ہے۔ اور قرابت دار نہ ہوں جن پر شفقت واجب ہے۔ پس قابل غور یہ ہے کہ اس میں کافروں کی صحبت اور حدودِ اسلام میں سستی یا کفر کی رسوم میں ان کی موافقت یا ان کی خوشامد یا کذب یا دیگر مفاسد کا کوئی خوف اور اندیشہ نہیں ہے جو مالدار مصاحبوں کو لاحق ہوتا ہے۔ پس یہ شریعت اور حقیقت دونوں میں بلا شک و شبہ مباح ہے۔ مثلاً ہم نے سنا ہے اور دیکھا ہے کہ خلفاء اور بعض اصحاب اور اولیاء معلّم گری کرتے اور یہودی بچوں کو پڑھاتے اور عمدہ بشارات حاصل کرتے تھے۔ پھر ایسے شخص کا کیا ذکر ہے جس نے ابھی اس وادی میں قدم نہ رکھا ہو اور ترک اور تجرید کو اختیار نہ کیا ہو۔

ان امور مرقومہ کی بنا پر یہ تجویز کیا گیا تھا کہ مولوی عبدالغنی صاحب یہاں سے جاویں۔ اور اگر وہ برائیاں نہ ہوں جن کا وہم و گمان ہے تو خیر، ورنہ لوٹ آویں۔ جب اتنا معلوم تھا تو دل میں برافروختگی نہ ہونی چاہیے تھی اور اتنا ذہن نشین مجملاً ہونا چاہیے تھا کہ میں نے بھی عمر بھر ان مذکورات میں صرف کی ہے اور اپنے آباؤ اجداد کی وضع کو دیکھا اور سنا ہے۔ دفعۃً کوئی ناپسندیدہ حرکت بلا حجت شرعی اور حقیقت کی بابت بلا سوچے سمجھے نہ ہوگی جو مکروہ اور بری ہوں نہ اپنے لئے اور نہ دوسروں کے لئے تجویز کی جاوے گی۔ زیادہ کیا لکھوں۔

والسلام والاکرام
 

Similar Threads

Back
Top