ادریس آزاد
تُو رزم گاہ ِ تجسس میں دُو بدُو بھی نہیں
شکست خوردہ نہیں میں تو سرخرو بھی نہیں
…
اُسے تو عالم ِ لاھوت کہہ کے ٹال دیا
وہاں سے خاک ملے گی وہاں تو ’’ھُو‘‘ بھی نہیں
…
تجھے جہاں کے پس و پیش میں تلاش کیا
تو جابہ جا بھی نہیں ہے، تو رُو بَرُو بھی نہیں
…
خیال و خواب میں بستے ہیں تُو بھی، میں بھی مگر
جہاں میں، میں بھی نہیں ہوں، جہاں میں تُو بھی نہیں
…
سِرے سے کچھ بھی نہیں ہے کہ جو حقیقت ہو
یہ سنگ و خشت خیالی ہیں ان کو چھُو بھی نہیں
…
کہیں ثبوت نہیں ہے وجود کا کوئی
جو میرے دِل میں نہیں ہے وہ چارسُو بھی نہیں
…
یہ سوزو ساز، یہ درد و الم، یہ رقص و سرود
یہ دل بھی، آنکھ بھی، طوفان بھی، لہوبھی نہیں
…
میرا یہ غم کہ کبھی کامیاب ہونہ سکا
تری خوشی کے ترے رُو برو عدو بھی نہیں
…
نہیں نہیں کوئی باطل نہیں، کوئی بھی نہیں
کسی شریر میں جب سرکشی کی خُو بھی نہیں
…
تمام لفظ ہمیشہ سے بے معانی ہیں
یہ اتنا سچ ہے کہ اب اس پہ گفتگو بھی نہیں
…
مجھے یقیں ہے کہ میں ہی نہیں کہیں موجود
تو اس کے بعد مجھے تیری جستجو بھی نہیں
…
میں خود کو سارے زمانے میں دیکھ آیا ہوں
میں در بدر بھی نہیں ہوں ، میں کُو بہ کُو بھی نہیں