سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ کی ضرورت
اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے کہ قلب کی اصلاح اور ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے موثر واقعات اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ کی ضرورت ہے، امام ابن جوزی اپنی تصنیف صید الخاطر میں فقہاء و محدثین اور طلبہ و علماء کو اس کا مشورہ دیتے ہیں، اور اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں، صید الخاطر میں ایک جگہ لکھتے ہیں
میں نے دیکھا کہ فقہ اور سماع حدیث میں انہماک و مشغولیت قلب میں صلاحیت پیدا کرنے کے لئے کافی نہیں، اس کی تدبیر یہی ہے کہ اس کے ساتھ موثر واقعات اور سلف صالحین کے حالات کا مطالعہ بھی شامل کیا جائے، حرام و حلال کا خالی علم قلب میں رقت پیدا کرنے کے لئے کچھ زیادہ سودمند نہیں، قلوب میں رقت پیدا ہوتی ہے، موثر احادیث و حکایات سے اور سلف صالحین کے حالات سے، اس لئے کہ اُن نقول و روایات کا جو مقصود ہے، وہ ان کو حاصل تھا، احکام پر ان کا عمل شکلی اور ظاہری نہ تھا، بلکہ ان کو ان کا اصلی ذوق اور لبّ لباب حاصل تھا، اور یہ جو میں تم سے کہہ رہا ہوں وہ عملی تجربہ اور خود آزمائش کرنے کے بعد ہے، میں نے دیکھا ہے کہ عموما محدثین اور طلبۂ فنِ حدیث کی ساری توجّہ اونچی سند حدیث اور کثرتِ مرویات کی طرف ہوتی ہے، اسی طرح عام فقہاء کی تمام تر توجہ جدلیات اور حریف کو زیر کرنے والے علم کی طرف ہوتی ہے، بھلا ان چیزوں کے ساتھ قلب میں کیا گداز اور رقت پیدا ہو سکتی ہے، سلف کی ایک جماعت کسی نیک اور بزرگ شخص سے محض اس کے طور طریقہ کو دیکھنے کے لئے ملنے جاتی تھی، علم کے استفادہ کے لئے نہیں، اس لئے کہ وہ طور و طریقہ اس کے علم کا اصلی پھل تھا، اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لو اور فقہ و حدیث کی تحصیل میں سلف صالحین اور زہّادِ امت کی سیرت کا مطالعہ ضرور شامل کرو تاکہ اس سے تمہارے دل میں رقّت پیدا ہو۔
میں نے دیکھا کہ فقہ اور سماع حدیث میں انہماک و مشغولیت قلب میں صلاحیت پیدا کرنے کے لئے کافی نہیں، اس کی تدبیر یہی ہے کہ اس کے ساتھ موثر واقعات اور سلف صالحین کے حالات کا مطالعہ بھی شامل کیا جائے، حرام و حلال کا خالی علم قلب میں رقت پیدا کرنے کے لئے کچھ زیادہ سودمند نہیں، قلوب میں رقت پیدا ہوتی ہے، موثر احادیث و حکایات سے اور سلف صالحین کے حالات سے، اس لئے کہ اُن نقول و روایات کا جو مقصود ہے، وہ ان کو حاصل تھا، احکام پر ان کا عمل شکلی اور ظاہری نہ تھا، بلکہ ان کو ان کا اصلی ذوق اور لبّ لباب حاصل تھا، اور یہ جو میں تم سے کہہ رہا ہوں وہ عملی تجربہ اور خود آزمائش کرنے کے بعد ہے، میں نے دیکھا ہے کہ عموما محدثین اور طلبۂ فنِ حدیث کی ساری توجّہ اونچی سند حدیث اور کثرتِ مرویات کی طرف ہوتی ہے، اسی طرح عام فقہاء کی تمام تر توجہ جدلیات اور حریف کو زیر کرنے والے علم کی طرف ہوتی ہے، بھلا ان چیزوں کے ساتھ قلب میں کیا گداز اور رقت پیدا ہو سکتی ہے، سلف کی ایک جماعت کسی نیک اور بزرگ شخص سے محض اس کے طور طریقہ کو دیکھنے کے لئے ملنے جاتی تھی، علم کے استفادہ کے لئے نہیں، اس لئے کہ وہ طور و طریقہ اس کے علم کا اصلی پھل تھا، اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لو اور فقہ و حدیث کی تحصیل میں سلف صالحین اور زہّادِ امت کی سیرت کا مطالعہ ضرور شامل کرو تاکہ اس سے تمہارے دل میں رقّت پیدا ہو۔